بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایشیا کا عظیم تاریخی ملک ”برما(میانمار)“
(4جنوری،برما کے قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
برما کاپرانانام ”سوشلسٹ ریپبلک آف دی یونین آف برما“تھا،آجکل اس ملک کو صرف برما ہی کہا جاتا ہے، فوجی حکمرانوں نے اس ملک کانام ”جمہویہ اتحادمیانمار“رکھا لیکن اس نام کو مقامی اور بین الاقوامی قبولیت ابھی تک نہیں مل سکی۔یہ ملک جنوب مشرقی ایشیا میں بنگہ دیش اور تھائی لینڈ کے درمیان واقع ہے۔678,500مربع کلومیٹر اس ملک کا کل رقبہ ہے،پٹرول،قیمتی پتھر،لکڑی اور نایاب دھاتیں اس ملک کی قدرتی دولت ہیں۔2014ء کی مردم شماری کے مطابق کل اکیاون ملین یہاں کی آبادی ہے جس کی اکثریت برمی مقامی افراد پر مشتمل ہے تاہم چین اور ہندوستان سے آئے ہوئے قبائل بھی ایک مدت سے وہاں آباد ہیں جن میں بدھ 89%،عیسائی4%،مسلمان5%اورکچھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی ہیں۔یہاں برمی زبان ہی بولی جاتی ہے۔برما کا دارالحکومت”نیپیداؤ“اوربڑاشہر رنگون ہے،یہاں فوجی طرزکانظام حکومت قائم ہے،ملک کو سات بڑے صوبوں اور متعدد چھوٹے انتظامی حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔فوجی حکمران ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں اگرچہ ایک سیاسی نظام کا ڈھانچہ انکے تحت متحرک ہوتا ہے لیکن انہی کے رحم و کرم پر۔متعددسیاسی جماعتوں کو ایک محدودسیاسی آزادی حاصل ہے، مئی2008قوم کو ایک دستور بھی دیا گیاہے۔تقریباََ90%افراد پڑھے لکھے ہیں۔
برما میں انسانی تہذیب کی تاریخ گیارہ ہزارسال پرانی ہے۔قدیم ”سنسکرت“ اور”پالی“ کتب کے مطابق یہ اس وقت کی بات ہے جب ”مان“بادشاہت ”تھاتان“ کے مقام پر اپنا مرکزحکومت قائم کر کے دنیا کے اس خطے پر حکومت کرتی تھی۔اسکے بعد پہلی صدی قبل مسیح میں ”پاؤ‘نسل کے حکمرانوں نے یہاں حکومت کی،ان کے دور میں برما کو ہندوستان اور چین کے درمیان ایک تجارتی شاہراہ کی حیثیت حاصل تھی،چینی مورخین نے ”پاؤ‘حکمرانوں کی بہت تعریف کی ہے،انکا دور امن و امان کا مثالی دور تھا،جنگ سے وہ ناواقف تھے اور بدھ مت کے ماننے والے تھے انکے ہاں سب بچے سات سے بیس سال کی عمر تک تعلیم حاصل کرتے تھے۔”مان“خاندان جو چھٹی صدی عیسوی میں موجودہ تھائی لینڈکے علاقے پرحکمران تھا گیارویں صدی کے دوران برما کے علاقوں پر قابض ہو گیا۔اس خاندان نے بدھ مت کو بطور سرکاری مذہب رائج کیا اور ہندوستانی تہذیب کو بھی اپنے دربار میں بھاری بھرکم واہم مقام دیا۔لیکن تیرہویں صدی کے وسط تک ”باجان“ خاندان برما سمیت جنونی ایشیا کے بہت بڑے علاقے پر قابض ہو چکا تھا۔تاریخ نے بہت جلد انکا صفحہ بھی الٹ دیا اور منگولوں نے انکے دارالحکومت سمیت پوری ریاست پر قبضہ کر کے تواسکا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا۔لیکن اس ساری اکھاڑ پچھاڑ میں ”باجان“حکمرانوں کی قائم کردہ ثقافت قائم رہی اور انکے دور کی باقیات تادیر برما کی نسلوں میں زندہ رہیں۔
