یہ کوئی مذاق نہیں، شغل میلہ نہیں، چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔
یادیں عاصمہ جہانگیر
قسط 4
سپریم کورٹ لاھور میں 21 اگست 2017 کو مہر عبدالستار کی ہیومن رائیٹس کی پٹیشن پر عاصمہ جہانگیر کو لاھور رجسٹری میں پیش ہونا تھا۔ مجھے اطلاع انکے آفس اسسٹنٹ وزیر نے ایک روز قبل کر دی تھی۔ میں صبح آٹھ بجے سپریم کورٹ پہنچا تو ابھی عاصمہ پہنچی نہیں تھیں۔
مجھے باھر اپنے انتظار میں کھڑے دیکھ کر عاصمہ جہناگیر بہت خوش ہوئیں۔ ریسپشن والے کو کہا کہ پہلے فاروق کی انٹری کر لو اس نے میرے ساتھ اندر جانا ہے، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے طرف بھی پوری توجہ دیتی تھیں۔
مہر ستار مارچ 2017 سے ساھیوال ہائی سیکورٹی جیل میں 24 گھنٹے بیڑیوں میں جکڑے بند تھے۔ یہ رٹ پہلے بھی لگی تھی، سپریم کورٹ نے جیل سپریٹنڈنٹ، اوکاڑہ ڈی پی او، اوکاڑہ جیل سپریٹنڈنٹ اور دیگرضلعی حکام کو طلب کیا ہوا تھا۔
ابھی سماعت شروع نہیں ہوئی تھی۔ عاصمہ نے اپنی جونئیر وکیل نور کو بلایا، ان سے کچھ دستاویز طلب کیں، وزیر بھی لائین میں لگا ہوا تھا۔ ان دونوں کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کی اور کہا میں ان دستاویزات کے بغیر کیا دلائیل دوں گی۔ میری پوری تیاری نہیں ہو گی تو میں کچھ نہیں کر سکتی۔
پھر میری طرف دیکھ کر کہا۔ ائیندہ فاروق پوری دستاویزات کے بغیر آیا تو اس کا بھی کیس نہیں لینا۔ یہ کوئی مذاق نہیں، شغل میلہ نہیں، چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔
تھوڑی دیر میں عدالت لگ گئی۔ ایک جانب چالیس سے زیادہ پولیس اور انتظامیہ کے افراد اپنے وکیلوں کی ایک فوج لے کر کھڑے اور دوسری طرف عاصمہ جہانگیر اور نوجوان وکیل نور جو عاصمہ کو اسسٹ کر رہی تھی کے ساتھ وزیراور میں کھڑے تھے۔ مجھے تو دوسری طرف سے گھورنے والے بھی کافی تھے۔ اوکاڑہ سے مزارعین لاھور میں عدالتوں کے اندر آنا بند ہو گئے تھے۔ کیونکہ واپسی پر بھی کئی دفعہ گرفتاریاں ہوئی تھیں۔
عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غریب کسانوں کے راھنما مہر عبرالستار کے خلاف 36 مقدمات اس لئے درج کئے گئے کہ وہ انجمن مزارعین پنجاب کا راھنما ہے اور غریب کسانوں کے لئے 100 سال سے زائد عرصہ سے زیر کاشت زرعی زمین کی ملکیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کو اوکاڑہ جیل سے ساہیوال کی ھائ سیکورٹی جیل میں مارچ 2017 سے شفٹ کسی عدالتی حکم کے بغیر کیا گیا جو غیر قانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری کوئ مجاز اٹھارتی نہیں ایک انڈر ٹرائیل قیدی کی جیل شفٹ کرنے کی۔ مہر عبدالستارکو کس قانون کے تحت بیڑیاں لگائی گئی ہیں۔ ان سے غیر انسانی سلوک کیا جا رھاہے۔ عدالت عالیہ اسے عدالت میں طلب کر کے دیکھے کہ کس طرح ایک انسان سے سلوک کیا جا رھا ہے ان کا وزن آدھا رھ گیا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ کسانوں کے راھنما ہیں۔ 2013 اور 2015 میں انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس وقت وہ "صادق اور امین" تھے اب تو ان پر بھتہ خوری، قتل، اقدام قتل، ریاست مخالف سرگرمیاں ، اور دیگر سنجیدہ الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ انہیں سزا دی جا رھی ہے۔
مخالف وکلاء نے کہا مہر عبداستار کی سیکورٹی کے ایشوز ہیں۔ ان پر حملوں کی خفیہ اطلاعات ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ کوئی اسامہ بن لادن تو نہیں ہیں کہ سیکورٹی کے ایشوز ہیں۔
