(9اگست:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
جمہوریہ سنگاپور،ایک شہری ریاست ہے جو ”ملائی جزیرہ نما“کے جنوبی حصہ میں واقع ہے۔یہ ملک ایک بہت بڑا جزیرہ اور ساٹھ چھوٹے جزیروں کے مجموعے پر مشتمل ہے جن کا کل رقبہ 240مربع میل ہے۔ملک کے جنوب میں انڈونیشیاکی اورشمال میں ملائیشیاکی ریاستیں واقع ہے لیکن ان کے درمیان آبنائے سنگاپوراورآبنائے جوہرواقع ہیں اور سنگاپورکی سرحدیں براہ راست کسی ملک سے نہیں ملتیں۔اس سرزمین کو تاریخ میں سب سے پہلے مچھیروں اوربحری قزاقوں نے آبادکیاتھا،اورتاریخ میں ”سری وجایا“کی”سمارٹا“ریاست میں اس علاقے کا بہت کثرت سے ذکر ملتاہے۔”جاوا“کی قدیم دستاویزات اورچین کے پرانے لٹریچر میں اس علاقے کانام ”تماسک“لکھاگیاہے جس کا مطلب”سمندر“ہے،یعنی آبادعلاقوں سے دور ہونے کے باعث اس زمین کو سمندر کی زمین کہاجاتاتھا۔”راجہ اندر“جو جنوبی ہندوستان کی ”کولا“ریاست کاحکمران تھا اس نے گیارہویں صدی میں اس علاقے پر حملہ کیااوراس شہر کو ”سنگاپورا“کا نام دیااس لفظ کا مطلب شیر کا شہر بنتاہے۔سکھ ثقافت میں ”سنگھ“آج بھی شیر کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔لیکن وہاں کی مقامی روایات کے مطابق بدھ مذہب کے مذہبی پروہتوں نے اس شہر کو ”سنگاپورا“کانام دیا کیونکہ ان کے مذہب میں شیرایک خصوصی کرداراور مذہبی اہمیت کا حامل جانور ہے۔لفظ ”سنگاپورا“سے وقت کے ساتھ ساتھ الف حذف ہوگیااور صرف”سنگاپور“کہاجانے لگا۔آج کی دنیامیں سنگاپورجنوب مشرقی ایشیا کی سب سے مصروف ترین تجارتی بندرگاہ ہے،اس کا تجارتی حجم دنیاکی بڑی بڑی بندرگاہوں کے تقریباََ برابرہے۔ماضی قریب میں یہ برطانیہ کی کالونی تھا لیکن اب ایک آزاد ریاست اور دولت مشترکہ کارکن ملک ہے۔9اگست1965کوسنگاپورنے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی اور یہ دن وہاں قومی تہوار کی حیثیت رکھتاہے۔
سنگاپورکا شہر جزیرے کے جنوب میں واقع ہے،مملکت کی اسی فیصد آبادی حکومت کے بنے ہوئے سرکاری مکانات اورفلیٹس کی بستیوں میں رہائش پزیر ہے۔یہ نئی بستیاں جزیرے میں دور دوربنائی گئی ہیں لیکن آبادی کوانکی جائے ملازمت اور کاروباری مراکز تک بآسانی رسائی دی گئی ہے تاکہ لوگوں کو دقت نہ ہو۔مملکت میں اگر چہ سڑکوں کا بہترین جال موجود ہے لیکن اس کے باوجود بھی ٹریفک کا اژدہام ایک بہت بڑا مسئلہ ہے،اس کے حل کے لیے منی ٹرین بھی ملک میں چلتی ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی روایتی تاریخی ملائی بستیاں جن میں خاص طرز کی قدیمی جھونپڑیاں بنی ہیں وہ اگرچہ تعداد میں کم ہو رہی ہیں لیکن پھر بھی جزیرے کے دوردرازعلاقوں میں نظر آجاتی ہیں۔سنگاپورمتنوع آبادی کاملک ہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں بھی اس سرزمین کو باہر سے آنے والی اکثریت نے آباد کیاہے۔آبادی میں سب سے زیادہ شرح چینیوں کی ہے جوتین چوتھائی تک کی تعداد کے حامل ہیں دوسرے نمبر پر ملائی قبائل کے لوگ ہیں اور ایک مختصر لیکن قابل قدر تعدادہندوستانیوں کی بھی ہے۔