جس دن مورچے کھودنے کی ہدایات ملیں‘ مجھے بہت تیز بخار تھا۔ ہم چک لالہ چھائونی میں رہتے تھے۔ ایئرفورس کی بیس کے قریب! ایئرپورٹ بھی وہیں تھا۔ جس سرکاری گھر میں ہم رہ رہے تھے‘ اس کے سامنے کھلا میدان تھا۔ ہر گھر نے اپنے لیے الگ مورچہ کھدوانا تھا تاکہ سائرن ہو تو مکین اس میں پناہ لے سکیں۔ میں بارہویں جماعت پاس کر کے تیرہویں میں داخل ہو چکا تھا۔ ٹائی فائڈ کا اُن دنوں محدود قسم کا علاج تھا۔ کچھ ’’مائی سین‘‘ قسم کے کیپسول ہوتے تھے یا انجکشن۔ سوال یہ بھی تھا کہ جب سائرن بجے اور مورچوں کی طرف بھاگیں تو مجھے مورچے میں کیسے منتقل کیا جائے گا؟ اگر والد صاحب اُس وقت گھر پر موجود نہ ہوں تو کیا ہوگا؟
دوسرے دن دادی جان کا پیغام آیا۔ انہوں نے والد صاحب کو کہلوا بھیجا تھا کہ بچوں کو لے کر گائوں آ جائو۔ لِنک روڈ قسم کی پختہ سڑکیں تب قریہ قریہ موجود نہیں تھیں۔ ہمارا قافلہ بس سے اترا تو گھوڑیاں آئی ہوئی تھیں۔ تب پہلی بار احساس ہوا کہ گائوں کا آبائی گھر شناخت کے ساتھ ساتھ پناہ بھی دیتا ہے۔ رات کو گائوں میں بھی بلیک آئوٹ کرنا ہوتا تھا مگر مورچوں میں جانے کا تکلف نہ تھا۔ گندم کے موٹے آٹے کا بنا ہوا وہ شدید دیسی قسم کا دلیہ کبھی نہیں بھولتا جو دادی جان بناتی تھیں اور میں مریض ہونے کے باوجود کثیر مقدار میں کھاتا تھا۔ والد صاحب جب مذاق میں بسیار خور کہتے تو دادی جان یہ سمجھے بغیر کہ یہ مذاق ہے‘ پوتے کا دفاع کرتیں۔
گائوں میں ایک خاندان موچیوں کا تھا۔ ہم جب گائوں میں داخل ہوتے تو بالکل شروع میں دائیں طرف ایک کمرے میں اُس خاندان کے چار پانچ بھائی فرش پر بیٹھے‘ سامنے رکھی چوکیوں پر نہایت مستعدی سے جوتے بنا رہے ہوتے۔ تب مردوں کی زیادہ تعداد اور خواتین بھی‘ کھُسّے پہنتیں‘ انہیں طِلّے والی جوتی بھی کہتے تھے۔ والد صاحب اور ان کے دونوں بھائی پڑھنے پڑھانے اور ملازمتوں کے سلسلے میں دوسرے شہروں میں رہتے جنہیں اُس زمانے میں ’’پردیس‘‘ کہا جاتا۔ یہ بھائی جب گائوں میں اکٹھے ہوتے تو رات رات بھر باتیں کرتے۔ ایک بار تایا جان نے مسرت سے کہا تھا کہ ان موچیوں پر رشک آتا ہے کہ سارے بھائی ایک ہی کمرے میں ہوتے ہیں‘ اکٹھے رہتے ہیں اور کسی کو پردیس نہیں جانا پڑتا۔
یہ ’’مارشل ایریا‘‘ کا گڑھ تھا! گائوں زیادہ بڑا نہیں تھا‘ مگر جتنا بھی تھا‘ اس کے درجنوں جوان فوج میں ملازمت کر رہے تھے۔ موچیوں کا ایک جوان جس کا نام اسلم تھا‘ فوج میں کمانڈو تھا! آج بھی وہ اگر سامنے آئے تو میں اسے پہچان لوں!
