عاصمہ جہانگیر اور اوکاڑہ مزارعین کی جدوجہد
(پہلی قسط)
آج 11 فروری 2018 عاصمہ جہانگیر ہم سے جدا ہو گئیں، چند گھنٹے ان کے گھر پر گزارے، ہر فرد آنسو لئے پھر رھا تھا، یقین نہیں ہو رھا تھا کہ وہ ہم میں نہیں۔
ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے میں ان کے ساتھ گزرے جدوجہد کے تیس سالوں بارے کچھ لکھتا رھوں گا۔
یہ تحریر اوکاڑہ کے مزارعین اور عاصمہ جہانگیر کی انکے ساتھ یکجہتی کے کچھ واقعات بارے ہے۔
اوکاڑہ ملٹری فارمز مزارعین کی حق ملکیت کی جدوجہد سے ہمارا رابطہ 2001 میں ہوا۔ انکا ساتھ دینے کا عزم کیا گیا عاصمہ جہانگیرکو تفصیل سے اس جدوجہد بارے بتایا گیا تو انہوں نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کی۔
وہ اکاڑہ ملٹری فارمز گئیں تو ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ مزارع عورتیں پیش پیش تھیں۔ ان کو بتایا گیا کہ ملٹری فارمز انتظامیہ ہمارے مزارع کا سٹیٹس تبدیل کر کے ہمیں ٹھیکہ دار بنانا چاھتی ہے تا کہ بعد ازاں ہمیں بے دخل کیا جا سکے۔
مزارعین نے مالکی یا موت کی تحریک کا آغاز کیا اور ملٹری فارمز انتظامیہ نے انکے دیہاتوں کا گھیراؤ کیا گیا، یہ جنرل مشرف کا دور تھا۔ اس کے خلاف کوئی بڑی تحریک نہ تھی۔ مزارعوں نے اس تحریک کاآغاز کیا تو مزارع عورتیں پیش پیش تھیں۔ انہوں نے ایک “تھاپا” فورس بنائی ہوئی تھی جو ھاتھوں میں کپڑے دھونے والے تھاپے اٹھا کر پولیس کی دو تین دفعہ خوب دھلائی کر چکی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر ان کسان عورتوں کی جدوجہد سے بہت متاثر تھیں۔
گھیراؤ کے تین مہینوں کے دوران عاصمہ جہانگیر نے پرویز الہی جو اس وقت وزیر اعلی تھے سے ایک وفد کی صورت میں ملنے کا پلان بنایا۔ تا کہ ان مزارعین کی مدد کا کوئی طریقہ نکالا جائے۔ وفد میں سلیمہ ھاشمی، ڈاکٹر مبشر حسن اور دیگر کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ ہم انہیں انکے دفتر میں ملے، ان کو بتایا گیا کہ یہ زمین پنجاب حکومت کی ہے۔ مگر قبضہ ملٹری کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر یہ سمجھو کہ اس زمین کی مالک فوج ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپکی ملاقات جنرل حسین مہدی سے کراتا ہوں۔
ہم دوسرے روز جنرل حسین مہدی کے دفتر رینجرز ہیڈ کواٹر پہنچے تو انہوں نے ان چند مزارعین کو بلایا ہوا تھا جو ملٹری فارمز والوں کے ساتھ تھے۔ عاصمہ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ عاصمہ نے جنرل حسین مہدی کو کہا اگر بات سننی ہے تو ٹھیک ورنہ ہم واپس جاتے ہیں۔ میں مزارعین کے خلاف باتیں نہیں سننے آئی بلکہ مزارعین کے خلاف اپکے اقدامات پر بات کرنے آئی ہوں۔ جنرل صاحب ہکہ بکہ رہ گئے۔ پھر ان چند مزارعین کو باھر نکال دیا جو فوجی ایما پر وھاں آئے تھے۔ حسین مہدی سے کوئی دو گھنٹے بات ہوئی۔ انہوں نے کچھ باتیں مانیں اور کچھ سے انکار کیا۔
یہ ساری گفتگو میں نے ڈان کر رپورٹر محمد امجد کو بتائی جس نے اگلے روز ڈان میں ساری تفصیل شائع کر دی۔ پھر اسی روز عاصمہ کا مجھے فون ایا۔ “یہ ڈان کو خبر کس نے دی ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے ڈان سے بات کی تھی” عاصمہ نے مجھے خوب ڈانٹا اور کہا یہ خبر ابھی نہیں دینی تھی۔ میں نے کہا کہ مستقبل میں احتیاط کروں گا۔
اوکاڑہ کے دیہاتوں کا گھیراؤ جاری تھا۔ پنجاب بھر سے پولیس اوکاڑہ میں تھی۔ مشرف آمریت کو کسانوں کی بغاوت کا سامنا تھا۔ عاصمہ کی جنرل سے ملاقات کے
نتیجہ میں ان کے گھیراؤ میں کچھ نرمی ہوئی۔ چند روز بعد صورتحال پھر بگڑ گئی۔ میں نے اوکاڑہ کا وزٹ کیا جنرل حسین مہدی سے ایک اور ملاقات کے بعد اور واپسی پر عاصمہ کو بتایا کہ ملٹری ہر صورت اس تحریک کو کچلنے کو تیار بیٹھی ہے۔ وہ مزارعین سے سات سالہ لیز پر زبردستی دستخط کرانا چاھتے ہیں۔ عاصمہ نے کہا کہ کل پریس کانفرنس کریں گے۔
