کمیٹی فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی
Committee For Restoration of Democracy
یادیں عاصمہ جہانگیر
چھٹی قسط
عاصمہ جہانگیر کسی بھی ایشو پر پہل لینے، اس کی حکمت عملی تیار کرنے اور اسے عملی شکل دینے میں کمال حیثیت رکھتی تھیں۔
یہ جون 2000 کی بات ہے، میں عاصمہ جہانگیر سے ملنے انکے آفس گیا۔ مشرف آمریت کو ٹیک اور کئے ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا۔ ہم جائینٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائیٹس میں اکٹھے تھے۔ یہ سماجی تنظیموں و تحریکوں، سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونینوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم تھا۔ عاصمہ جہانگیر اس پلیٹ فارم کی روح رواں تھی۔
مشرف آمریت کے اقتدار سنبھالنے کے وقت اس کمیٹی کے اجلاسوں میں گرما گرم بحثوں کے بعد یہ طے پا گیا تھا کہ ہم فوجی آمریت کی کسی صورت بھی حمائیت نہ کریں گے اور اس کے خاتمہ کی جدوجہد میں پیش پیش ہوں گے۔
یہ وہ وقت تھا جب بڑی سیاسی جماعتوں میں بھی اس آمریت بارے کنفوژن پائی جاتی تھی، مسلم لیگ نواز کا ایک دھڑا ٹوٹ گیا تھا اور وہ چوھدری شجاعت کی قیادت میں مشرف آمریت سے ملنے کے لئے ہر وقت ھاتھ پاؤں مار رھا تھا۔
عاصمہ جہانگیر کے آفس جاتے ہی ملاقات میں ان سےکہا کہ 12 اکتوبر 2000 کو آمریت کے اقتدار سنبھالنے کا ایک سال پورا ہو گا۔ ہمیں اس روز کچھ کرنا چاھیے۔ یہ ائیڈیا انکے ذھن میں کلک کر گیا۔ “بلکل بلکل، کچھ کرتے ہیں” سوچ بچار ہونے لگی؛ اس روز سیمینار کا بھی سوچا گیا۔ پھر کہنے لگیں؛ ان سب کو اکٹھا کرتے ہیں۔ کن کو؟ میں نے پوچھا؛ ان سب کو؛ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، جمھوری پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور باقیوں کو بھی؛ طے ہوا کہ 12 اکتوبر 2000 کو آمریت کے ایک سال پر لاھور پریس کلب میں ایک سیمینار کرتے ہیں اور سب کو آمریت مخالفت میں جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ائیڈیا برا نہ تھا۔ سوچا اس پر دوبارہ ملتے میں اور ایک اور اجلاس کرتے ہیں۔ اسی ھفتے انہوں نے مجھے دوبارہ بلایا تو عابد ساقی ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔ بس یہ کمیٹی ہے، کمیٹی فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی ( کمیٹی برائے بحالی جمھوریت)، یہ تین رکنی کمیٹی بن گئی۔
عاصمہ جہانگیر کی یہ اچھی عادت تھی کہ کسی بات پر رضامندی ہے تو کام اسی وقت شروع ہو جاتا تھا۔ لسٹ بنائی گئی۔ طے کیا گیا کہ ان تمام جماعتوں کو بلایا جائے جو آمریت کی کھل کر مخالفت کر رھی ہیں۔