آبادی کے ان تینوں بڑے بڑے حصوں نے اپنی جداگانہ شناخت آج تک قائم کیے رکھی ہے اور صدیاں گزر جانے کے بعد بھی دیکھنے والا ان میں واضع فرق محسوس کر سکتاہے۔ہندوستانی آبادی میں تامل،سکھ اور دیگر نسلوں کے لوگ بھی آباد ہیں اور ان میں سے پاکستانی اب اپنے آپ کو ہندوستانیوں میں شمار نہیں کرتے۔آبادی کے اس تنوع کی وجہ سے چارزبانیں وہاں کثرت سے بولی جاتی ہیں،چینی زبان،انگریزی،ملائی زبان اور تامل زبان۔انگریزی کو دفتری زبان کادرجہ حاصل ہے اورملائی زبان کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ پڑوسی ملک ملائشیامیں اس زبان کے سرپرست موجود ہیں۔سنگاپورکی چینی آبادی کی اکثریت بدھ مت،کنفیوشس اور تاؤ ازم کی ماننے والی ہے،ملائی اور ہندوستانیوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جبکہ دس فیصد عیسائی بھی یہاں بستے ہیں اور باقی رہی سہی آبادی ہندو مت کی ماننے والی ہے۔جنگلی حیات میں لمبی دم والا بندر یہاں کا مشہور جانور ہے باقی ہندوستان میں پائے جانے والے جانوراور پرندے یہاں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے برطانوی دور سے ہی سنگاپورایک بہت بڑا تجارتی مرکزتھا،1960کے بعد سے اسکی تجارتی بڑھوتری میں مزید اضافہ ہوا۔سنگاپورنے تائیوان اور کوریا کی طرز پر اپنی تجارت اور صنعت کو بہت فروغ دیااوراس وقت یہ ملک ایشیا کے چند بڑی معاشی طاقتوں میں سے ایک ہے۔سنگاپورکی سرزمین کوئی بہت زیادہ معدنیات سے بھری نہیں ہے اور اس سرزمین پر اب قدرتی جنگلات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں،سنگاپورکی زراعت کا بھی ملکی معیشیت میں کوئی قابل ذکر کردارنہیں ہے اس کے باوجوداس قوم نے محنت اور منصوبہ بندی سے اپنی صنعت اور تجارت کو ایسے خطوط پر استوارکیاہے کہ ان کے ملک نے دن دوگنی رات چگنی ترقی کر کے دنیاکی دیگر ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ آن کھڑا ہواہے۔ تاہم مچھلی بانی کی صنعت نے ملکی ترقی میں بہت اہم کرداراداکیاہے،مچھلی کی متعدد نسلیں بیرون ملک فروخت بھی کی جاتی ہیں۔1960کے بعد سے سنگاپورنے ایسی صنعتیں لگائیں جن سے برآمدات ممکن ہو سکیں اور زرمبادلہ کی کثیرمقدار ملک میں داخل ہو۔ملکی معیشیت کو ایک منصوبے کے تحت زیادہ سے زیادہ آزادی دی تاکہ بیرونی سرمایا کار کی دلچسپی بڑھے اور دوسرے ملکوں سے بھی سرمائے کا بہاؤ اس طرف ہونے لگے۔ کثیرالقومی تجارتی اداروں کو ملک میں خوش آمدید کہاگیا۔درآمدات بھی کی گئیں لیکن ایسی کہ جنہیں اپنی صنعتوں میں خاص مراحل سے گزار کر پھر انہیں برآمدات میں تبدیل کر دیاجائے اوریوں سستے داموں خریدی ہوئی چیزپر اپنا خون پسینہ صرف کر کے تو اسے مہنگے داموں فروخت کر دیا۔امریکہ،ملائیشیااور جاپان اس ملک کے خصوصی بیرونی تجارتی دوست ممالک ہیں۔ملک کا ہوائی اڈہ ”چانگی“کے مقام پر ہے جو جزیرے کے انتہائی مشرق میں واقع ہے۔
