اردو ادب میں تنقیدی روایات جن معتبر ناقدین کی وجہ سے شعور و بصیرت سے مامور ہیں ان میں عابد علی عابد کا نام بہت نمایاں ہے ۔ اردو ادب میں انگریزی ادب کے گہرے اوروسیع مطالعے کے مالک بہت کم ناقدین نظرآتے ہیں ۔ اُن میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ، حسن عسکری، کلیم الدین احمد، اور عابد علی عابد کا نام اعتماد کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عابد علی عابد اس لحاظ سے دوسر ے ناقدین میں منفرد مقام رکھتے ہیں کہ ان کے ہاں روایت پسندی نظر آتی ہے۔ وہ توڑ پھوڑ اور تخریبی رویہ جو کلیم الدین احمد، حسن عسکری اور احسن فاروقی کی تنقید میں موجود ہے عابد علی عابد کے ہاں معتد ل اور متوازن ہو جاتا ہے۔ اس بنا ءپر ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں،
” مشرقی تنقید سے عابد صاحب کو جو بے پنا ہ لگائو تھا وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ قدم قدم پر اس کی حمایت میں سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔“
روایت:۔
عابد علی عابد نے اپنی تنقیدی بصیرت میں جہاں مغرب کے بھر پور مطالعے سے فائدہ اُٹھایا وہاں مشرقی اقدار کی پاسداری کا حق بھی ادا کیا ۔ ہماری تنقید میں ایک ایسا دور بھی آیا ۔ جب روایت اور بغاوت اور ان سے وابستہ مسائل پر گرما گرم بحثیں ہونے لگیں۔ ترقی پسند ادب میں پہلی بار ادب کے مادی تشکیل کا نظریہ پیش کیا گیا اور محنت کش طبقے کی حمایت میں ہنگامی ادب کو فروغ دیا گیا ( ہنگامی ادب سے مراد صحافتی ادب جو ایک دن کا ہوتا ہے) اب تنقیدی رویوں میں بھی روایت پسندی کو برا سمجھا گیا اور نئے انتہا پسند انہ رویے سامنے آئے۔ جن میں مردہ سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا شدہ روایت کی تکذیب کی گی یعنی بر بھلا کہا گیا۔ ایسے حالات میں روایات کا دفاع کرنے والوں میں ٹی۔ایس ایلیٹ کی بھر پور چھاپ صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ جو روایت کا حامی ہے اور روایت کے ذریعے نئے آنے والے ادب کی تشکیل و تعمیر کا نظریہ پیش کرتا ہے۔
بطور خاص اُن کا ایک مضمون Tradition and Individual Talentیعنی روایت اور انفرادی صلاحیت آج بھی روایت پسندوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ ”اصول انتقاد ادبیا ت “ میں عابد علی عابد نے سب سے پہلے روایت اور روایت پسندی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کے بعض جملے ایلیٹ کے مذکورہ مضمون کے بامحاورہ ترجمے معلوم ہوتے ہیں۔مثلا ایلیٹ نے لکھا ہے۔
”The past should be altered by the present as much as the present is directed by the past“
عابد علی عابد لکھتے ہیں،
” جہاں ماضی حال کو متاثر کرتا ہے ، وہاں حال اور مستقبل کے امکانات کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔“
عابد علی عابد کی تنقید میں روایت ہی نہیں بلکہ مشرقیت رچی بسی ہے وہ جدید علوم اور مغرب کے تنقید ی نظریات سے واقف ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے تنقیدی مزاج کی مشرقیت کو نہیں چھوڑا ۔ بلکہ زیادہ صحیح تو یہ ہے کہ ان کی تنقید کلاسیکی اصولوں سے رنگ افروز ہے۔ اس ضمن میں اُن کاکمال یہ ہے کہ انہوں نے نہ تو مشرق کے روایتی کلاسک اصولوں کو پیمانہ بنایا اور نہ مغرب کی اندھا دھند تقلید کی بلکہ ان کے وسیع مطالعے اور مغربی علوم سے واقفیت نے انہیں اندھا دھند انتہا پسندی سے بچا لیا ۔وہ بعض ناقدین کی طرح مغرب کی اپنے لئے احساس کمتری یعنی Complexنہیں بناتے۔
