یہ مجھے مارنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں؛
یادیں عاصمہ جہانگیر
ساتویں قسط
رات کے بارہ بجے تھے کہ فون بجا، عام طور میں فون کی گھنٹی بند ہی رکھتا ہوں مگر اس روز میں زیادہ ہی تھکا ہوا تھا۔ لہذا یہ کام کئے بغیر ہی آنکھ لگ گئی۔ فون اٹھایا تو دیکھا کہ عاصمہ جہانگیر کا نام آرھا تھا۔
“سو تو نہیں رھے تھے” جی نہیں، خریت تو ہے میں نے فوری پوچھا؛ آج “انہوں” نے مجھے مارنے کا منصوبہ بنایا ہے، خبر کنفرم ہے؛
میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کون لوگ ہیں۔
“آپ فوری پولیس کو انفارم کریں، صبح گھر سے باھر نہ جائیں، کل ہی جائینٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس بلاتے ہیں ، پریس میں بھی ہم ضرور جائیں گے، یہ خبر چھپانے والی نہیں۔ بس یہی ہمارا دفاع ہے”
میں بولے جا رھا تھا۔ جو ذھن میں آرھا تھا وہ عاصمہ جی کو کہے جا رھا تھا۔ وہ بھی رضامندی کا اظہار کر رھی تھیں۔ کچھ انتظام تو انہوں نے فوری کر لیا تھا۔
میری تو نیند اڑ گئی تھی۔ یہ کیا ہوا، کیا اب عاصمہ جی پر منصوبہ بنا کر حملہ کریں گے؟ یہ تو انتہائی بات ہے، کیا ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے؟ میں لاؤڈ تھنکنگ کر رھا تھا۔
یہ جون 2012 کی بات ہے، عاصمہ جہانگیر بلوچ کارکنوں کے غائب ہونے پر آواز مسلسل بلند کر رھی تھیں۔ وہ مذھبی جنونیت کو بھی روز بے نقاب کرتی تھیں۔ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ان سے خاصی پریشان تھی۔ عاصمہ کو سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مزھبی جنونی گروھوں کی مدد سے قتل کرنے کے اس منصوبہ سے ایک بڑی عالمی جاسوس ایجنسی نے اپنے سفارت خانے کے ذریعے انہیں مطلع کیا تھا۔
اگلے روز عاصمہ جہانگیر کے آفس پہنچے تو وھاں پر پریس بھاری تعداد میں موجود تھا۔ اے جی ایچ ایس (AGHS) کے آفس کی لائبریری میں ہر طرف کیمرے ہی کیمرے تھے۔
عاصمہ جہانگیر 2010 سے وکلاء سیاست میں قدم رکھ چکی تھیں، انہوں نے سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کی صدارت کا الیکشن بھی اس سال جیت لیا تھا۔ 2012 میں ان کا گروپ لاھور ھائی کورٹ بار کا الیکشن بھی جیت چکا تھا۔ انہی کے گروپ کے شہرام سرور صدر منتخب تھے۔ یہی شہرام سرور اب لاھور ھائی کورٹ میں جج کے فرائض سرانجام دے رھے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے مجھے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا، ابھی پریس ٹاک شروع نہیں ہوئی تھی، شہرام سرور آۓ تو میں ان کے احترام میں کھڑا ہوا اور ان کو اپنی سیٹ پیش کی، عاصمہ نے فوری مجھے کہا۔ “تم نہیں اٹھو گے اسی سیٹ پر بیٹھے رھو”، شہرام میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ وہ شائد آج کوئی خاص پیغام دینا چاھتی تھیں۔
انہوں نے قتل کرنے کے منصوبہ کی تفصیلات بتائیں اور ایک دفعہ پھر اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ انُکی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔ تفصیل سے انہوں نے بات کی اور پھر مجھے کہا کہ اب تم بات کرو “ میں نے ذرا اور کھل کر بات کی اور کہا کہ یہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ جان لے کہ عاصمہ اکیلی نہیں، ملک کے لاکھوں محنت کش عوام اور عام لوگ ان کے ساتھ ہیں۔
اگلے روز جائینٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس تھا۔ اسی لائبریری میں۔ یہ جگہ عاصمہ جہانگیر کے خاندان کی ملکیت تھی، اس پورے فلور پر حنا جیلانی اور ان کا دفتر اورسٹاف بیٹھتا تھا۔ لائبریری کافی کھلی تھی، کوئی پچاس لوگ تو آرام سے کرسیوں پر بیٹھ سکتے تھے۔ اس روز تو لاھور کی تمام سماجی تنظیمیں اور تحریکیں یہاں موجود تھیں، سب کو غصہ تھا کہ عاصمہ کو قتل کرنے کی پلاننگ کی جا رھی ہے، اجلاس شروع ہوا تو سوچا جا رھا تھا کہ کیا کیا جائے؟ کوئی پریس کانفرنس کی تجویز دے رھا تھا، کوئی پریس کلب میں جلسہ کی بات کر رھا تھا۔ مجھے لگ رھا تھا کہ یہ تجاویز روٹین میٹر ہیں۔ ہمیں کچھ الگ سے کرنا ہے۔