سارا دن گائوں میں جنگ کی باتیں ہوتیں۔ کیا عورتیں کیا مرد کیا بچے‘ ایک ایک کو جنگ کی تفصیلات کا علم تھا۔ بھارت کے لیے دشمن کا لفظ استعمال ہوتا یا ہندو کا۔ چھٹیوں پر آئے فوجی جوان جنگ شروع ہوتے ہی اپنی اپنی ڈیوٹی پر واپس جا چکے تھے۔ جنگ کے دوران ان فوجیوں کے گھروالوں کو مطلق علم نہیں تھا کہ کون کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ جنگ ختم ہوئی تو خبریں آنا شروع ہوئیں۔ اسلم کمانڈو اُن فوجیوں میں شامل تھا جو جنگ کے دوران دشمن کے علاقے میں اُترے تھے۔ انہیں چھاتہ بردار کہا جاتا تھا۔ جو اطلاعات اسلم کے گھروالوں کو ملی تھیں اور جو اس کے گھر کی معرفت پورے گائوں میں زیر بحث تھیں ان کے مطابق وہ تین ساتھی تھے جو سرحد پار‘ دشمن کی کسی چھائونی کے قریب‘ ساتھ ساتھ اترے۔ ان میں سے دو واپس پہنچ گئے‘ اسلم نہ آیا۔ چھاتہ بردار سپاہی جب دشمن کے علاقے میں اترتا ہے تو وہ ظاہر ہے اپنی بٹالین یا کمپنی کے ساتھ نہیں ہوتا‘ تن تنہا ہوتا ہے۔ اُس نے وہ ڈیوٹی بھی انجام دینا ہوتی ہے جس کے لیے اسے بھیجا جاتا ہے‘ اپنے بچائو کی تدبیر بھی کرنا ہوتی ہے اور ہر حال میں‘ سلامت یا زخمی‘ وطن واپس بھی پہنچنا ہوتا ہے۔ دن گزرتے گئے۔ پھر ہفتے‘ پھر مہینے‘ پھر سال‘ پھر عشرے۔ میں نے گریجوایشن کر لی۔ ایم اے کرنے ڈھاکہ یونیورسٹی چلا گیا۔ پھر ملازمت کی۔ گائوں کے میرے ہم عمر زمینداریوں میں لگ گئے۔ عمریں گزر گئیں۔ نصف صدی ہو چکی ہے۔ اسلم کبھی واپس نہ آیا۔ موچیوں کا خاندان تتر بتر ہو گیا۔ کچھ پڑھ لکھ گئے‘ کچھ شہروں کو سدھار گئے۔ اب تو اسلم کا نام بھی صرف چند معمر افراد کو یاد رہ گیا ہوگا۔ اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ اپنے گائوں کے حوالے سے اور اسلم کے ذکر سے شورش کاشمیری کا مشہور شعر یاد آ رہا ہے ؎
اس حقیقت کو نہ بھولیں ہم نشینانِ چمن
یہ زمینِ پاک میری ہے یہ ہے میرا وطن
1965ء گزر گیا۔ جنگ ختم ہو گئی۔ بھارت نے جان لیا کہ شیوا جی کی اولاد کو سرحد کوئی نہیں پار کرنے دے گا۔ اس لیے کہ اس وطن کے پاس ایک نہیں کئی اسلم ہیں جنہیں مائوں نے پال پوس کر خاکِ وطن کے حوالے کر دیا اور پھر خاکِ وطن سے ان اسلموں کا‘ ان جگر گوشوں کا‘ ان خوبصورت بیٹوں کا حساب بھی نہ لیا۔ یہ بیٹے مائوں نے اس لیے پالے تھے کہ وطن کی خاک پر قربان ہو جائیں‘ سو وہ ہوئے۔ کچھ چھاتہ بردار تھے جو دشمن کی بستیوں کے اندر چلے گئے‘ پکڑے گئے تو جان دے دی مگر راز نہ دیا۔ کچھ نے بم جسموں سے باندھے اور چونڈہ کے میدان میں بھارت کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ یہ ٹینکوں کی دنیا میں سب سے بڑی جنگ تھی۔ بم بندھے جسموں کے پرخچے اُڑ گئے اور ساتھ ہی دشمن کے مکر کے بھی! شورش کاشمیری نے کہ اس کا قلم 65ء کی جنگ کے دوران ننگی تلوار بن کر دشمن کی گردن پر پڑا تھا۔ کہا تھا ؎
ٹینکوں کے ہلہلے میں چونڈہ کا معرکہ
چاونؔ کے حق میں تیغِ جگر وار ہو گیا
