“گھر کی مرغی”
یادیں عاصمہ جہانگیر
(پانچویں قسط)
عاصمہ جہانگیر ایک زبردست منصوبہ ساز شخصیت تھیں۔ وہ جو کچھ بھی کرنا چاھتی تھیں اس کی خوب منصوبہ بندی کرتی تھیں، اور پھر اس کو کامیاب کرنے کے لئے دوستوں کے مسلسل مشورے کے ساتھ محنت کرنے میں دن رات ایک کر دیتی تھیں۔
مجھے 2016 کے آغاز میں عاصمہ جہانگیر کا کراچی سے فون آیا۔ وہ وھاں پر اختر حسین ایڈووکیٹ کے گھر تھیں۔ انکے ساتھ دوسرے سیئنر وکلاء اعظم نزیر تاڑر، عابد ساقی اور احسن بھون بھی تھے۔
اختر حسین اس وقت عوامی ورکرز پارٹی کے سینئر نائب صدر تھے۔ کراچی کے معتبر ترین وکلاء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ سندھ ھائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے تھے۔ اور پاکستان بار کونسل کے ممبر تھے اور اب بھی ہیں۔
عاصمہ جہانگیر اپنے ساتھیوں سمیت ان کے گھر پہنچی تھیں کہ ان کو قائل کیا جا سکے کہ وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے انتخاب میں اس سال حصہ لیں۔ ان کا گروپ جب بھی بار کے کسی انتخاب میں حصہ لیتا تھا تو وہ اس کی خوب تیاری کرتی تھیں۔ امیدوار کے چناؤ سے لیکر انتخابی عمل میں شرکت تک کے تمام مراحل پر پورا غوروخوض ہوتا تھا۔
وہ کوئی بھی ایکشن تیاری کے بغیر کرنے کی قائل نہ تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ 2010 میں سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کے انتخابات میں صدر منتخب ہوئی تھیں تو وہ فیصلہ بھی ایک سال پہلے لیا گیا تھا۔ اوریہ عابد ساقی ایڈووکیٹ تھے جنہوں نے انہیں ان انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا تھا۔
اس وقت بھی سال کے شروع میں مجھے انہوں نے رابطہ کیا تھا کہ کیا ان انتخابات میں حصہ لوں؟ اور میں نے پہلے سانس میں ہی ان کےحصہ لینے کی حمائیت کی تھی۔ پھر انہوں نے مجھے محترم عابد حسن منٹو سے رابطہ کرنے کو کہا۔ یہ وہ وقت تھا کہ منٹو صاحب اور ہم ایک پارٹی میں اکٹھے نہ تھے، وہ ورکرز پارٹی کے راھنما تھے اور میرا تعلق لیبر پارٹی سے تھا۔ مگر جب میں نے منٹو صاحب سے بات کی تو انہوں نے مجھے خوب سنائیں اور کہا تم بڑے عاصمہ کی سفارش لے کر آئے ہو، وہ ہماری دیرینہ ساتھی ہے۔ اس کا انتخاب میں حصہ لینا خوش آئیند ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے اس وقت پہلی دفعہ حصہ لے کر حامد خان گروپ کو شکست دی تھی اور انکے علاوہ اس وقت کوئی اور یہ کر بھی نہ سکتا تھا۔
عاصمہ جہانگیر نے فون پر مجھے کہا کہ اختر حسین مان نہیں رھے کہ وہ سپریم کورٹ بار کی صدارت کے انتخاب میں حصہ لیں گے اور کہتے ہیں کہ عوامی ورکرز پارٹی کی سال کے آخر میں دوسری کانگرس کراچی میں ہو رھی ہے اور وہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے انتخاب میں حصہ لیں گے اور ایک وقت میں دو عہدوں سے انصاف نہ کر سکیں گے۔
پھر عاصمہ نے مجھے کہا کہ تم اس وقت پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہو، تمھاری پوسٹ کیا اتنی اہم ہے کہ اختر حسین سپریم کورٹ بار کی صدارت میں حصہ نہیں لینا چاھتے لیکن تمھارے والی سیٹ پر آنا چاھتے ہیں؟