میرا تعلق اس وقت لیبر پارٹی سے تھا، جس روز مشرف نے اقتدار سنبھالا، مجھے فاروق سلہریا کا فون آیا۔ کہ میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کو برطرف کر دیا ہے، وہ ابھی پاکستان اترا نہیں ہے، جہاز میں ہی ہے، یہ خبر ٹی وی پر چل رھی ہے آپکی کیا رائے ہے؟ میں چالیس ایبٹ روڈ لاھور پر دفتر میں تھا، شام کا وقت تھا، فاروق سلہریا جنگ کے دفتر کے سامنے ایک فلیٹ میں رھتا تھا۔ میں نے کہا ٹی وی آن رکھو؛ ابھی فوجی جرنیلوں کا ردعمل ہو گا، اس کے بعد کوئی موقف رکھیں گے۔ تھوڑی دیر بعد اس کا فون آیا کہ ٹی وی بند ہو گیا ہے، آف ائیر ہے، میں نے کہا ردعمل آگیا ہے، فوجی ٹیک اوور ہو رھا ہے۔ یہ تمھیں کیسے معلوم ہے؟ فاروق پوچھنے لگا۔ میں نے کہا تین فوجی امریتیں بھگتا چکے ہیں کچھ اندازے ہو گئے ہیں۔ اسے کہا کہ فوری دفتر آ جاؤ،
ہم لاھور ٹی وی سٹیشن کے تقریبا سامنے ہی دفتر میں تھے کہ ایک ساتھی کو باھر بھیجا اور کہا دیکھو کیا ٹی وی کے سامنے فوجی ٹرک آئے ہیں؟ فاروق بھی آگیا تھا اور فوجی ٹرک بھی ٹی وی سٹیشن کو گھیرے ہوئے تھے۔
بس کام شروع تھا۔ ہم نے آپس میں کچھ گفتگو کی اور طے کیا کہ امریت کی کسی بہانے اور کسی جواز پر بھی بھی حمائیت نہ کی جائے گی۔
اسی رات، میں دھرم پورہ گھر سے رات دس بجے کے قریب موٹر سائیکل پر روزنامہ جنگ اور نوائےوقت اخبار کے لئے ھاتھ سے لکھی امریت مخالف ایک مختصر پریس ریلیز دینے نکلا تو ہر طرف فوجی ہی فوجی تھے، ابھی مشرف نے خطاب “میرے ہم وطنو” کرنا تھا، ڈرتے ڈرتے پریس ریلیز کو چھپائے ہوئے دونوں کے دفتر میں یہ پریس ریلیز دے آیا۔
صبح جنگ اخبار کے اندرونی صفحات پر ایک چار لائن والی خبر لگی تھی۔ “لیبر پارٹی کی جانب سے مارشل لگانے کی مخالفت”۔ کریٹیکل پیریڈ میں دو چار لائینیں بھی چھپ جائیں تو پڑھی جاتی ہیں۔ اور ہم تو تاریخ میں اپنا نام رقم کرانےکے چکروں میں، کہ ہم نے وقت پر ہی فوجی امریت کی مخالفت کی تھی، یہ رسک لیا تھا کہ رات فوجی ٹرکوں کے بیچوں بیچ گزرتے انکی مخالفت پر مبنی خبر دینے اخبارات کے دفاتر پہنچے تھے۔
عاصمہ جہانگیر کے ساتھ دوسرے ساتھیوں پر مشتمل جائیٹ ایکشن کمیٹی نے بھی اسی ھفتے فوجی آمریت کی مخالفت کر دی تھی۔
اب عاصمہ جہانگیر فون کر رھی تھیں تمام راھنماؤں کو اور میں عابد ساقی لسٹ پر ٹک کر رھے تھے کہ یہ بھی کنفرم ہے اور وہ بھی۔ عاصمہ کی جمھوریت کریڈیبیلٹی اتنی مضبوط تھی کہ تمام بڑے راھنما ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔ ان کا ایک فون ہی ان کو کافی ہوتا تھا کسی ایک ایشو پر رائے دینے کے لئے۔ سبھی راھنما متفق ہوتے گئے کہ اس روز شرکت کریں گے۔
لاھور پریس کلب ایڈیٹوریم میں بمشکل کوئی دو سو افراد ہی سما سکتے ہیں طے پایا کہ باھر بڑی سکرین پر اندر کی کاروائی دکھائی جائے گی۔
اس وقت شاھد بابو ہماری شناخت پریس کے انچارج تھے۔ ان کی پارٹنر کمال کی آرٹسٹ تھیں وہ نیشنل کالج آف ارٹس کی گریجویٹ تھیں۔ شاھد بابو میرے یونیورسٹی دور کے دوست تھے این ایس او کے راھنماؤں میں تھے، شاھد کو میں نے کہا کہ پریس کلب کے ہال میں آمریت مخالف ڈیزایننگ کی جائے ایک پوری دیوار کی جانب کچھ بنایا جائے۔ اس کے لئے انکی اھلیہ نے دن رات کام کیا،
