عاصمہ جہانگیر، ایک بہادر عورت
جنرل ضیاالحق کی آمریت میں دو بہنوں عاصمہ جیلانی اور حنا جیلانی نے اپنی جدوجہد اور بہادری کے حوالے سے یکایک نام کمایا۔ ملک غلام جیلانی کی ان دو بیٹیوں نے آئینی جدوجہد کی قانونی جنگ میں جو نام کمایا، وہ پاکستان کی سیاسی اورقانونی تاریخ کا اہم باب ہے۔ اُن دنوں لاہور میں چند ایک خواتین ہی مرد وکلا کے ساتھ سفید شلوار قمیص اور کالے کوٹ کے ساتھ دیکھنے کو ملتی تھیں۔ ان میں عاصمہ جیلانی اور حنا جیلانی کے علاوہ طلعت یعقوب، ریحانہ سرور نمایاں تھیں۔ اپنی شہرت اور جدوجہد کے آغاز میں عاصمہ جیلانی شادی کے بعد عاصمہ جہانگیر ہوگئیں۔ جنرل ضیاالحق کے خلاف مشترکہ سیاسی جدوجہد کی بنیاد لاہور ہائی کورٹ کے وکلا نے ڈالی جن میں محمود علی قصوری نمایاں تھے۔ جدوجہد کے اس نقطۂ آغاز کے بعد جن لوگوں نے اسے بھرپور طریقے سے منظم کیا، اُن میں جناب سید افضل حیدر، عابد حسن منٹو، رفیق چوہان، ملک محمد قاسم، اعتزاز احسن، عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی دیگر وکلا کے ہمراہ نمایاں طور پر متحرک نظر آئے۔ اُن دنوں لاہور ہائی کورٹ سیاسی مزاحمت کا سب سے بڑا اور شاید واحد مرکز تھا جہاں جنرل ضیا کے باغی اکٹھے ہوتے جن میں وکلا کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے سیاسی کارکن بھی شامل ہوئے۔ وکلا کے اسی اتحاد نے جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف وکلا تحریک شروع کی اور بعد میں اسی وکلا تحریک کے بطن سے پاکستان کا طویل ترین مدت تک قائم رہنے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی (Movement for the Restoration of Democracy) نے جنم لیا۔ اس گیارہ جماعتی سیاسی اتحاد نے جنرل ضیا کی آمرانہ حاکمیت کے خلاف دبنگ جہد مسلسل کی۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں شامل سیاسی کارکنوں کو قانونی معاونت کے لیے ایک گمنام ساتھی جناب لیاقت حسین وڑائچ ایڈووکیٹ مرحوم نے آغاز کیا تو یہ جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک واحد سہارا ثابت ہوا۔ عاصمہ جہانگیر نے اُن کے ہمراہ قانونی معاونت میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔ جنرل ضیا کے خلاف سڑکوں پر جمہوریت اور آئین کا مطالبہ کرنا سنگین جرم تھا اور جو جلوس نکالتا اُس کو عقوبت خانوں، زندانوں اور مقدمات کا جو سامنا کرنا پڑتا، اب وہ کوئی خوف انگیز افسانہ لگتا ہے۔ راقم نے اُنہی دنوں عاصمہ جہانگیر کو لاہور کی سڑکوں پر مہناز رفیع سمیت دیگر خواتین کے ساتھ نعرۂ بغاوت بلند کرتے ہر بار دیکھا۔ لیاقت حسین وڑائچ کے کام سے وہ اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے اس جدوجہد کو مزید Institutionalize کرنے کے لیے جیلانی فائونڈیشن کی بنیاد رکھی جس کا دفتر اُن کے اپنے لاء آفس واقع ہال روڈ میں تھا۔ بعد میں جیلانی فائونڈیشن سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بنا۔ اس کی بنیاد سیاسی ایکٹوسٹوں، وکیلوں اور صحافیوں نے مل کررکھی جن میں یحییٰ بختیار، درّاب پٹیل، نثار عثمانی، حبیب جالب، منو بھائی اور دیگر لوگ بھی شامل تھے۔