سنگاپورمیں مغربی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کا سیاسی نظام قائم ہے۔ مملکت کا سربراہ صدر ہوتاہے،اورایک ہی منتخب ادارہ ہے جوپانچ سالوں کے لیے منتخب کیاجاتاہے اور اسکے ارکان کی تعداد81ہے۔پارلیمان اپنے میں سے کسی کو وزیراعظم چنتی ہے اور یہ وزیراعظم اپنی کا بینہ کا چناؤ بھی پارلیمان میں سے ہی کرتاہے۔1991تک صدر کا انتخاب پارلیمان ہی کرتی تھی لیکن اس کے بعد سے آئین میں ترمیم کرکے توقوم صدرکو براہ راست ووٹوں سے منتخب کرتی ہے اور تب سے ہی صدر کے اختیارات میں اضافہ بھی کر دیا گیاہے۔ہر انتخابی حلقے میں شہریوں کی ایک کمیٹی ہوتی ہے جو برسراقتدارپارٹی سے اپنے روابط کے ذریعے عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور ہر ووٹر کے لیے ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔سول سروس میں ملازمت کے لیے مقابلے کا امتحان پاس کرنا لازمی ہے۔عدلیہ میں سپریم کورٹ سب سے اعلی عدلیہ ہے اور باقی عدالتیں ذیلی ؑدالتوں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ملک میں شرعی عدلیہ کا نظام بھی ہے جس میں مسلمانوں کے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں۔
سنگاپور میں مسلمانوں کی شرح 15%سے کچھ زائد ہے۔زیادہ تر ملائی نسل کے لوگ یہاں پر مسلمانوں کے اندر اکثریت میں ہیں،انکی تعداد چودہ فیصد کے لگ بھگ ہے،باقی ایک فیصد تامل،پاکستانی اور عرب ممالک سے آئے ہوئے باشندے ہیں۔سنگاپورکے مسلمانوں میں ایک بہت قلیل تعدادیوریشین مسلمانوں اور چین سے آئے ہوئے مسلمانوں کی بھی ہے۔معلوم تاریخ کے مطابق انیسویں صدی کے آغاز میں تامل تاجروں نے یہاں پر
نورتوحیدکو متعارف کرایا۔اس وقت ”اسلامی مذہبی کونسل سنگاپور“وہاں کے مسلمانوں کے ذمہ ادارہ ہے جسے ملک میں 1966کے ایڈمنسٹریشن آف مسلم لاء ایکٹ کے تحت قانونی حیثیت بھی حاصل ہے۔کونسل کے اراکین کی نامزدگی مسلمانوں کے ہاں سے ہوتی ہے لیکن ان کی باقائدہ تقرری سنگاپور کا صدر کرتاہے۔کونسل کی حیثیت ایک مشاورتی ادارے کی سی ہے جو مسلمانوں کے جملہ امور جن میں وقف املاک،زکوۃ،حج اور دیگر جملہ معاملات شامل ہیں،ان امور میں کونسل کے مشوروں کے مطابق مملکت کا صدر مسلمانوں کے بارے میں اقدامات اٹھاتاہے۔کونسل کے مشورے کے مطابق آج کل جتنی بھی مساجد بنائی جا رہی ہیں ان میں ایک ہزارسے دوہزار تک نمازیوں کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔1989ء سے اسلامی مذہبی کونسل سنگاپورنے اسلامی اسکولوں اور جمعے کے خطبوں کواپنے زیرانتظام لے لیاہواہے۔سنگاپور میں کھانے کی اکثر دکانوں کے اوپر لکھاہوتاہے کہ یہاں حرام جانور نہیں پکائے جاتے،اس کا مقصداپنی گاہکی میں مسلمانوں کو بھی شامل کرنا ہوتا ہے تاکہ انہیں حلال خوراک فراہم کی جا سکے لیکن سنگاپور نومسلموں کی تنظیم نے اپنے حالیہ رسالے میں متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کے کھانے کے مراکزپر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...