جب میں نے تجویز دی کہ عاصمہ کے قتل کے منصوبہ کے خلاف ایوان اقبال میں جلسہ کرتے ہیں تو زیادہ تر نے حیرانی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ کیسے ہو گا؟ کیسے اتنے لوگ ائیں گے؟ ایوان اقبال لاھور میں شائد سب سے بڑا ایڈیٹوریم ہے۔ میں اصرار کر رھا تھا۔
عاصمہ جہانگیر بھی کچھ حیران تھیں، انہوں نے کہا اس کی بکنگ ہی نہیں ہو گی، میں نے کہا، یہ ذمہ داری بھی میری؛ میرے اصرار اور دلائل سن کر عاصمہ جی نے ھاں کر دی، ان کے جی اندر ایکٹیوزم ہر وقت زندہ رھتا تھا۔ باقی بھی رضامند ہو گئے۔ یہ ایک بڑا فیصلہ تھا اور پہلی دفعہ اتنے بڑے ھال میں جائینٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائیٹس ایک بڑا ایونٹ منظم کرنے جا رھی تھی۔
مجھے پورا یقین تھا کہ ہمارا ایونٹ کامیاب ہو گا۔ ہمارا دفاع زیادہ سے زیادہ سماجی کارکنوں کا اجتماع تھا۔ دو روز میں ہی ایوان اقبال کی بکنگ کروا لی۔ کچھ ہمارا تجربہ اور کچھ عاصمہ جی سے ہر ایک کا اظہار یک جہتی کام آ گیا۔
“ہم یہ آواز دبنے نہ دیں گے”عنوان سے یہ بڑا اجتماع ہوا۔ اس روز میں سپیکرز لسٹ میں شامل نہ تھا۔ وکلاء، سیاسی راھنماؤں اور سماجی نامور شخصیات کو تقریر کے لئے بلایا گیا تھا۔ پرویز رشید بھی تھے اور بشری گوھر بھی، بار کی تمام لیڈرشپ بھی موجود تھی،
یہ 11 جون 2012 کا دن تھا۔ ایوان اقبال کو کوئی کونہ ایسا نہ تھا جہاں سر ہی سر نظر نہ آرھے ہوں۔ ایک زبردست ہجوم عاصمہ جی سے اظہار یک جہتی کے لئے آیا ہوا تھا۔
اچانک عاصمہ جی نے مجھے کہا اس تقریب کا آغاز تم نے اپنی تقریر سے کرنا ہے اور ٹمپو بنانا ہے۔ میرے لئے یہ ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔ اپنی گفتگو میں عاصمہ جی کے قتل کے منصوبہ کو میں نے اوکاڑہ اور دیگرجگہ پر ہونے والی جدوجہد سے جوڑ کے پیش کیا۔ اور واضع کیا کہ سویلین میڑرز میں دفاعی اداروں کی مداخلت اور سویلین شخصیات کے قتل کے منصوبے کسی طور قبول نہیں ہیں۔
اس روز میں نے یہ بھی کہا کہ بار والو؛ سن لو کہ عاصمہ جی کو ہم سماجی تحریکوں نے آپ کو وکلا سیاست کے لئے وقتی طور پر ادھار دیا ہوا ہے۔ وہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کی علمبردار ہیں۔ انہیں سنبھالنا اب آپ کا فرض ہے۔ اس کو سب نے خوب انجواۓ کیا۔
اس روز اس ھال میں تقریبا تمام انٹیلیجنس ایجنسیوں کے افراد موجود تھے۔ لہذا ایک واضع پیغام دینا ضروری تھا۔ تمام سپیکرز نے عاصمہ کے دفاع کی بات کی اور کھل کر ان کو دی جانے والی دھمکیوں کی مذمت کی۔
عاصمہ جہانگیر کی اخری تقریر بھی ان کی اچھی تقریروں میں سے ایک تھی۔ وہ اس روز سوبر بھی تھیں اور بعض اوقات جذباتی بھی۔ انہوں نے بھی اس بات کو سراھا کہ میں بار کی سیاست میں مستقل نہیں ہوں۔
سماجی کارکنوں کے ایک بھرپور اجتماع نے اس مایوسی اور ڈر کو توڑ دیا تھا جو کسی نے ان کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی سے پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ میرا وہ اندازہ درست ثابت ہوا کہ لوگ غصے میں ہیں اور عاصمہ کے دفاع میں اس اجتماع میں بھرپور شرکت کریں گے۔
عام طور پر اجلاسوں کے بعد فوری طور پر عاصمہ جہانگیر مجھے دوبارہ رابطہ نہ کرتی تھیں۔ مگر اس روز وہ اجتماع سے اس قدر خوش تھیں کہ گھر جاتے جاتے مجھے کار سے دوبارہ فون کیا اور اتنے لوگوں کے آنے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے شکریہ ادا کیا تو میں نے کہا۔ عاصمہ جی، یہ میرا کمال نہیں، یہ تو آپ سےلوگوں کی چاھت ہے جو انہیں آج اتنی بڑی تعداد میں کھینچ لائی ہے اور یہ ایک حقیقت کا اظہار تھی-
بعد میں امریکی سی ائی اے کی کچھ دستاویزات جو واشنگٹن پوسٹ نے پبلک ہونے کے بعد شائع کیں ان کے مطابق عاصمہ جہانگیر کو مئی 2012 میں قتل کرنے کی پلاننگ کی گئی تھی۔
ایوان اقبال کے ایونٹ کی یہ فوٹو ایکسپرس ٹریبیون نے 12 جون 2012 کو شائع کی تھی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