یونیورسٹی کے زمانے میں ہی میں نے اپنے استاد حامد قزلباش کے ساتھ تعلیم اور انسانی حقوق کے لئے رضاکارانہ کام شروع کیا تھا۔ اسی دوران مجھے مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا یہی وہ دور تھا جب محترمہ عاصمہ جہانگیر سے پہلا تعارف حاصل ہوا۔
میں ایک روایتی مذہبی گھرانے سے آیا تھا جہاں میں نے نصابی کتابوں اور اپنے گرد و پیش سے دنیا کا ایک مخصوص فہم حاصل کیا تھا میرے نزدیک یہی فہم حتمی تھا۔ عاصمہ جہانگیر سے جو تھوڑا بہت تعلق رہا اس سے اس فہم کا سارا سانچہ ہی بدل گیا۔ انسانی حقوق کو اپنی سوچ کا بنیادی محور بنانا ایک مشکل کام ہے دنیا پھر کے انسان انسان ہیں خواہ ان کا تعلق کسی مذہب، نسل، قوم، زبان ، رنگ یا صنف سے ہو۔ اور کسی بھی انسان کے حقوق کی خلاف ورزی کسی صورت قابل قبول نہیں، جتنا میرے لئے ممکن ہے مجھے اس کے حق کے لئے لڑنا چاہیئے چاہے وہ شخص میرا مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں بھی میرا سب سے پہلا فرض اپنے ہم وطنوں کے حقوق کے لئے ایک ننگی تلوار کی مانند لڑنا ہے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہیں مگر جو میرا وطن ہے وہاں مجھے کسی بھی حوالے سے کسی بھی انسانی حق کی خلاف ورزی کو قابل قبول نہیں سمجھنا چاہیئے، یہ ایک مشکل معیار تھا۔ اسی وجہ سے عاصمہ جہانگیر نہ صرف اپنے مخالفین کے لئے بعض اوقات ناقابل برداشت ھیں بلکہ بعض اوقات ان کے کٹر حامی بھی ناراض ہو جاتے تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے حق کا جو معیار طے کیا اس کے نتائج کی پروا کئے بغیر ’’حق گوئی‘‘ کرتے ہوئے جان لڑا دی ۔ عاصمہ جہانگیر کے بہت سے موقف ایسے ہیں۔ جن سے مکمل اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ انہی جنگجو انسانوں میں سے تھیں جو اپنے موقف کی سچائی پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے لئے جان لڑا دیا کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے جو درست سمجھا اس کے لئے ہر ممکن جدوجہد کی اور اس ضمن میں کسی دبائو یا طاقت کی پروا نہیں کی۔ وہ حق کے لئے جد و جہد اور اس کے لئے زندگی وقف کرنے کا اعلیٰ ترین معیار ضرور سکھا گئیں ہیں۔
عاصمہ کا موقف تھا کہ آ انسانی حقوق کی جنگ اکیلے نہیں لڑ سکتے اس کے لئے پوری دنیا میں جہاں انسانی حقوق کو غضب کرنے والے لوگ ہیں وہاں انسانی حقوق کے لئے جدو جہد کرنے والے بھی لوگ ہیں ہمیں پوری دنیا میں ایسے اداروں، تنظیموں اور لوگوں سے رابطہ اور اتحاد کرنا چاہیئے اور ایک دوسرے کو مالی، اخلاقی اور ہر حوالے سے سپورٹ کرنا چاہیئے۔ اس لئے ان کے مخالفین ان پر الزام لگاتے کہ وہ کسی عالمی ایجنڈے پر کام کرتی ہیں اور بعض عالمی قوتوں کی ایجنٹ ہیں
پاکستان اور خصوصا پنجاب میں بھارت کی دوستی کی بات کرنا ایک مشکل کام تھا۔ مگر عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ پاکستان کو دنیا کے تمام ممالک سے دوستی کی بات کرنا چاہیئے اور پڑوسیوں سے خصوصا دوستی کرنا چاہیئے۔ انھوں نے اس ضمن میں کبھی ریاست کی بالادست قوتوں کے بیانئے کی پروا نہیں کی۔ اور اپنے اس موقف سے وابستگی کے اظہار کے لئے وہ اپنے ریاست میں رائج بیانیے کی پروا کئے بغیر دلی اور ممبئی پہنچتیں تو ان کے مخالفین کے لئے یہ پروپیگنڈا کرنا آسان ہوتا کہ یہ تو ’’بھارت کی ایجنٹ‘‘ ہیں۔ مگر اس کا کبھی یہ مطلب نہیں رہا کہ انھوں نے بھارتی ریاست کے بیانئے کو قبول کر لیا بلکہ جب بھی ضرورت پڑی انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حقائق اقوام متحدہ میں پیش کئے۔
عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ کسی بھی ملک میں ان گروہوں کے حقوق زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں جو مذہبی، لسانی، نسلی یا صنفی طور پر اقلیت میں ہوں یا کمزور ہوں۔ اس لئے وہ پاکستان میں مذہبی، لسانی اور نسلی اقلیتوں، عورتوں اور بچوں کے حقوق پر زیادہ توجہ دیتیں جس کی وجہ سے ان کے مخالفین کبھی ان پر کفر کے فتاوہ لگاتی اور کبھی انھیں ریاست کا غدار قرار دیتیں۔ وہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور مذہب کی بنیاد پر مذہبی اقلیت اور مسلکی اقلیت کے ساتھ کسی بھی امتیازی سلوک کو معاف نہیں کرتی تھیں اس لئے ان کے بعض مخالفین ان کو امریکہ کی ایجنٹ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ’’یہودی سازش‘‘ کا حصہ ہیں۔ مگر جہاں بھی ممکن ہوا عاصمہ جہانگیر نے امریکہ کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ عاصمہ جہانگیر کسی بھی مذہب اور مسلک کے خلاف نہیں تھیں وہ صرف اس امتیازی سلوک کے خلاف تھیں جو مذہب کی بنیاد پر مذہبی یا مسلکی اقلیت سے کیا جائے۔ وہ اگر یہودیوں کے خلاف بات نہیں کرتی تھیں تو اسرائیل کی طرف سے کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ضرور ذکر کرتی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر کا جمہوریت پر مستحکم ایمان تھا ان کو عقیدہ تھا کہ ایک جمہوری پاکستان ہی پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دے سکتا ہے اور انھوں نے اپنے اس عقیدے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ چنانچہ جنرل ایوب، یحیی خاں، ضیا الحق اور مشرف تینوں کے ادوار میں وہ آمریتوں کے خلاف نبروآزما رہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے جمہوری حکومتوں کے غیر جمہوری اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت قبول کیا بلکہ نواز شریف ہوں یا بے نظیر، انھوں نے ان کی حکومتوں کے بھی کسی بھی غیر جمہوری قدم کو قبول نہیں کیا حتی کہ ان کو جمہوریت دشمن کے نام سے بھی جانا گیا۔ مگر انھیں حکومتوں کو جب غیر آئینی طور پر برطرف کیا گیا جو عاصمہ جہانگیر نے ہمیشہ اس کاروائی کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ اس بات کی قائل تھیں کہ پاکستان کو کسی بھی ملک کے خلاف کسی تشدد آمیز کاروائی میں ملوث نہیں ہونا چاہیئے اس لئے وہ کشمیر اور افغانستان میں جہاں ریاست کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف تھیں وہاں جہاد کے نام پر منظم ہوئی گروہوں کی پرتشدد کاروائیوں کی بھی مذمت کرتی تھیں اور ریاست پاکستان کو اس کام پر تنقید کا نشانہ بناتی تھیں کہ وہ ان میں سے بعض پرتشدد گروہوں کی سرپرستی کرتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ترہکئی، ببرک کارمل اور نجیب ادوار میں بھی پاکستانی پالیسی کی مخالف کی اور ان کو ریاستی اور امریکی لابی روسی ایجنٹ کہتی رہی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جن لوگوں کو وہ پرتشدد کاروائیوں کا ذمہ دار سمجھتی تھیں ان کے حقوق کو غضب کرنے کی اجازت دیتیں چنانچہ اسامہ بن لادن کے بیوی بچوں کی آزادی کا معاملہ ہو یا طالبان کے لاپتہ افراد ، وہ سب کے لئے آواز اٹھاتیں۔
عاصمہ جہانگیر نے ملک میں کسی فوجی ایکشن کی حمایت نہیں کی۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کا فوجی ایکشن ہو، یا بھٹو دور میں بلوچوں کے خلاف فوجی ایکشن، مشرف دور میں لال مسجد پر فوجی ایکشن ہو یا بلوچوں کے خلاف فوجی ایکشن سب کے خلاف آواز بلند کی۔
عاصمہ جہانگیر کے لئے حق کا معیار صرف انسانی حقوق تھے وہ اس کے لئے پوری دنیا میں ان لوگوں اور اداروں کی اتحادی تھیں جو انسانی حقوق کی حفاطت کے لئے بروئے کار تھے۔ اور اس کے لئے اپنے دوستوں اور دشمنوں دونوں کا ہر الزام خوش دلی سے قبول کرتی تھیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“