انہوں نے جدید ذہن کے حامل قاری کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ کلاسیکی تنقیدی روایات محض اگلے وقتوں کے لوگوں کی نشانیاں نہیں بلکہ آج بھی اُن سے رہنمائی کا کام لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے جدید ترین انداز میں سوچا اور عہد جدید کی ادبیات کو پرکھنے کے لئے کلاسیکی روایات سے استفادہ کیا۔ اس لئے وہ تو کلاسیکی نقاد کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔
عابد علی عابد نے قدیم تذکروں اور تنقیدی نظام کو اہم مباحث کے ذریعے آب و تا ب ہی نہیں بخشا بلکہ روایت کا تصور پیش کرکے اُسے جدید تنقید سے ہم آہنگ بھی کیا ہے ۔ اُن کے ہاں روایت کا تصور بڑا حیات آفرین ہے ۔ وہ روایت کوایک زندہ قوت قرار دیتے ہیں ۔ ادبی روایت کا یہ حیات آفرین تصور ”وقت“ کے مسئلے پر فلسفیانہ غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ ان کے ہاں وقت کا تصور ذرا مختلف ہے ان کا خیال ہے کہ وقت مسلسل رواں ہے اس میں لمحہ موجود کوئی نہیں ۔ ماضی ، مستقبل کی طرف سفر کر رہا ہے یا مستقبل ماضی کے واقعات کی طرف لوٹ رہا ہے وقت کے اس تصور نے ان کے روایت سے متعلق بنیادی نظریات میں فکر کی روشنی پیدا کی ہے۔
اصناف ادب کی تقسیم:۔
روایت کی پاسدار ی کے علاوہ ان کے تنقیدی نظریات میں نفسیاتی انداز فکر بھی نمایاں ہے۔ اسی انداز فکر نے ادب کو مختلف اصناف میں تقسیم کرتے وقت ان کے پیچھے کارفرما نفسیاتی قوتوں کا ادراک کیا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ تمام اصناف ادب تین نفسیاتی قوتوں کے مظہرہیں۔
(١) ذوق داستان سرائی (مرثیہ ، مثنوی ، قصیدہ ، داستان) (٢) ذوق خود نمائی(غزل (٣)ذوق بزم آرائی (ڈرامہ ، افسانہ ، ناول
ان تین ارتقائی مدارج کے پیچھے انسانی ذہن کی ترقی منازل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انسان مختلف مدارج حیات میں جن راہوں پر چلا ہے ان کو ادبی سرمائے میں تلاش کیا گیا ہے۔ ابتداءمیں جب انسان اپنی ذات کے تحفظ اور بقاءکے لئے بیرونی قوتوں سے نبرد آزما تھا تو اس وقت ذوق داستان سرائی نے جنم لیا ۔ اور انسان نے اپنی مہم جوئی ، فتح یابی اور رومانوی خوابوں کو داستان میں سمویا۔ اردو ادب میں داستانیں ، مثنویاں اس دور کی دین ہیں۔ ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد انسان کا رجحان خارج سے داخل کی طرف ہوا اور اس نے اپنے داخل کی یاترا اور باطنی قوتوں کو ڈھونڈ نے کی کوشش کی۔ اب اُسے اجتماع میں سے اپنی انفرادی شناخت کا حوالہ چاہیے تھا۔ یہ انفرادیت پسندی غزل اور فکر انگیز فلسفیانہ شخصی شاعری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ دور ذوق خود نمائی کا تھا ۔ صدیوں کے باہمی میل جول اور تہذیبی ارتقاءکے بعد انسان اس منزل پر پہنچا جہاں اس نے مظاہرفطرت اور داخل کی سیاحت چھوڑ کر ”مظاہر انسانی“ کا مشاہدہ و مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اس نے مل جل کر رہنا ایک دوسرے کے دکھ دربانٹنا سیکھ لیا۔ یہ ارتقائی درجہ ڈرامے ، افسانے اور ناول میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ انسانی نفسیات کے پس منظر میں عابد علی عابد کے یہ نظریات تنقید میں ایک نئے خوشگوار اضافے کا باعث ہے ۔ اردو تنقید میں اس انداز کی ایک اور کوشش ڈاکٹر وزیرآغا کی کتاب ”اردو شاعری کا مزاج “ میں نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا عابد علی عابد کے مشرقی مزاج کو مغربی تنقید ی اصول برتنے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں ان کاخیال ہے کہ عابد علی عابد کا مشرقی مزاج مغرب کے تنقیدی تجزیاتی عمل کا متحمل نہیں ہے۔ اس سلسلے میںان کے الفاظ یہ ہیں۔
” مگر عابد صاحب کا مشرقی مزاج مغربی تنقید کے تجزیاتی عمل کا متحمل نہ ہو سکتا تھا چنانچہ انہوں نے جہاںایسی کوشش کی تو ذوق داستان سرائی ، ذوق خود نمائی اور ذوق بزم آرائی سے آگے نہ جا سکے۔“
ذوق سلیم:۔
ادب کی تفہیم و تشریح اور تنقیدی فیصلوں میں عابد علی عابد نے ذوق سلیم کو بے حد اہمیت دی ہے۔ ذوق سلیم کلاسیکی تنقید میں اساسی اہمیت رکھتا ہے اگرچہ یہ ادب کے لئے معیار نہیں لیکن ادب فہمی میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ عابد علی عابد نے اپنے تنقیدی نظریات میں ذوق سلیم کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے اسے ادب کے لئے معیار قرار دیا ہے۔ چنانچہ ذو ق سلیم کی وضاحت کرتے ہوئے ”اصول انتقاد ِ ادبیات“ میں لکھتے ہیں ۔
١ ”سخن فہمی کے لئے شرط ِ لازم یہ ذوق سلیم ہے۔“
٢ ”جس منزل تک شاعر پہنچنا چاہتا ہے وہاں تک صاحبِ ذوق ِ سلیم کا ذہن بھی اُن الفاظ کی مدد سے پہنچ جاتا ہے ۔ جو اشعار میں استعمال ہوتے ہیں۔“
٣ ”وہ تمام تحریریں ادب کے دائرے میں داخل سمجھی جائیں گی جن کے مطالب کو ذوق سلیم معیاری تصور کرے گا۔“
٤ ”مذاقِ سلیم طویل علمی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور خود شاعر کو بھی اور قاری کو بھی اس سے بہریاب ہونا چاہیے کہ اس کے بغیر اس کی تخلیقات اور قاری کی تنقید بحرحال ناقص رہے گی۔“
اصول تنقید و ادب کا مرتب کرنا:۔
اصول انتقاد ادبیا ت جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ادبی تنقید کے رہنما اصولوں پر بحث کرتی ہے۔ ارد و تنقید میں تنقیدی اصولوں سے بحث کرنے والی کتابیں محدود ہے۔ اس کتاب میں اصناف ادب اور تنقید سے وابستہ مسائل و مباحث کو اکھٹا کیا گیا ہے۔ او ر کچھ ایسے ادبی اقدار کی تشکیل نو کی کوشش کی گئی ہے۔ جن کی روشنی میں اصناف ادب اور مختلف تخلیقات پر عملی تنقید کی جا سکتی ہے۔ عموماً ہمارے ہاں مغربی اثرات کے حامل ناقدین ایک بنیادی غلطی کا شکار ہیں۔ وہ مغربی تنقید ی نظریات کا ذکر کرتے ہیں اور انہیں برتنے پر زور دیتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں یعنی وہ نظری تنقید پر تو بات کرتے ہیں مگر خود اپنی تخلیقات کو بھی عملی تنقید پر نہیں پر کھ سکتے ۔ عابد علی عابد اس غلطی سے مبراءہیں۔ وہ تنقید کے جو اصول وضع کرتے ہیں عملی طور پر انہیں برت کر ثابت کر سکتے ہیں ۔