اگلے روز لاھور پریس کلب میں بھرپور پریس کانفرنس میں عاصمہ نے رحمان صاحب اور میرے ہمراہ مزارعین کو “سرنڈر” کرنے کی تلقین کی تا کہ مزید خون خرابہ سے بچا جا سکے، انہوں نے اس سے اگلے روز خود اوکاڑہ جانے کا اعلان کر دیا۔ یہ خبر ڈان نے بڑی نمایاں شائع کی تو مجھے ایک کرنل سلیم کا دھمکی آمیز فون آیا۔ “تمہیں پتہ ہے کہ “سرنڈ” کے معنی کیا ہیں۔ کرنل سلیم نے مجھ سے پوچھا۔ میرا جواب تھا کیا کچھ یاد آیا؟ کیا یہ آپ کر بیٹھے ہو؟ کیا ہم نے کوئی دکھتی رگ پر پاؤں رکھا ہے؟
جب عاصمہ اوکاڑہ ملٹری فارمز پہنچیں تو فوجیوں اور پولیس نے ان کا گھیراؤ کر لیا اور اپنے حصار میں ان کو مزارعین کو “سرنڈر”کرتے دیکھایا۔ مزارعین نے انکی بات مان کر سات سالہ لیز پر دستخط کرنے کا اعلان کیا۔ اور عاصمہ وہ دستخط کرنے والی تقریب کو قریب سے دیکھتی رھیں۔
پھر انہیں اوکاڑہ بدر کیا گیا۔ اور شہر سے باھر چھوڑ آئے۔ واپسی پر انہوں نے بتایا کہ ان دستخطوں کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں۔ یہ زبردستی لئے گئے ہیں۔ امریت کے خاتمے سے یہ دم توڑ جائیں گے۔
چند مہینوں میں مزارعین کی تحریک نے اس معاھدہ کو ماننے سے یکسر انکار کرتے ہوئے زمینوں پر اپنا کنٹرول جاری رکھا۔
اوکاڑہ کے مزارعین کی یہ تحریک اب بھی جاری ہے۔ جو کام فوجی امریت کے دوران نہ ہوا وہ میاں نواز شریف کے دور میں ہو گیا۔ یہ وہ میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے مشرف دور میں ایک سات صفحے کا بیان مزارعین کے حق میں جاری کیا اور وعدہ کیا کہ جب وہ اقتدار میں ائیں گے تو یہ زمینیں مزارعین کے نام کردی جائیں گی۔
جب ہم 2008 میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ میاں نواز شریف اور انکی پوری ٹیم جن میں میاں شہباز شریف، احسن اقبال، خواجہ اصف، چاھدری نثار سب شامل تھے سے ملے، رائے ونڈ کی یہ ملاقات پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکنے میں مسلم لیگ قیادت سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کرنے کے لئے تھی۔ باھر نکلتے ہی میں نے میاں نواز شریف کو اوکاڑہ بارے اپنا وعدہ پورا کرنے کی یاد دھانی کرائی تو انہوں نے اوکاڑہ مزارعین کی بہت تعریفیں کیں اور کہا کہ وعدہ پورا کریں گے، میرا وزٹ کارڈ مانگ کر لیا اور کہا رابطہ کریں گے۔ یہ رابطہ دوبارہ کبھی نہ ہوا۔
آج ملٹری کے انڈرپریشر مزارعین کی تمام لیڈرشپ گرفتار ہے۔ جھوٹے مقدمات کی بھرمار ہے اور انکے راھنما مہر عبدالستار کو ساھیوال کی ھائی سیکورٹی جیل میں بند کیا ہوا ہے۔
عاصمہ مزارعین کے کیس کسی معاوضہ کے بغیر لڑرھی تھیں، جب وہ فوت ہوئیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں انہوں لگی لپٹی بغیر مزارعین کے راھنماؤں پر غیر انسانی سلوک کی داستان بیان کی اور ھائی سیکورٹی جیل تبدیل کرنے کو کہا۔ چیف جسٹس نے مہر عبدالستار کی بیڑیاں اتارنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں جیل میں ان سے ملاقات کی اجازت بھی دی۔
عاصمہ جہانگیر کے ساتھ عابد ساقی کے ہمراہ ساھیوال پہنچے۔ یہ میرا انکے ساتھ اخری سفر تھا۔ مہر عبدالستار سے ملاقات نے اس مزارع راھنما کی زندگی کچھ آسان کر دی۔ واپسی پر مزارعین کے گاؤں میں گئے۔ جہاں سنکڑوں مزارع عورتوں نے انکا شاندار استقبال کیا۔
عاصمہ کی وفات سے دس روز قبل انکے دفتر میں اوکاڑہ کے وکیل شمشاد کے ساتھ ان سے ملنے گیا۔ تو انہوں نے نور بنی کے علاوہ ملک سلیم جھکڑ کا کیس لڑنے کا بھی وعدہ کیا۔ اور کہا کہ مزارعین کے تمام کیس کروں گی۔
انکی وفات کے بعد اوکاڑہ سے مجھے درجنوں فون آئے، وہ سب جنازے میں شرکت کے لئے آرھے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“