جملہ سماعت پر بم بنکر گرا تھا وہ لڑکا مجھے یہ خبر دینے آیا تھا، آصف میرا بچپن کا دوست تھا وہ دوست جو آپ کے ہم عمر ہوتے ہیں اور پڑوس میں رہتے ہیں اور جو آپکے ہوش سنبھالنے کے بعد سے آپکے دوست ہوتے ہیں،
وہ جو ہمیشہ آپکے دوست رہتے ہیں چاہے کچھ بھی ہوجاۓ
ڈور بیل بجی تو میں دیکھنے کے لیے آیا تھا کہ کون ہے اور نیچے
کھڑے لڑکے نے یہ خبر سنا دی بڑی مشکل سے خود کو سنبھال کر نیچے پہنچا تاکہ تفصیل معلوم کر سکوں
پہنچتے ہی عجلت اور دکھ سے پوچھا کیسے ہوئ انکل کی ڈیتھ تو وہ کچھ لمحے میری شکل کو تکتا رہا پھر مجھے گلے لگا کر میرے کان میں آہستہ سے بولا
انکل کی نہیں ڈیتھ "آصف" کی ہوئ ہے
جملہ پہلے بھی یہی تھا مگر چونکہ سان و گمان میں ایسا کچھ ہونے کا شائبہ نا تھا اس لیے دماغ نے خود ہی ری کمپوز کر لیا اور موت کے منہ سے میرے دوست کو نکال کر اسکے والد کو فٹ کردیا،
اسکے بعد تو کھڑا نہیں رہا گیا فقط بائیس سال کی عمر میں اس نے خود کو کمرے میں بند کر کے خود سوزی کر لی
اور میں برسوں اسکی قبر پر بیٹھ کر یہی شکوہ کرتا رہا کہ کسی اچھے ڈھنگ سے مر جاتا، تُو نے تو آخری دیدار بھی اس چہرے کا نا کرنے دیا سالے جس سے ہم بچپن سے آشنا تھے اور جیلس بھی کے اس روشن چہرے کے آگے ہماری بات نا بن پائ کبھی سوتیلی ماں کی کڑوی باتوں ناروا سلوک مفت کی روٹیاں توڑنے کے طعنوں سے تنگ تھا بہت، میں نے ارد گرد کئ لوگوں کو دیکھا جنہیں اپنا بچپن آج messed up لگتا ہے،
مگر ان دونوں بہن بھائ کا بچپن میں نے خود دیکھا ان دونوں بچوں کے بال اور ناخن میری امی تراشہ کرتی تھیں
انکے کپڑوں کا اہتمام ہمیشہ اپنے پاپا کو کرتے دیکھا
ناشتہ کھانا عموماً ہمارے گھر کرتے تھے
پتا نہیں کیسے مست تھے اسکے والد حالانکہ وہ تو سگے تھے ان کے مگر حال یہ تھا کے ان دونوں بہن بھائی کا حال دیکھ کر نظر بندی اور جادو ٹونے جیسی فضول باتوں پر بھی یقین ہونے لگتا کہ کیسے یہ آدمی اپنے دوسرے بچوں میں اتنا مگن ہے مگر ان دونوں سے اتنا غافل سگی ماں مر گئ تھی دونوں کی مگر سگا باپ تو زندہ تھا،
گریجوئشن کا آخری سال تھا جب وہ لوگ اپنے نئے گھر شفٹ ہوگئے
مگر گھر بہت دور نا ہونے کی وجہ سے ملنا ملانا جاری رہا
خودکشی سے چھے ماہ پہلے مزاج بہت تبدیل ہوگیا تھا
ملنے آتا تو کبھی گھنٹوں چپ بیٹھا رہتا یا پھر خودکشی کے موضوع پر بحث کرتا رہتا کہ حرام کیوں ہے بزدلی کیوں ہے مایوسی کفر کیوں ہے
گاہے گاہے یہ دورہ اسے پڑتا رہتا تھا
اور میں اپنے طور پر سمجھا بجھا لیتا کچھ نا کچھ اور بات چھیڑ دیتا کہیں گھومنے نکل جاتے یا رات روک لیتا اور بات بن جاتی جیسے کچھ دیر کے لیے ہی سہی
زندہ رہنے کی آرزو جاگ جاتی اس میں یا فقط ایسا مجھے محسوس ہوتا بس اپنے اطمینان کے لیے کہ نہیں نہیں میرا یہ دھانسو پٹھان اپنی جان نہیں لے سکتا ٹھیک ہوجائیگا،
