ہم بیس کروڑ افراد‘ بطور قوم‘ اس قدر ’’باغیرت‘‘ ہیں کہ اب اپنی بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ لگتا ہے اس کام کے لیے کسی دوسری قوم سے ٹھیکہ کرنا پڑے گا۔ ہماری مثال اس مغل شہزادے کی ہے جو عہدِ زوال میں پیدا ہوا اور بچپن سے لڑکپن اور پھر نوجوانی تک حرم سرا میں بیگمات ہی کی صحبت میں رہا۔ ایک دن اس کی موجودگی میں حرم سرا میں سانپ نکل آیا۔ سب عورتوں نے شور مچایا کہ کسی مرد کو بلائو تو شہزادے نے بھی شور مچایا کہ کسی مرد کو بلائو۔
ابھی فِضّہ ملک کی قبر پر مٹی بھی نہیں ڈلی تھی کہ پوری قوم اسے اور دوسرے شہیدوں کو بھول کر ٹیلی ویژن سکرین سے چمٹ گئی اور چھکوں اور چوکوں پر بھنگڑے ڈالنے لگ گئی۔ کیوں نہ ہو‘ روایت ہی یہی ہے۔ آخر یہی وہ قوم ہے جو سقوط ڈھاکہ کو چند ہفتوں ہی میں بھول گئی تھی۔ دنیا کا کوئی اور باضمیر ملک ہوتا تو خون کی اس ہولی کے بعد جو اسلام آباد میں کھیلی گئی‘ میچ ملتوی کرا دیتا۔ خاندان میں ایک شخص بھی مرے تو شادیاں ملتوی اور شادیانے بند ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک درجن افراد کے چیتھڑے اڑا دیے گئے‘ تیس موت و حیات کی کشمکش میں تھے‘ چالیس پچاس خاندان آہ و بکا کر رہے تھے اور باقی قوم ملک کی ’’عزت‘‘ کی خاطر ٹیلی ویژن سے لگی بیٹھی تھی۔ ایک شخص کو چوک میں جوتے پڑ رہے تھے۔ اس کا بیٹا بھاگ کر گھر چلا گیا اور کہنے لگا‘ ابا کو جوتے پڑ رہے ہیں‘ میں خود مشکل سے عزت بچا کر گھر آیا ہوں۔ جس قوم کے ہیرو نیم خواندہ نوجوان ہوں‘ جو آئے دن دنیا بھر کے ملکوں کی جیلوں میں جاتے ہوں اور طرح طرح کے جرم کرتے ہوں‘ اُس قوم کو فضّہ ملک جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی کی ضرورت بھی کیا ہے کہ اس کا سوگ مناتی۔ بائیس سالہ فِضّہ قانون کی اعلیٰ ڈگری برطانیہ سے لے کر لوٹی تھی‘ بھائی کے اصرار کے باوجود اس کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ جانے سے انکار کردیا تھا۔ خواب یہ تھا کہ اپنے ملک میں پریکٹس کروں گی اور نام پیدا کروں گی۔ اس نے غلط اسلوب اختیار کیا۔ جس ملک میں صرف کھلاڑیوں‘ فنکاروں‘ گلوکاروں اور اداکاروں کی قدر ہو‘ یہاں تک کہ مبلغین حضرات بھی انہی کے پیچھے پھرتے ہوں‘ وہاں فِضّہ ملک کو کون پوچھتا۔ یہ درست ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی قدر ہوتی ہے لیکن تعلیم کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے شان و شوکت میں ان سے کم نہیں ہوتے۔ نوبل پرائز ہی کو دیکھ لیجیے۔ فزکس‘ کیمسٹری‘ میڈیسن‘ لٹریچر‘ امن‘ اکنامکس سارے شعبے ہیں۔ کھیل اور فلم نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان سے ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پروفیسر‘ وکیل‘ چارٹرڈ اکائونٹنٹ سب ہجرت کر رہے ہیں۔ صرف کھلاڑی اور فنکار ہیں جو مطمئن ہیں۔ اس لیے کہ معاشرے کو جن کی ضرورت ہے‘ وہی یہاں رہیں گے۔ جن کی قدر نہیں ہے چلے جائیں گے۔ اصلی ڈگری کے ساتھ تو یہاں کی اسمبلیوں میں بھی جانا مشکل ہے۔ کسی کو اصلی ڈگری لے کر یہاں رہنے کی کیا ضرورت ہے! کاش وہ حضرات جو اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو خوش کرنے کے لیے نام نہاد سروے کرتے رہتے ہیں اور پھر پردۂ سیمیں پر بڑی نزاکتوں کے ساتھ ان کی تشریحات کرتے رہتے ہیں‘ کوئی سروے اس کا بھی کرتے کہ گزشتہ پندرہ یا بیس سال میں کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اس ملک کو چھوڑ کر باہر جا بسے ہیں‘ کتنے غیر ملکی سفارت خانوں کے سامنے قطاریں باندھے کھڑے ہیں‘ کتنے امیگریشن ویزوں کا گھر بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں اور کتنے باہر جانے کے لیے عرضی ڈالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کا گوروں نے خوب نام رکھا ہے۔ برین ڈرین (Brain-Drain) یعنی دماغوں کا باہر چلے جانا۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں انہی کی قدر ہے جن کے پاس دماغ کی مصیبت نہیں ہے!
