عسکری ٹیلی کام کا آتا ہے زمانہ
جو مسابقت تم کو نظر آئے مٹا دو
1976 میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ٹیلی کام کی سہولیات مہیا کرنے کیلئے سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا- دونوں خطوں کی جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر وہاں روایتی لینڈ لائن نیٹ ورک بچھانا ممکن نہ تھا اس لئے ایس سی او کے ذریعے فوج کے وائرلیس نیٹ ورک کو استعمال کیا جانا مقصود تھا- نوے کی دہائی کے وسط میں پاکستان میں موبائل کمیونیکیشن کا آغاز ہوا، جو اس صدی کی پہلی دہائی میں اپنے عروج پر پہنچ گیا- تقریبا" تمام ٹیلی کام کمپنیوں کی خواہش اور مطالبہ ہے کہ انہیں آزاد کشمیر اور گلگلت بلتستان میں بھی لیول پلئینگ فیلڈ مہیا کی جائے- وہاں کے عوام بھی ایس سی او کی محدود اور معیار سے کم تر موبائل سروس سے اکتا چکے ہیں، ان کی خواہش بھی یہی ہے کہ دیگر ملک کی طرح انہیں بھی جدید تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کا موقع ملے–
ہمارے بڑوں کی خواہش مگر کچھ اور ہے- یاد رہے کہ ایس سی او ایک جانب براہ راست میجرجنرل کی سربراہی میں کام کرتی ہے اور اس کا پورا نیٹ ورک فوج کے زیرانتظام چلتا ہے تو دوسری جانب یہ منسٹری آف آئی ٹی کے تحت آتی ہے یوں اس کا تمام بجٹ منسٹری پورا کرتی ہے- آئی ٹی منسٹری کا اسی فیصد بجٹ ایس سی او کے خرچوں کی نذر ہو جاتا ہے- مگر بڑے اس انتظام سے بھی خوش نہیں ہیں- ان کا مطالبہ دیگر ٹیلی کام کمپنیوں سے بالکل الٹ ہے–
بڑوں کا اصرار ہے کہ انہیں عوام کو ٹیلی کام سروسز کی فراہمی میں سالانہ ایک ارب نقصان ہو رہا ہے- گوکہ یہ نقصان پورا کرنے کو آئی ٹی منسٹری موجود ہے مگر فرمائش یہ کی جا رہی ہے کہ ایک تو اے جے کے اور جی بی میں ان کی اجارہ داری قائم رہے، دوسرا انہیں پورے ملک میں دیگر ٹیلی کام کمپنیوں کی مانند آپریشن کی اجازت دی جائے–
ان دو فرمائشوں میں چند قباحتیں ہیں، مثلا" پرائیویٹ ٹیلی کام کمپنیوں کو ہم نے پورے ملک میں آپریشن کا لائسنس دے رکھا ہے مگر ہم انہیں ان دو علاقوں میں کام کی اجازت نہ دے کر پہلے ہی لائسنس کی ایک شق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں- دوسرا تھری جی اور فور جی سپیکٹرم کی فروخت کے وقت یہ طے پایا تھا کہ مارکیٹ میں مزید کسی ٹیلی کام کمپنی کو داخل نہیں کیا جائے گا–
نہ صرف یہ کہ کئی ملین ڈالرز کی بولی دے کر ان کمپنیوں نے تھری جی اور فورجی سپیکٹرم حاصل کئے ہیں بلکہ اس وقت ریوینیو کا بہت بڑا ذریعہ یہ ٹیلی کام کمپنیاں اور ان کے پیکجز سے وصول ہونے والا ٹیکس ہے- ایسے میں حکومت ایس سی او کی فرمائش پورا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی- خصوصا" اس صورت میں جبکہ انوکھے لاڈلوں کی فرمائش فقط یہ نہیں کہ انہیں پورے ملک میں آپریٹ کرنے کی کھلی چھوٹ فراہم کی جائے بلکہ یہ بھی کہ یہ کھلی چھوٹ انہیں بالکل مفت فراہم کی جائے، انہیں پورے ملک میں نیٹ ورک لگانے کیلئے حکومت وسائل فراہم کرے اور ایس سی او کو اس کی آمدنی، اثاثوں پر ٹیکس چھوٹ اور ضروری آلات کی درامد پر ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا جائے–
ایسا کرنا ظاہر ہے دیگر تمام موبائل کمپنیوں کو حکومت کے خلاف پہلے ملکی عدالتوں اور بعدازاں عالمی عدالت میں کروڑوں اربوں ڈالرز کے ہرجانے کے دعوے دائر کرنے پر مجبور کر دے گا- مگر بڑوں کے گلشن کا کاروبار چلتا رہے، ریاست اور حکومت کے ممکنہ نقصان کی پروا وہ کم ہی کرتے ہیں- تازہ ترین مثال گلگت بلتستان کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے–
زونگ کمپنی نے پانچ مئی سے گلگت بلتستان میں تھری جی اور فور جی سروسز کا آغاز کرنا تھا- ایس سی او نے اس سے پہلے اپنی تھری جی اور فور جی سروسز کا آغاز کر دیا اور زونگ کے خلاف عدالت جا کر زونگ کو فی الحال کام کرنے سے روک دیا ہے- گو عدالت تمام متعلقہ فریقین کا جواب لے کر ایک ماہ بعد دوبارہ سماعت کا آغاز کرے گی، مگر اس کے عبوری فیصلے کے مطابق ایس سی او کو زونگ کی سروس سے بہت بڑا مالی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا جو کہ جائز تھا–
یہاں مضحکہ خیز ترین بات یہ ہے کہ ایس سی او کے پاس ملک میں تھری جی اور فور جی سپیکٹرم کی پی ٹی اے سے حاصل کردہ بینڈوتھ ہے، نہ لائسنس نہ اجازت نامہ- گویا ایک دو نمبر کمپنی کی سروس چلانے کیلئے ایک لائسنس ہولڈر کو کام سے روک دیا گیا ہے- لائیک مینی ادر تھنگز، اٹ آلسو ہیپنز اونلی ان پاکستان–
ایس سی او نے اپنے ہیڈکوارٹر کے باہر پورے ملک کے بڑے شہروں کی تصاویر آویزاں کر رکھی ہیں، جو پیغام ہے کہ تسی جو مرضی کر لو، اسی اپنی سروس چلا کے چھڈاں گے- چند دن پہلے گزر ہوا تو تصویر لینے کی کوشش کی، مگر اوپر واچ پوسٹ پہ بیٹھے سپاہی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نکل لو- نکل لئے–
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