دیگر مقالات سے قطع نظر تنقید کے سلسلے میں عابد علی عابد کی سب سے اہم کتاب ”اصول انتقاد ادبیات“ ہے۔ اپنے اصول کے اعتبار سے اردو تنقیدی تاریخ میں یہ پہلی کتا ب ہے۔ جس میں مشرق و مغرب کے ادب اور اُن کے تنقیدی اصولوں کے ساتھ رکھ کر انہیں دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دونوں کے باہمی رشتوں اور مشترک قدروں پر غور کیا گیا ہے ۔ اس کتاب میں ادب کے دوبڑے شعبوں نظم و نثر میں تقسیم کرکے دونوں کو مختلف اجزاءترکیبی کو الگ الگ پرکھنے اور جانچنے کے بعد اصول مرتب کئے گئے ہیں۔ اردو ادب میں کوئی دوسری ایسی کتاب موجود نہیں جس میں عالمی ادب کو ذہن میں رکھ کر ادب اور اس کے بنیادی مسائل اُٹھائے گئے ہوں۔ اس کتاب میں مشرق و مغرب کے اصول تنقید میں ربط پیدا کیا گیا ہے۔ اور ان کے درمیان مصنوعی فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی اہم اصناف مثلاً داستان ، افسانہ ، ناول ، ڈرامہ، غزل ، مثنوی ، قصیدہ اور نظم کے مزاج کا تجزیہ کرکے ان کی الگ الگ تنقید ی حیثیت متعین کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ادب کے متعلق بعض مروجہ اصلاحات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اور نہایت اختصار کے ساتھ ان اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے۔ مثلاً ان کے چند بیانات قابل غور ہیں۔
آرٹ:۔
”آرٹ فطرت پر روح انسانی کا عمل ہے مراد یہ ہے کہ انسان کا ذہن اپنی واردات کے لئے کسی مادی وسیلے کو ذریعہ بناتا ہے۔سنگ تراش پتھر سے کام لیتا ہے ۔ مصور خطوط و رنگ سے، ادیب الفاظ سے ، یہی انسان کا آرٹ ہے۔ یعنی مادی وسائل کے ذریعے باطنی ، روحانی ذہنی واردات کا اظہار ۔“
ادب:۔
”وسیع تر معنی میں ادب انسان کے افکار و تصورات کا تحریر ی بیان ہے۔“
انتقاد:۔
”اصطلاح میں ادبی تخلیقات کو پرکھنا اور ان کی قدر و قیمت کو متعین کرنا انتقاد کہلاتا ہے۔“
کلاسیک:۔
”کلاسک میں اپنے زمانے کی ثقافت اور تمدن کے تمام دھاروں اسلوبوں اور لہجوں کی مکمل ترجمانی ہوتی ہے یعنی کلاسیک میں کم بیش تمدن کے تمام عزائم و اعمال جلوگر نظر آتے ہیں ۔“
ادب میں الفاظ کی اہمیت:۔
اصول انتقاد ادبیات کا ایک اہم اور دلچسپ باب وہ جس میں ”ادب میں الفاظ کی اہمیت “ پر بحث کی گئی ہے۔ اس باب میں علم عروض ، علم قافیہ ، وزن ، بحر، روزمرہ و محاورہ ، تشبیہ ، استعارہ ، مجاز مرسل ، کنایہ ، اور فصاحت و بلاغت وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ عابد علی عابد نے اس باب میں پرانے ناقدین کی طرح صرف فطری بحثوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فارسی اور اردو کے اشعار اورمشرق و مغرب کے اہل قلم کے اقوال کے ذریعے اپنی بحث کو دل چسپ ، معلومات افزاءاور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کی ہے اور انگریزی ادب کے حوالوں سے یہ بھی بتایا گیا ہے۔ کہ الفاظ کی اہمیت ہر زبان میں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے۔ خصوصاً تشبیہ اور استعارے کی بحث نہایت نتیجہ خیز ہے ۔ وہ لکھتے ہیں،
” عربی فارسی کے نقاد ہو یا مغرب کے انشاءپرداز دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ تشبیہ اور استعارہ دقیق اور لطیف کیفیات کی ترجمانی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ خیال جتنا لطیف ، دقیق ، نفیس ، پیچدار اور بلند ہوتا ہے اس نسبت سے تشبیہ اور استعارے کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔“