پندرویں صدی تک پہنچتے پہنچتے ”ٹانگو“خاندان نے برما کی تہذیب و ثقافت میں اپنا بہت بڑا مقام بنالیاتھا۔اس خاندان نے برمیوں کو اتحادویگانگت کی تسبیح میں پرویااور ریاست کے پھٹے اور ٹوٹے ہوئے حصوں کو جوڑنے لگے۔لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔سولہویں صدی کے دوران جنوب میں نوواردپرتگالی اپنے ساتھ یورپی تاجرنماتہذیبی وثقافتی لٹیروں ڈاکوؤں کو لے آئے اور یوں برما تاریخ کے ایک نئے عالمی استحصالی دور میں داخل ہو گیا۔اس دوران اگر چہ برمیوں نے بہت عروج و زوال دیکھے اورایک وقت ایسا بھی آیا کہ پرتگالی بدترین شکست کھا گئے لیکن 1824کی پہلی انگلو برمی جنگ میں برطانیہ کی افواج نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔ہندوستانی مسلمانوں کی طرح برمیوں نے بھی بدیسی حکمرانوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آخر میں تیسری بڑی جنگ کے بعد برما،تاج برطانیہ کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔1886میں انگریزوں نے برما کو ہندوستان کا باقائدہ ایک صوبہ بنالیاجس کا صدرمقام رنگون کوقراردیاگیا۔شمالی برما میں اسکے بعد بھی کئی سالوں تک مزاحمت کا سلسلہ جاری رہایہاں تک کہ انسانیت کے ٹھیکدارانگریزظالم سامراج نے جنگ آزادی میں گوریلوں کے گاؤں کے گاؤں تباہ و برباد کردیے۔انگریزوں نے برما میں زراعت پر خصوصی توجہ دی اور برمی کسانوں کو مجبور کیا کہ وہ بھاری شرح سود پر قرضے حاصل کریں اوریوں لٹیرے انگریزبرما کی مقامی دولت اپنے مادروطن انگلستان میں منتقل کرنے لگے۔صدی کی تبدیلی کے ساتھ ہی کچھ مذہبی تنظیموں کو سیاسی نوعیت کی آزادی مل گئی جو بعد میں جنرل کونسل آف برمیز ایسوسی ایشن کے نام سے برما کی کل آبادی کی نمائندہ جماعت بن گئی۔
برما کے نوجوانوں نے انگلستان کا رخ کیااور تعلیم میں خوب کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔انہوں اس دوران دوسری دنیاؤں میں ترقی کے تیزترین عمل کا بھی بنظرغائر مطالعہ کیا،جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ برمی قوم دنیا سے بہت پچھے ہے اور ترقی کاعمل بہت سست روی کا شکار ہے۔چنانچہ1920میں پہلی یونیورسٹی اور کچھ نیم خودمختار تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔اس کے ساتھ ہی نوآبادیاتی نظام کے خلاف پورے برما میں ایک زبردست تحریک بھی چلی جس کی قیادت میں بدھوں کا مذہبی عنصر بھی پیش پیش رہا۔1937میں برماکوہندوستان سے الگ کردیاگیا،بر،ما کو عبوری آئین بھی دیاگیا،وہاں انتخابات ہوئے اور وزیراعظم بھی بنے لیکن برمی وزیراعظم کوبرطانوی راج نے گرفتار کرلیا۔اسکے بعد برما میں وسیع پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے اوربرمی طلبہ اور بدھ پیشواؤں نے انگریزوں کے خلاف رنگون سمیت پورے برما میں ایک آتش فشان کھڑاکردیا یہاں تک کہ دوسری عالمی جنگ کا بگل بج گیا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران برما اور جاپان نے عالمی صفحہ قرطاس پر ایک نئی تاریخ رقم کی،ان دو ممالک کے بغیر دوسری جنگ عظیم کی کوئی کہانی نہ لکھی جا سکے گی،جاپانیوں نے برمیوں سے بہت سے وعدے بھی کئے کچھ پورے ہوئے اور کچھ ہنوزتشنہ تکمیل ہیں۔برطانیہ کے کمزور ہوتے ہی کل برطانوی نوآبادیوں کی طرح برما میں بھی آزادی کی تحریکیں چل پڑیں۔بدھ مذہبی پیشوا،چینی اشتراکی متاثرین اور روسی نظریہ کے حامی لوگ تعلیمی ادروں کے نوجوان طلبہ کے ساتھ مل کر اپنے اپنے انداز سے اس تحریک میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے یہاں تک کہ 4جنوری1948کو برما کی ریاست برطانوی تسلط سے مکمل آزاد ہو گئی۔آج یہ دن برما کی قوم یوم آزادی کے طور پر مناتی ہے اور خوب خوب جشن منایا جاتا ہے کہ زندہ قوموں کے ہاں یہی رواج ہے۔