ہمارا یونیورسٹی سے پاکستان ٹور کا پروگرام بن گیا نکلنے سے دو دن پہلے ملاقات ہوئ تھی بتایا تھا اسے بڑا خوش ہوا اور ٹرپ پر لڑکیاں پٹانے کی ٹپس بھی دیتا رہا ہم خوب ہنسے تھے اس دن،
دو دن بعد میں روانہ ہوگیا گیا، رابطے آسان نہیں تھے ان دنوں موبائل کچھ ایسا عام نا تھا فون ہر جگہ میسر نا تھا دن کی ایک کال کرتے تھے کسی پبلک کال آفس سے اور ماں کو خیر خیریت بتاکر سب کی خیریت دریافت کر لیا کرتے تھے
کوئ دو ہفتہ بعد واپسی ہوئ تو امی نے بتایا کہ آصف روز آرہا ہے بس تمہارا پوچھ کر چلا جاتا ہے اوپر بھی نہیں آتا کوئ بہانہ بنا دیتا جب بھی بیٹھنے رکنے کو کہا
سوچا کل ہی ملتے ہیں روداد سناتے ہیں سیف الملوک کی، تھکن کافی تھی سفر کی تو بس جلدی سو گیا،
اور دوپہر دیر سے جاگنے کے کچھ دیر بعد یہ اطلاع ملی،
سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد جیسے سب تازہ ہوگیا دماغ میں، قلم کے راستے میں یہ سب غبار بن کر حائل ہوگیا،
کتنا عرصہ ایسا لگتا رہا جیسے میرا میسر نا ہونا کھا گیا اسے، یہ بھی سوچتا رہا کہ چار پانچ گھنٹے مزید رک جاتا اور ہماری بات ہو جاتی تو شاید یہ سب نا ہوتا اور ہھر ایک کاش بھی کہ کاش میں جلدی اٹھ کر ملنےچلا جاتا اس سے،
وہ سب جو اب بے معنی ہے
ہمارے ارد گرد ڈپریشن اور بہت سے دیگر نفسیاتی مسائل سے نبزد آزما کتنے ہی لوگ بس ایسے کسی بھی فیصلہ کے دہانے پر کھڑے ہیں کسی کی زرا سی توجہ اور شفقت و محبت کی رسی سے بندھے
بغیر کسی خرچ اور کسی قیمت کے فقط زرا سے اچھے رویہ کی وجہ سے انکی سانس کی ڈوری دراز ہوسکتی ہے
کلینیکل ڈپریشن دین سے دوری کا نتیجہ نہیں دلوں کا سکون تو خدا کی یاد میں ہے کا چورن بھی کسی مریض کو ہضم نہیں ہوسکتا ہر رشتے ہر سبب سے اعتبار اٹھ جانے کے بعد ایسی باتیں متاثرہ شخص کو مزید احساس گناہ میں مبتلا کرنے کا باعث تو بن سکتی ہیں اسکی مدد ہرگز نہیں کر سکتیں،
یہاں چیخنے چلانے ہمہ وقت ڈپریشن کا رونا رونے والوں کے بارے میں میری اپنی راۓ بھی غیر حساس ہوتی رہی ہے جسکے لیے میں شرمندہ ہوں گذشتہ کچھ دنوں میں مجھے شدت سے احساس ہوا اس بات کا
کہ
"کبھی کبھی کسی کو کوئ بھی میسر نہیں ہوتا"
تو سوشل میڈیا ٹائم لائن ہی غبار نکلنے کا راستہ بن جاتی ہے کسی کا اچھا رویہ کوئ appriciation tweet کوئ ہنستی مسکراتی حوصلہ دیتی بات ہی کسی کے انتہائ قدم سے واپسی کا سبب بن جاتی ہے، ڈپریشن مذہب یا خدا سے غفلت کا نتیجہ نہیں ڈپریشن ایک کہانی ہے مسائل سے نبزد آزما شخص کی جس سے اگر آپ واقف نہیں ہیں تو فقط مذاق نا اڑا کر اور خاموش رہ کر بھی مدد کر سکتے
علاج، تدارک، عملی مدد سب ہی کچھ ممکن ہے بس زرا سا وقت، درد دل، اور حقیقت پسندی درکار ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...