مخالف وکلاء نے کہا جب مہر عبداستار اوکاڑہ کی عدالت میں پیش ہوتے تھے تو دو دو سو لوگ انہیں ملنےا جاتے تھے جس سے سیکورٹی مسائل پیدا ہوئے۔ عاصمہ جہانگیر نے جواباء کہا کہ ھاں امیر لیڈروں کے لوگ انہیں ملنے آ جاتے ہیں مگر غریبوں کے لیڈرکو ملنے اگر غریب کسان آ جاتے ہیں تو ان کو سیکورٹی کے ایشوز ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ لوگوں کے انے کی سزا ان کے لیڈر کو نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوۓ کہا کہ ان پر چار ھینڈ گرنیڈ بھی ڈالے گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ کوئی سوشلسٹ ہیں جن پر ایسے مقدمات ڈالے گئے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نےان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے میری طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ اور بھی یہاں موجود ہیں
چیف جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ ھم سمجھنا چاھتے کہ کونسے قانون کے تحت ایک انڈرٹرائل قیدی کی جیل شفٹ کی گئی ہے۔
یہ بلکل احساس نہ تھا یہ وہی عاصمہ ہیں جو تھوڑی دیر قبل تیاری نہ ہونے کا گلا کر رھی تھیں۔
عدالت نے دونوں طرف کے دلائل سن کر بیڑیاں اتارنے کا حکم دیا اور پھر اسلام آباد میں پورا کیس سننے کا حکم صادر کیا۔ عدالت نے عاصمہ اور عابد ساقی کو ھائی سیکورٹی جیل میں ملنے کی اجازت بھی دے دی
سپریم کورٹ کے حکم پر عاصمہ جہانگیر اور عابد ساقی ایڈووکیٹس 16 ستمبر کو صبح 11 بجے ساھیوال ھائی سیکورٹی جیل میں انجمن مزارعین پنجاب کے آسیر جنرل سیکرٹری مہر عبدالستار سے ملاقات کی اور ان سے ہونے والے غیر انسانی سلوک بارے معلومات لیں۔
مہر عبدالستار اپریل 2016 سے جیل میں ہیں۔ پچھلے 16 سالوں میں ان کے خلاف 36 مقدمات درج کئے گئے۔ چند میں وہ بری ہو چکے ہیں جبکہ دو تین کے سوا تمام مقدمات میں ان کی ضمانت منظور کی جا چکی ہے۔ یا ان کو
مزارعین کے خلاف اکثر مقدمات انسداد دھشت گردی کے قوانین کے تحت کاٹے گئے ہیں۔ شائد ہی کسی اور تحریک کے راھنماؤں کے خلاف دھشت گردی کی دفعات کے تحت اتنے مقدمات درج کئے گئے ہوں جتنے انجمن مزارعین پنجاب کو کچلنے کے لئے کئے گئے۔ اوکاڑہ میں پولیس کی جانب سےجو جھوٹے مقدمات مزارعوں کے خلاف درج کئے گئے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اوکاڑہ مزارعین کے خلاف مقدمات پاکستان میں ریاستی شہ زوری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایشو کوئی اور ہے، اس پر بات نہیں ہو گی۔ بس قیادت کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر ان کو جھکا لیا جائے وہ معافی مانگ لیں، زمینوں کی ملکیت کا مطالبہ نہ کریں۔ جو وعدےان سے زولفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اورعمران خان نے تحریری اور زبانی طور پر جلسوں میں ان زمینوں کے مالکانہ حقوق دینے کے کیۓ ان کو جھوٹا سمجھیں۔ کبھی زمینوں کو اپنی ملکیت میں لینے کا مطالبہ نہ کریں۔ پنجاب میں جو 68000 ایکڑ زمین فوجی اور دیگر اداروں کے پاس ہے وھاں چپ چاپ کام کریں۔ تو کوئی مقدمہ نہیں ہو گا۔ آپ "ملک دشمن" نہیں قرار پائیں گے، آپ کو "را" کا ایجنٹ قرار نہیں دیا جائے گا۔ 6 ماہ تک بیڑیوں میں جکڑا نہیں جائے گا۔
ہم ساھیوال کی ھائی سیکورٹی جیل سے اوکاڑہ پہنچے تو مہر ستار کے گاؤں میں سینکڑوں عورتیں اور مرد عاصمہ جی کے منتظر تھے۔ عاصمہ اور عابدساقی کی اس وزٹ، سپریم کورٹ میں کیس اور گاؤں میں امد نے اس تحریک میں ایک دفعہ پھر نئی روح پھینک دی تھی۔
یہ ہیں وہ عاصمہ جو آج ہم میں نہیں
فاروق طارق
ترجمان عوامی ورکرز پارٹی
سیکرٹری پاکستان کسان رابطہ کمیٹی
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