عاصمہ خدا کے حضور میں
اعجاز منگی
اے خدا!
تیرے حضور میں
آج عاصمہ آئی ہے
آج وہ اپنے پرس میں
کوئی سگرٹ اور کوئی لائٹر نہیں لائی ہے
آج اس کے ہاتھوں میں
کوئی کاغذ کوئی فائل نہیں ہے
آج یہ ایک وکیل نہیں
آج یہ ایک فریادی ہے
آج یہ تمہیں بتانے آئی ہے
دھرتی پر بسنے والے انسانوں کے دکھ
مذدوروں کے دکھ اور کسانوں کے دکھ
اے خدا!
یہ تمہیں تفصیل کے ساتھ بتانے آئی ہے
اس بچی کے دکھ
جوجوان ہونے سے پہلے
دس بار ریپ ہوئی!
اس کا پہلا ریپ کچن کے اس سرد فرش پر ہوا تھا
جہاں وہ سرد رات میں برتن دھونے کے بعد سو رہی تھی
اس کا دوسرا ریپ ہوا اس نیم تاریک کمرے میں
جہاں وہ اپنی ماں کو یاد کرکے رو رہی تھی
اس کا تیسرا ریپ مسجد سے متصل کواٹر میں ہوا!
اے خدا!
یہ عورت جس کا نام عاصمہ ہے
یہ تمہیں سنانے آئی ہے
اس ماں کی کہانی
جس نے اپنے بیٹے کو
آخری بار وردی والوں کے گھیرے میں دیکھا تھا!
اے خدا!
یہ عاصمہ ہے
ملک کی مشہور وکیل
جو قلم کی سوئی سے انصاف کے کفن سیتی رہی ہے!
یہ عورت پیتی رہی ہے
وہ کالی کافی جس کا ذائقہ
ان آنسوؤں جیسا تھا
جو ان انسانوں کی آنکھوں سے بہتے ہیں
جو نہ عورت ہیں ؛ نہ مرد
جو درد کے جزیرے پہ رہتے ہیں
ان ٹرانس جینڈرانسانوں کی آہ کے ساتھ
یہ عورت حاظر ہوئی ہے تیری بارگاہ میں
اس امید کے ساتھ
کہ اپنے انصاف کے بادل برساؤ
اس دھرتی پر جو جرم کی آگ میں جل رہی ہے!
اے خدا!
یہ عاصمہ
یہ عورت
جو امن کی سفیر تھی
جو فکر کی فقیر تھی
جو حق اور باطل کے درمیاں
لپ اسٹک سے کھنچی لکیر تھی!
اے خدا!
یہ عورت جہنم سے نہیں ڈرتی
یہ عورت جنت پہ نہیں مرتی!
اے خدا!
یہ عورت تم سے لپٹ کر صرف اتنا کہتی ہے
’’اے خدا!
دوزخ جیسی دھرتی کو بہشت بنادو
میرا کیا ہے؟
مجھے چاہو تو جہنم میں جلادو
میری دھرتی کو مگر بہشت بنادو
میری دھرتی کو مگر بہشت بنادو
یہ تحریر فیس بُک کے اس لِنک سے لی گئی ہے۔