اشرف غنی کا بیان ،کیا ایک بڑا بریک تھرو؟
افغانستان جدید سیاسی تاریخ میں دنیا کا وہ پہلا بدقسمت ملک ہے جہاں گزشتہ سولہ سالوں سے جنگ و جدل جاری ہے ،اس خانہ جنگی میں لاکھوں انسان مارے جاچکے ہیں ،لاکھوں معذور ہو گئے ،اور لاکھوں نفسیاتی مریض بن گئے ۔۔۔افغانستان کا یہ حق ہے کہ یہاں امن ہونا چاہیئے ۔۔۔یہاں کہ لوگوں کو بھی زندگی انجوائے کرنی چاہیئے اور خوش و خرم رہنا چاہیئے ۔۔۔افغان عوام کی جنگ جیسی بلا سے کیسے جان چھوٹے گی ،اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ،لیکن گزشتہ روز کی افغان صدر کی تقریر بڑی اہم تھی ۔۔۔لگتا ایسے ہے کہ جب سے افغانستان میں داعش کا ظہورہوا ہے ،افغان طالبان بھی خوف زدہ ہیں ،کابل حکومت اور امریکہ بھی جنگ کرکے تھک گئے ہیں ۔۔۔گزشتہ کچھ مہینوں میں طالبان کے موقف میں تبدیلی آئی ہے ۔۔۔پہلے آتے ہیں اشرف غنی صاحب کی تقریرکی طرف ،کابل میں افغانستان میں قیام امن کے موضوع پر گزشتہ روز ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ،جس سے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے خطاب کیا ،،،اس کانفرس میں 25 سے زائد ممالک اور تنظیموں نے شرکت کی ۔۔اس کانفرس میں افغان صدر اشرف غنی کی تقریر بہت اہم تھی ۔۔۔اشرف غنی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کابل حکومت نے گزشتہ سال گلبدین حکمت یار کی تنظیم کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے ۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے امن معاہدہ ہوسکتا ہے اور کامیابی سے چل بھی سکتا ہے ۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اعتماد کے بڑھاوے کے لئے افغان حکومت کو طالبان کا نقطہ نظر ہمدردی سے سننا ہوگا ۔۔۔تاکہ ان کی اور ہماری تجاویز سے بات چیت ہو،اس طرح امن کی مشترکہ بنیاد ڈالی جاسکے ۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ ہم غیر مشروط پیشکش کررہے ہیں کہ پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی ہو ،طالبان بطور ایک سیاسی جماعت کابل میں اپنا دفتر کھولیں ۔۔۔ان پر سفری پابندیاں ہٹائی جائیں ،طالبان کو پاسپورٹ جاری کئے جائیں ،میڈیا تک طالبان کی آزادانہ رسائی یقینی بنائی جائے ،اس کے بعد قیدیوں کی رہائی ہو ۔۔۔اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ اعلان کررہے ہیں کہ طالبان سے کہیں بھی بات ہو سکتی ہے ۔۔۔وہ بات چیت کابل میں ہو سکتی ہے ،اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہو سکتی ہے ،کسی مسلم ملک یا کسی تھرڈ کنٹری میں بھی کی جاسکتی ہے ۔۔۔اشرف غنی کا کہنا تھا کہ طالبان کو شہریوں کے بنیادی حقوق خاص کر خواتین کے بنیادی حقوق کے حوالے سے واضح لائحہ عمل دینا چاہیئے ۔۔۔طالبان کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بن رہے ہیں ۔۔۔اشرف غنی کا کہنا تھا کہ کابل حکومت پاکستان کو جامع مزاکرات کی پیشکش کرتی ہے ،پاکستان اور وسطی ایشاