کراچی کے مشہور قبرستان ’’میوہ شاہ‘‘ کا شمار دنیا کے تاریخی اور بڑے قبرستانوں میں ہوتا ہے۔ میوہ شاہ میں موجود کئی قبریں جن کے کتبوں پر17ویں صدی کی تاریخیں آویزاں ہیں، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قبرستان 17ویں صدی یا اس سے بھی قبل کا ہے۔
لیاری ندی کے کنارے قائم یہ قبرستان پہلے ’’لیاری قبرستان‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس قبرستان کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی قبریں موجود ہیں۔ میوہ شاہ قبرستان کا نام صوفی بزرگ حضرت میوہ شاہ بابا کے نام سے منسوب ہے۔ حضرت میوہ شاہ صاحب کا نام سید کبیر بادشاہ تھا، وہ 18 ویں صدی میں افغانستان کے صوبے کنڑ سے آکر کراچی میں آباد ہوئے۔ میوہ شاہ کا نام اُن کے واعظ و نصیحت سننے کے لیے آنے والے لوگوں نے اس نسبت سے رکھا کہ وہ ان میں ایک خاص قسم کا میوہ یعنی مٹھائی تقسیم کرتے تھے۔
میوہ شاہ نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد کراچی میں انگریز سامراج کے خلاف آواز اٹھائی۔ وہ انگریزوں کی آباد کاری کے سخت مخالف تھے۔ میوہ شاہ سامراجی حکومت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ ان کی جدوجہد کی وجہ سے انگریز سامراج کو کراچی میں آبادکاری میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس جدوجہد کو ختم کرنے کے لیے انگریز حکومت نے ان کو جلاوطنی کی سزا سنائی اور ایک کشتی میں کراچی سے باہر لے جانے کی کوشش کی گئی، لیکن اس کی یہ کوشش ناکام رہی۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے ان کے مزار پر موجود خادمین سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میوہ شاہ کو جس کشتی میں سوار کیا گیا تھا اس کشتی کو سمندر میں مچھلیوں نے اپنے حصار میں لیا اور کشتی کی سمت اور راستہ بھٹکنے کی وجہ سے واپس کراچی آنے پر مجبور ہوگئے۔ اس بات کی تصدیق کے لیے کئی دوسرے لوگوں سے معلومات لینے کی کوشش کی گئی جس میں کامیابی نہ مل سکی۔ انٹرنیٹ پر بھی یہی واقعہ موجود ہے۔
میوہ شاہ کا انتقال 1865ء میں ہوا۔ انہیں لیاری کے قبرستان میں دفنایا گیا۔ اس کے بعد اس قبرستان کا نام میوہ شاہ بابا کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ قبرستان 1000 ایکڑ سے زائد اراضی پر محیط ہے جس کا ایک حصہ گارڈن اور دوسرا شیرشاہ سے ملتا ہے۔ جہان آباد سے شروع ہونے والا یہ قبرستان کسی زمانے میں 2000 ایکڑ اراضی پر محیط تھا۔ اس قبرستان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر یہودی، عیسائی اور مسلمانوں سمیت کئی مذاہب کے لوگوں کی قبریں موجود ہیں۔
اس قبرستان میں کاٹھیاواڑ سورما اور 19ویں صدی کے نامور مجاہد قادر بخش عرف قادو مکرانی کی قبر بھی موجود ہے۔ قادر بخش نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کیا اور مخالفین کو ناکوں چنے چبوائے۔ برطانوی حکومت نے ان کو گرفتار کرکے کراچی کی سینٹرل جیل میں پھانسی دی۔ کچھ مصنف لکھتے ہیں کہ قادر بخش کو لیاری کے علاقے میں ہی بھاری پتھر تلے دبا کر شہید کیا گیا۔ 1966ء میں ان کی زندگی پر ایک فلم ’’جاگ اٹھا انسان‘‘ بھی بنائی گئی تھی۔
1933ء میں آریا سماج کراچی میونسپل کمیٹی کے عہدیدار سیکرٹری نتھورام کے قتل کے الزام میں عاشقِ رسول عبدالقیوم کو پھانسی دی گئی، ان کی قبر بھی اسی قبرستان میں ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر غلام رسول کھیر سمیت کئی نامور سیاست دان اسی آرام گاہ میں مدفون ہیں۔ کراچی میونسپل کمیٹی کے تیسرے اور پہلے مسلمان میئر قاضی خدا بخش سمیت ان کے صاحبزادوں قاضی اکبر اور قاضی عبدالخالق خلیق مورائی کی قبریں بھی یہاں موجود ہیں۔ پاکستان کے پہلے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر بھی یہاں مدفون ہیں۔ میئر کراچی عبدالستار افغانی بھی یہیں آسودۂ خاک ہیں۔ اس قبرستان کے ایک حصے کو جو حاجی کیمپ سے شروع ہوتا ہے ’’بنی اسرائیل‘‘ قبرستان کہا جاتا ہے۔ ان قبروں کا سروے کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ 18ویں اور 19ویں صدی کے یہودیوں کی بھی بہت ساری قبریں یہاں موجود ہیں، ان میں ایک قبر ’’سولومن ڈیوڈ‘‘ کی ہے۔ سولومن ماضی میں کراچی میونسپل کارپوریشن کے عہدیدار رہے اور انہوں نے ہی نشتر روڈ پر ’میگین سالوم‘ تعمیر کروایا تھا۔ بیشتر قبروں پر عبرانی زبان میں عبارات درج ہیں، لیکن تاریخ کو رومن انداز میں لکھا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں 18صدی کی قبریں بھی موجود ہیں۔
“