جب میں از راہ تفنن انہیں کہا “عاصمہ جی؛ میں تو آپ کے گھر کی مرغی ہوں اور دال برابر ہوں” تو انہوں نے اسے خوب انجوائے کہا۔ لیکن ساتھ ہی کہا کہ تم ہمارے لئے بہت اھم ہو، ہمارے دوست ہو، اسی لئے تو تمہیں کہ رھے ہیں۔
عاصمہ جی نے کہا کہ جو بھی ہو انہیں مناؤ؛ میں نے کہا پوری کوشش کروں گا۔ بعد ازاں میں نے اختر حسین کو کہا کہ آپ دونوں انتخابات میں حصہ لیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا بھی اور پارٹی جنرل سیکرٹری کا بھی۔ میں دونوں میں آپ کی پوری حمائیت کروں گا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر کی مدت تو ایک سال ہے جبکہ عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی مدت تین سال ہے، پہلے سال کے دوران میں پارٹی جنرل سیکرٹری کے لئے آپکے کام میں اسسٹ کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے، میں ایک وقت میں ایک ہی کام کرنا چاھتا ہوں۔ لیکن آپ اگر منٹو صاحب سے بات کر لیں اور وہ مان جائیں تو پھر ہم سوچ سکتے ہیں۔
اس وقت حامد خان گروپ کی جانب سے رشید اے رضوی ان انتخابات میں صدر کے امیدوار تھے۔ عاصمہ جہانگیر اور انکے ساتھ دیگر سینئر وکلاء بلکل واضع تھے کہ رشید اے رضوی کے لیفٹ کریڈنشلز کا مقابلہ صرف اخترحسین ہی کر سکتے ہیں۔
اس وقت محترم عابد حسن منٹو عوامی ورکرز پارٹی کے صدر تھے اور میں جنرل سیکرٹری؛ یہ پارٹی 2012 میں ہم نے تین لیفٹ ونگ پارٹیوں کے انضمام کے بعد تشکیل دی تھی۔ ہم دونوں نے پارٹی کے ائین کے مطابق دو ٹرم پوری کر لی تھیں۔ ہم سب کا اتفاق تھا کہ اب اختر حسین پارٹی جنرل سیکرٹری کا انتخاب لڑیں۔
میں نے عاصمہ جہانگیر کے فون کے بعد پارٹی کے اندر تھوڑی لابی کرنے کی کوشش کی کہ اختر صاحب مان جائیں۔ نثار شاہ، فانوس گوجر، کفائیت اللہ اور شہاب خٹک ایڈوکیٹس سے بات کی۔ یہ تمام پارٹی کے سیئنر راھنما تھے۔ میری بات سے متفق تھے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اختر حسین سے بات کریں گے جب انہوں نے بات کی تو اختر حسین نے منٹو صاحب والی شرط رکھ دی۔
میری تو جرات نہ ہوئی کہ منٹو صاحب سے بات کروں، مجھے معلوم تھا کہ وہ نہیں مانیں گے۔
اختر حسین اور دیگر کے مشورہ سے پھر اس سال بہ امر مجبوری عاصمہ جہانگیر نے فاروق ایچ نائیک سابق وزیر قانون کو سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے لئےاپنا صدارتی امیدوار منتخب کیا مگر چونکہ انکی ابتدائی منصوبہ بندی اپنے پروان کو نہ چڑھی تھی۔ اس سال عاصمہ جہانگیر گروپ یہ انتخاب ہار گیا۔
اختر حسین کے انکار کے باوجود وہ انکے قریبی ساتھیوں میں رھے، اختر صاحب نے بھی فاروق نائیک کو جتوانے کی پوری کوشش کی۔ عاصمہ کی وفات پر اختر حسین کراچی سے فوری لاھور پہنچے اور جنازے سمیت انکے دفنانے تک موجود رھے۔
میں اگرچہ عاصمہ کی خواھش کے مطابق اختر حسین کو قائل نہ کر سکا۔ مگر عاصمہ کی کیا بات کہ کبھی دوبارہ مجھے اس بارے کوئی ایک دفعہ بھی یاد کرایا ہو، ہماری دوستی تو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوتی گئی۔ ایک دوسرے پر اندھا دھند اعتبار تھا۔ اور یہ صرف میرے ساتھ نہ تھا بلکہ میرے جیسے ہزاروں اور دوست بھی تھے جو عاصمہ پر اورعاصمہ ان پر پورا اعتبار کرتی تھیں۔ وہ عاصمہ اسی لئے تو تھیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“