بارہ اکتوبر 2000 سے ایک روز قبل اس ھال کو اس طرح سجایا گیا جیسے ہم ستر کی دھائی میں آرٹ کے ذریعے اپنا انقلابی پیغام پہنچاتے تھے۔ ایک کلچر تھا، آرٹ کے طالب علم سوشلسٹ نظریات پر مبنی اتنے خوبصورت پوسٹرز ھاتھ سے بناتے اور لکھتے تھے کہ اس نظریہ کی طرف جانے کو دل آٹومیٹک کرتا تھا۔
امین فہیم، بابا نصراللہ خان، جاوید ھاشمی، محمود اچکزئی، حاصل بزنجو، اسفند یار ولی خان، جہانگیر بدر، عبدالمجید کانجو، افراسیاب خٹک، چوھدری نثار، ظفر اقبال جھگڑا، منظور گیلانی اور دیگر سبھی نےشرکت کی یقین دھانی کرائی ہوئی تھی۔
بارہ اکتوبر کی صبح میری پارٹنر شہناز اقبال نے کہا کہ ھسپتال لے چلو، وہ امید سے تھیں، میں انہیں عمارھسپتال لے گیا۔ وہیں ڈاکٹرز نے انہیں فوری داخل کر لیا اور مجھے کہا کہ آج ہی بچے کی پیدائش متوقع ہے۔ انہیں لیبر روم میں لے گئے۔ میں نے عاصمہ جہانگیر کو فون کر کے صورتحال بتائی تو انہوں نے مجھے سختی سے منع کیا پریس کلب آنے کو اور کہا شہناز کا خیال رکھو، اور باقی ہم سب سنبھال لیں گے۔ خبردار جو تم اپنی بیوی کو چھوڑ کر اس سیمینار میں آئے۔ آخر وہ خود ماں تھیں اور ایسی صورتحال سے بخوبی اگاہ تھیں کہ والد کا وھاں رھنا کتنا اھم ہے۔
ہمارا بیٹا عبداللہ صاحب بلکل اس وقت تشریف لائے جب تین بجے اس اھم سیمینار کا آغاز ہونا تھا اور میں نے اس کو کنڈکٹ کرنا تھا۔ دونوں ماں بیٹا ٹھیک تھے کوئی کمپلیکیشن بھی نہ ہوئی تھی۔
عبداللہ کے آنےکے تین گھنٹے بعد اپنی پارٹنر کی اجازت سے جب میں پریس کلب پہنچا تو یہ پروگرام اختتام پذیر ہو رھا تھا۔ عاصمہ نے سٹیج پر بلا کر ماں بیٹے بارے پوچھا۔ اور کہا سب ٹھیک ہے اچھی باتیں ہو رھی ہیں۔ یہ اکٹھے ہو جائیں گے۔ ان کے الائینس کی بنیادیں ہم نے رکھ دی ہیں، یہ امریت مخالفت میں جڑ سکتے ہیں۔
بڑی پارٹیوں تمام اہم راہنما آئے ہوۓ تھے۔ یہ آمریت مخالف پہلا بڑا اجتماع تھا۔ پریس کلب میں ہر طرف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اکٹھے تھے اندر تو تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، باھر سکرین پر بھی بڑا رش تھا۔
ہم نے عملی طور پر الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ARD) کی بنیادیں رکھ دی تھیں۔ صرف تین ماہ کے اند دسمبر 2000 میں آے آر ڈی بن گئی۔ سی آرڈی کا نام تبدیل کر کے اسے سیاسی جماعتوں نے آے آر ڈی Alliance For Restoration of Democracy بنا لیا۔
اگرچہ پاکستانی جمھوری تاریخ عاصمہ کو جیلانی کیس کی وجہ سے زیادہ جانتی ہے جس میں وہ یحیی آمریت کے مارشل لاء کے خلاف سپریم کورٹ گئی تھیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ملک کی آخری فوجی امریت کے خلاف سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے اور انکو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا سہرا بھی مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو ہی جاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