عاصمہ جہانگیر نے سیاسی کارکنوں کی قانونی جنگ کے ساتھ ہی عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا جس کے لیے طاہرہ مظہر علی خان مرحومہ کی قیادت میں بننے والا ادارہ ویمن ایکشن فورم (WAF) پاکستان میں خواتین کی جدوجہد کے حوالے سے ایک سنگ میل ثابت ہوا۔عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کی اس جدوجہد سے بھٹہ مزدوروں کے حقوق کو جوڑا جس میں احسان اللہ خان کا ذکر نہ کیا جائے تو تاریخ سے زیادتی ہوگی۔ اور ایک بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عاصمہ جہانگیرانسانی اور عوامی حقوق کی اس جدوجہد کو صرف عدالتوں کے اندر ہی نہیں لڑتی رہیں بلکہ وہ شہر شہر سڑکوں پر ہم سب کے ساتھ شامل ہوئیں۔ میں اُن کے حوالے سے جدوجہد کے چند واقعات کبھی نہیں بھولوں گا۔ ان میں حبیب جالب اور بشریٰ اعتزاز کے ہمراہ اُن کا جنرل ضیا کی پولیس کے ہاتھوں پٹنا نمایاں ہے۔ یہ جلوس جہاں پاکستان میں سیاسی تاریخ میں انمٹ اثرات چھوڑ گیا، وہیں چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے دعوے دار جنرل ضیا کی طرف سے عورتوں پر تشدد کے بعد یہ واقعہ خواتین کے حقوق کا پہلا اور اہم ترین سنگ میل تو ثابت ہوا، مگر ساتھ ہی جنرل ضیا کی آمریت میںایک ایسا شگاف ڈال گیا، جو وقت کے ساتھ پھیلتا چلا گیا۔ اس مظاہرے میں شامل ہونا پانچ سال قید اور دس کوڑوں کا سزاوار ٹھہرایا جانا تھا۔راقم سیاسی جدوجہد کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اس مظاہرے میں بڑے جوش وخروش سے شامل تو تھا، لیکن جب مظاہرے میں شامل حبیب جالب اور خواتین کے سروں پر پولیس کے ڈنڈے پڑے تو پھر وہ کچھ ہوا جو ریاستی تشدد کے خلاف ایکٹوسٹسStreet Fights میں کرتے ہیں۔
جنرل ضیا نے جب اپنی آمریت کو جعلی ووٹوں کے عمل سے قانونی حیثیت دینے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کیا تو اس روز 19دسمبر 1984ء کو مسجد شہدا میں ایم آر ڈی نے جلسے کا انعقاد کیا۔ جلسہ مسجد کے صحن میں منعقد ہوا جس میں تین چار سو لوگ شامل تھے۔ مسجد کے گرد حصار بنانے اور پوری مال روڈ کو سیل کرنے کے لیے سینکڑوں پولیس والے تعینات تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوجی جیپیں لوڈڈ بندوقیں تانے سڑکوں پر گشت کررہی تھیں۔ جلسہ ابھی جاری تھا کہ چند سیاسی کارکن مسجد سے باہر آنے اور نعرے بلند کرنے لگے۔ اس دوران عاصمہ جہانگیر بشمول شاہ تاج صاحبہ کے پانچ چھے خواتین کی ٹولی لے کر سڑک پر نکل آئیں۔ میرے ہمراہ دو سیاسی کارکن تھے۔ ہم عاصمہ جہانگیرسے کافی فاصلے پر نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ اس دوران ایک پولیس والا اپنے بازوئوں کی پوری طاقت سے آٹھ فٹ لمبا اور موٹا بانس کا ڈنڈا لیے عاصمہ کے پیچھے تھا۔ عاصمہ جہانگیر اور ان کی ساتھیوںکو قطعاً علم نہیں تھا کہ پیچھے سے ایک وردی والا اُن پر مکمل طاقت سے وار کرنے کو تھا۔اس دوران سڑک کنارے پڑی بجری کے بھاری پتھر سے یہ پولیس والا گھائل ہوگیا۔ اس کا قاتل ڈنڈا بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہوگیا۔ عاصمہ جہانگیر، آئین بحال کرو، ریفرنڈم مردہ باد، کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھ گئیں اور ہم دونوں ایکٹوسٹ بھی۔ کیا معلوم کہ وہ بھاری ڈنڈا اُن کے سر پر پڑ جاتا تو۔۔۔ اسی ریفررنڈم پر حبیب جالب نے کہا:
ہر جانب ہُو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا
عاصمہ جہانگیر ہم جیسی ایکٹوسٹ تھیں۔ جب وہ عدالت میں قانونی جنگ لڑتیں تو جان دار وکیل اور سڑک پر جدوجہد کرتیں تو دبنگ سیاسی ایکٹوسٹ کی طرح۔ ایسے سینکڑوں مظاہروں میں راقم بھی عملی طور پر حصہ رہا اور گواہ بھی۔ پہلی خلیجی جنگ اور دوسری خلیجی جنگ کے دوران راقم نے فاروق طارق اور بائیں بازو کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اینٹی گلف وار کمیٹی کے تحت لاہور سمیت ملک کے تمام شہروں میں جو مظاہرے منعقد کیے، وہ پاکستان کی سیاست میں کبھی نہیں بھلائے جاسکتے۔ عاصمہ جہانگیر ان مظاہروں میں ویسے ہی شامل ہوئیں جیسے اینٹی گلف وار کمیٹی کے منتظمین نے طے کیا۔ وہ امریکہ کی عراق میں مداخلت، فلسطین ، اسرائیلی جارحیت اور لبنان پر اسرائیلی جنگ مسلط کیے جانے کے خلاف ہم جیسے ترقی پسندوں کے مظاہروں میں دل وجان سے شامل ہوئیں۔
2010ء میں سابق وزیر قانون جناب بابر اعوان نے سابق صدر آصف علی زرداری کی اس خواہش کو میرے ساتھ شیئر کیا کہ صدر آصف زرداری چاہتے ہیں کہ عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا الیکشن لڑیں۔ میں نے بابر اعوان صاحب سے عرض کی کہ جہاں تک میں عاصمہ جہانگیرکے مزاج سے آشنا ہوں، اگر آپ کی جماعت جوکہ اب حکمران ہے، وہ اس خواہش کا اظہار کرے تو عاصمہ جہانگیر قطعاً اس خواہش کو پورا نہیں کریں گی۔ لہٰذا گورنر ہائوس میں ایک ڈنر رکھا گیا جس میں پانچ چھے لوگ شریک ہوئے۔ اس ڈنر میں غیرمحسوس انداز میں اس بحث کو چھیڑا گیا کہ سپریم کورٹ بار کا صدر ایک آزاد فکر رکھنے والی شخصیت کو ہونا چاہیے۔ راقم نے اس بحث کو طے شدہ منصوبے کے مطابق کچھ ایسے جاری رکھا کہ قرہ، عاصمہ جہانگیر کے نام نکل آئے اور ڈنر کے اختتام پر ایک بزرگ دوست کی یہ ’’دانش مندانہ‘‘ ذمہ داری لگائی کہ وہ عاصمہ کو اس کے لیے تیار کریں۔ انہوں نے میرے کہنے کے مطابق مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو اس کے لیے قائل کرلیا کہ وہ سپریم کورٹ بار کا الیکشن لڑیں۔ انہوں نے الیکشن لڑا اور جیت گئیں۔ لیکن یہ راز کبھی بے نقاب نہ کیا گیا کہ اُن کو سپریم کورٹ بار کی صدارت کے لیے کیسے اور کس نے ’’غیرمحسوس انداز‘‘ میں قائل کیا۔ اس لیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے نام نہاد ڈسپلن سے بالاتر تھیں۔ جب انہوں نے سپریم کورٹ بار کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، راقم نے انہیں پی ٹی وی میں اپنے پروگرام ’’تناظر‘‘ میں بطور مہمان مدعو کیا۔ انٹرویو ریکارڈ ہو اتو میں نے اُن سے عرض کی کہ اب آپ نے کسی ٹی وی چینل کو انٹرویو نہیں دینا، وہ آپ کا انٹرویو کم اور آپ کو رسوا زیادہ کریں گے اور یہی ان کا وتیرہ ہے۔ انہیں نے ایسا ہی کیا۔ وہ جس روز الیکشن جیت رہی تھیں، سابق وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے لاہور میں ایک وزیر کے ہاں ڈنر رکھا۔ نتائج مکمل ہوئے۔ عاصمہ جہانگیر جیت گئیں۔ کمرے میں موجود تمام صحافی وزیر قانون کو مبارک بادیں دے رہے تھے۔ بابر اعوان نے کہا، All credit goes to Mr. Goindi۔ بڑے بڑے صحافی اس کمنٹ پر چونک گئے۔ عاصمہ جہانگیر میرے لیے Street Fightingکی ایک دبنگ ساتھی تھیں اور یوں 11فروری 2018ء کو ہم ایک Multidimensional Fighter سے محروم ہوگئے۔