سعدی کی مشہور و معروف حکایت ہے۔ ایک حکمران کو ایسی بیماری لگی کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ آخر حکماء نے تجویز کیا کہ اِن اِن صفات کا مالک جو انسان ہو‘ اس کا پِتہ بادشاہ کو بطور دوا دینا پڑے گا۔ ایک لڑکا مطلوبہ صفات کا حامل مل گیا۔ شاہی خزانوں کی مدد سے اس کے ماں باپ کو راضی کر لیا گیا۔ عدالت نے رولنگ دی کہ ’’عوام کے مفاد میں‘‘ لڑکے کی جان لینا روا ہے۔ جلّاد نے تلوار کھینچی تو لڑکا آسمان کی طرف منہ کر کے ہنسا۔ بادشاہ نے جلّاد کو روک کر لڑکے سے اس عالم میں خندہ کرنے کا سبب پوچھا۔ لڑکے نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں‘ میرے ماں باپ تو پہلے ہی میری قیمت وصول کر چکے۔ عدالت سے انصاف مانگا جاتا ہے۔ عدالت نے بھی عوامی مفاد میں میری
موت کو جائز قرار دے دیا ہے۔ آخری امید حکمران ہوتا ہے۔ یہاں تو خود حکمران کی جان بچانے کے لیے مجھے قربان کیا جا رہا ہے۔ ایسے عالم میں اب صرف خدا ہی ہے جس سے امید ہے۔ چنانچہ میں نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اپنی حالت پر ہنس کر فریاد کی۔ آج وفاقی دارالحکومت‘ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان کی حالت اس لڑکے جیسی ہے۔ حکمران ملک کے ایک حصے کو بچانے کے لیے باقی ملک میں دہشت گردی کو برداشت کرنے کا‘ یوں لگتا ہے‘ فیصلہ کر چکے ہیں۔ مذہبی طبقہ بھی کم و بیش ایک طرف کو جھکا ہوا محسوس ہوتا ہے اور جو لوگ کشت و خون کے ذمہ دار ہیں‘ انہیں بچانے کے لیے نادیدہ ہوائی خیالی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ رہے سیاست دان تو جس سیاست دان پر لوگوں نے تکیہ کیا تھا‘ وہی پتوں کی طرح ہوا دینے لگ گیا ہے۔ اس کا سارا زور‘ ساری کوشش اس بات پر ہے کہ اس کے آبائی علاقے میں ایکشن نہ ہو۔ کراچی یا کہیں اور ہوتا رہے۔ رہ گئیں عدالتیں‘ تو وہ خود ہٹ لسٹ پر ہیں۔ ایسے میں باقی ملک کے لیے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ آسمان کی طرف منہ کرے اور دردناک انداز میں ہنسے!
دعویٰ یہ تھا کہ بندوق کے زور پر اسلام نافذ کرنے والوں کے خلاف خود لڑوں گا ۔ اس دعویٰ کے چوبیس گھنٹے بعد بندوق کے زور پر اسلام نافذ کرنے والوں نے اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جج‘ وکیل‘ وہ بچی جس نے وکالت کا آغاز کیا تھا اور خواب بُنے تھے‘ شہری‘ راہ گیر… سب کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ کاٹنے والوں نے اعلان کیا کہ ’’شریعت کے نفاذ تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے‘‘۔ اس وقت سے لے کر اب تک دعویٰ کرنے والے غائب ہیں۔ بندوق کے زور پر اسلام نافذ کرنے والوں کے خلاف لڑنا تو دور کی بات ہے‘ کوئی خاص مذمت اور افسوس تک نظر نہیں آیا۔
مسلمانوں کی تاریخ میں چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ ایک قبیلے کی ’’خلافت‘‘ ختم ہوئی تو ختم کرنے والوں نے ان کی لاشوں پر قالین بچھایا اور اس پر بیٹھ کر دعوت اڑائی۔ ہمارے ہاں دعوت کی نوبت تو ابھی نہیں آئی‘ ہاں‘ ناشتوں کی روایت ضرور ہے۔ جج رفاقت اعوان‘ فِضّہ ملک اور دوسرے شہدا کا غم تازہ ہے۔ کاش ملاقاتیں ناشتوں پر نہ ہوتیں۔ ناشتے میں صرف دو ٹوسٹ اور ایک آملیٹ تو ظاہر ہے‘ نہیں ہوگا۔ قائداعظم کا حکم تھا کہ کابینہ کے ارکان گھر سے چائے پی کر آئیں۔ میٹنگ کے دوران چائے کا تعیش نہیں ہوگا۔ مارگریٹ تھیچر ٹین ڈائوننگ سٹریٹ کے کچن میں اپنا ناشتہ اپنے ہاتھوں سے بنا کر‘ کھا کر‘ سرکاری امور کا رُخ کرتی تھی۔ یہی حال دوسرے ملکوں میں ہے۔ اگر کوئی صاحب کسی جمہوری ملک سے ایسی مثال ڈھونڈ نکالیں تو ہمارے علم میں بیش بہا اضافہ ہوگا اور یہ تو ابھی ماضی قریب کی بات ہے کہ یورپ کے ایک ملک نے ہمارے ایک حکمران کو‘ جو وہاں دورے پر تھے‘ صاف بتا دیا تھا کہ قصرِ صدارت میں سرکاری دعوت پر آپ کے ساتھ صرف تین افراد کی گنجائش ہے۔ پورے وفد کو مدعو نہیں کیا جا سکتا!
پس نوشت: جو زعما مذاکراتی ٹیم میں شامل ہونا چاہتے تھے اور رہ گئے‘ وہ مایوس نہ ہوں۔ انصارالمجاہدین‘ احرارالہند‘ جند اللہ اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے گروہوں سے بھی مذاکرات کرنے ہوں گے۔ امید کا دامن نہ چھوڑیں۔