کچھ نے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر دشمن کے علاقے میں بمباری کی اور جان اُس خدا کے سپرد کی جس نے اِس جنگ میں پاکستان کو فتح دی۔
والد گرامی حافظ محمد ظہور الحق ظہورؔ اُس زمانے میں ملک کے معروف اخبارات و جرائد میں نظمیں لکھا کرتے تھے۔ نصراللہ خان عزیز اُن کے دوستوں میں سے تھے اس لیے ان کے جریدے ’’ایشیا‘‘ میں باقاعدگی سے چھپتے۔ ہر قلم کار کی طرح والد گرامی نے بھی جوش جذبے ا ور آنسوئوں میں بھیگی ہوئی نظمیں کہیں ؎
ہندوئوں کو اپنے جن ٹینکوں پہ تھا فخر و غرور
ضربِ الّا اللہ سے وہ ہو گئے ہیں چُور چُور
بحر میں‘ بر میں‘ فضا میں باندھ کر سر پر کفن
لشکرِ باطل پہ ٹوٹے نوجوانانِ وطن
ہو گئیں خاموش توپیں بھارتی افواج کی
ہو گئی مفلوج طاقت ہندوئوں کے راج کی
اور یہ بھی ؎
پڑ گیا پالا ہمیں یا رب یہ کس شیطان سے
فتنہ پرور‘ جور پیشہ‘ دشمنِ ایمان سے
ناروا قبضہ ہے جس کا وادیٔ کشمیر پر
جو مسلط ہو گیا آزادیٔ کشمیر پر
مر رہی ہے قوم اُس کی بھوک سے ہو کر زبوں
ہے سوار اس پر مگر ہر حال میں جنگی جنوں
بھوت پر لاتوں کا باتوں سے سنور سکتا نہیں
کام جو کرتی ہے طاقت کوئی کر سکتا نہیں
گونج اٹھے گی فضا جب نعرۂ تکبیر سے
بھاگ جائے گا یہ شیطاں وادیٔ کشمیر سے
اور جب آ جائے گا ’’موسیٰ‘‘ عصا لے کر ظہور
بھارتی ’’فرعون‘‘ کا مٹ جائے گا کبر و غرور
پاکستان آرمی کی قیادت اُس وقت جنرل موسیٰ کر رہے تھے۔ سردار یزدان خان کا یہ قابلِ فخر سپوت جس نے بھارتی جارحیت کو ذلت سے دوچار کیا‘ کوئٹہ سے تھا اور ہزارہ قبیلے کا چشم و چراغ!
مجید امجد نے 1965ء کی جنگ پر ایک نظم کہی تھی جس میں دولت کی ہوس رکھنے والوں کو خطاب کیا تھا اور پوچھا تھا کہ آسائشوں اور تکبر سے بھرے ہوئے تمہارے گھروں میں سب کچھ تھا مگر جب دشمن نے حملہ کیا تو تمہاری کیا حالت تھی؟ تمہیں صرف اپنے خزانوں کی فکر تھی ؎
اگر اس مقدس زمیں پر مرا خوں نہ بہتا
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
مری کڑکڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں
تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے
تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے
مجید امجد نے دولت کی ہوس رکھنے والوں کو خطاب کیا تھا۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ پاکستان پر وہ وقت بھی آئے گا جب یہ ہوس پاگل پن کی آخری حدوں سے بھی آگے نکل جائے گی۔ ہسپتالوں کی ایمبولینسوں میں اسلحہ ڈھویا جائے گا۔ مریضوں کو زہر کے انجکشن لگیں گے۔ گدھے لاکھوں کی تعداد میں ’’ذبح‘‘ کیے جائیں گے۔ محلات لندن سے دبئی تک پھیل جائیں گے۔ وقت کے وزیراعظم کے اثاثے حکومت میں آنے کے بعد ایک سال میں ساٹھ کروڑ بڑھیں گے۔
اس ریاست کو ایسا صدر بھی ملے گا جو اپنے ساتھیوں کی پیٹھ ٹھونکے گا کہ لُوٹو! جتنا لُوٹ سکتے ہو لُوٹو! ایسے سابق وزیراعظم ہوں گے جو شرم ناک کرپشن کے مقدموں میں ضمانت لیں گے تو ہنستے ہوئے وکٹری کا نشان بنائیں گے۔
کیا اسلم نے اپنی جان اس لیے قربان کی تھی؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“