ادب میں اور بالخصوص مشرقی ادبیات میں فن پارے میں موجود خیال کے باری میں اس بات پر اتفاق ہے کہ تخلیق میں پیش کردہ خیال الہامی اور وہبی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مشرق و مغرب کے ناقدین میں اختلاف پا یا جاتا ہے۔ مغربی ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ خیال محرکا ت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ اردگرد مظاہر فطرت اور مظاہر انسانی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں عابد علی عابد کا نظریہ یہ ہے کہ
” صرف یہی نہیں کہ آرٹ صورت پزیر ہوتا ہے ۔ بلکہ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وجود میں آنے سے پہلے ، صورت پزیری سے پہلے یعنی دنیائے خارج میں متشکل ہونے سے پہلے ذہناً موجود ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر تخیل کے سانچے میں ڈھلتاہے۔“
یہ خالص مشرقی انداز نظر ہے۔ جس کے مطابق خیال آسمان سے ناز ل ہوتا ہے ۔ دوسری طرف نفسیاتی ، تاریخی ، معاشی او ر تہذیبی عوامل کی نشان دہی کی ہیں ۔ جو خیال کی تعمیر میں صرف ہوتے ہیں ۔ حقیقی معنوں میں یہ عمل تجزیاتی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر مشرق و مغرب کی ان نظریات کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات بطور خاص کہی جا سکتی ہے کہ مشرقی تنقید ” نظری “ ہے۔ اور مغربی تنقید ” عملی “ اور دونوں کا انفرادی مزاج خیال کے سلسلے میں سامنے آیاہے۔ دراصل خیال الہامی صلاحیت ہے لیکن اس کے لئے محرکات کی ضرورت اشد ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
عابد علی عابد تحقیق و تنقید کا نہایت فکر انگیز شعور اور پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔ ان کا مطالعہ تو خیر وسیع تھا ہی ۔ لیکن ان کا مذاق سلیم ان سے بڑھ کر تھا چونکہ خود بھی بلند مرتبت شاعر تھے۔ اس لئے تنقید میں تخلیقی عمل کو سمجھتے تھے اس کے علاوہ اسی تخلیق خوبی کی بناءپر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی تنقیدی تحریر خود ایک طرح کی تخلیق بن جاتی ہے۔ مطالعے کو نظر کی وسعت درکار ہوتی ہے۔ لیکن ان خوبیوں کے باوجود کچھ تنقید کا حق اد ا نہیں کرپاتے ۔ ایسا مذاق ِ سلیم کی نا پختگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مذاقِ سلیم سے بےگانہ ناقدین کی تحریریں بے رس، بےکیف غیر ادبی اور غیر تخلیقی ہوتی ہیں۔ بلکہ وہ تنقید نہیں ادبی رپورٹنگ کا کام ہوتا ہے۔ اس قسم کی تنقید ادبی تنقید کا منصب پورا نہیں کرتی ۔ عابد علی عابد کی تنقید نہ صرف ادبی حیثیت سے بلند پایہ ہے بلکہ عموماً وہ اپنے ہی تجربات ، مشاہدات اور نتائج کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کو تخلیقی سطح پر پہنچا دیتے ہیں ایک شاعر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ نقاد ہو اور نہ ایک نقاد کے لئے لازم ہے کہ وہ تخلیق کار بھی ہو لیکن اگر ایسا ہو تو تو یہ سونے پر سہاگہ والی بات ہے ۔ کیونکہ تخلیق کار زندگیپر تنقید کرتا ہے اور نقاد تخلیق پر۔ اگر نقاد زندگی اور تخلیق کو بیک وقت ایک ہی سطح پرمحسوس کرے ۔ ایک ہی تناظر میں دیکھے تو یہ فنی عظمت ہوگی اور عابد علی عابد کے ہاں ایسی ہی ذہنی اور فنی عظمت ملتی ہے۔