برما کی تاریخ میں مسلمانوں کا ہمیشہ سے ایک اہم کردار رہا ہے۔”یورزاق“نامی مسلمان راہنما ان تیس افراد میں سے تھے جنہوں نے تحریک آزادی میں برمی قوم کی قیادت کی تھی۔انہوں نے برما کی ہندوستان سے علیحدگی کی بھی حمایت کی تھی کیونکہ یہ برمی قوم کا متفقہ مطالبہ تھااور اس وقت کے برمی تحریک آزادی کے راہنما ان پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے اور اس مسلمان راہنما نے کبھی کسی کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔آزادی کے بعد بھی کئی مسلمان راہنماؤں نے برما کی ترقی واستحکام کے لیے بہت کام کیا۔برمی فوج اگرچہ برمی مسلمانوں کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ برمی مسلمان باہر سے آئی ہوئی کوئی قوم ہیں حالانکہ برمی مسلمان صدیوں سے اور کئی نسلوں سے اس سرزمین پر آباد ہیں۔ چونکہ آزاد برما کی تاریخ میں فوج ایک بہت بڑے سیاسی کردار کی حامل رہی ہے اورتیسری دنیا کے دیگرممالک کی طرح برما میں بھی جرنیلوں نے فوج کو زبردستی سیاست میں دخیل کیا ہے اس لیے برما کے سیاستدان مسلمانان برما کو کوئی رعایت دینا بھی چاہیں تو فوج اس میں روڑے اٹکاتی ہے۔اراکان کا علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں مسلمان گزشتہ تین چار نسلوں سے اپنی بقا کی سیاسی و نیم عسکری جنگ لڑ رہے ہیں۔برما کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی برمی سمجھا جائے اورصرف اس بنیاد پر کہ انکے اعتقادات مختلف ہیں برما کی فوج انہیں عسکریت پسند قرار دے کر نیست و نابود کرنے کی کوشش نہ کرے۔یہ مسلمان ”روہنگیا“نسل سے متعلق ہیں اوریہ نام ان میں بولی جانے والی زبان کی وجہ سے انہیں ملاہے اوریہ زبان بنگلہ دیش کے علاقے چٹاگانگ میں بھی اسی طرح ہی بولی جاتی ہے۔2012میں بدھ مذہب کے انتہاپسندوں نے روہنگیامسلمانوں کاقتل عام کیا،ان کی بستیاں نذرآتش کیں اور ان کی خواتین کی آبروریزی کرکے انہیں اپنے علاقوں سے اس قدردربدرکیاکہ یہ ایک عالمی انسانی مسئلہ بن گیا۔حالانکہ بدھ مذہب کی کتب میں لکھاہے کہ راستے میں دیکھ کرچلومباداکوئی چیونٹی پاؤں کے نیچے کچلی جائے۔اس سب پرمستزادیہ کہ حکومتی اداروں نے بھی بدھ دہشت گردوں کی کھل مددکی اور برمامیں موجودعالمی اداروں کے وہ دفاتر اورافرادجوانسانیت کے ٹھیکیدارتھے اپنی آنکھیں،زبانیں اورکان بندکرکے بیٹھے رہے۔
ہم امیدکرتے ہیں کہ برمی قوم اپنے ہم وطن مسلمانوں کووہ پورے حقوق دے گی جو ایک مقامی آبادی ہونے کے ناطے انکا جمہوری و بین الاقوامی حق ہے۔ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے جینوا اکارڈ کے مطابق برما کے اندراگر کہیں کہیں مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور مسلمانوں نے اس بے چینی کے حل کے لیے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں ہیں تو برمی قیادت ان کو ملیا میٹ کرنے کی بجائے اور عسکری ماردھاڑسے ان کو ختم کرنے کی بجائے ان سے مزاکرات کا راستہ اپنائے گی اور انکی جائز شکایات دور کی جائیں گی اورانکے مطالبات پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے گا اور ان سے کیے گئے وعدے پورے کئے جائیں گے۔ہم مسلمانان برما سمیت پوری برمی قوم اور ان کے ملک کی ترقی و سالمیت کے لیے دعاگوہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...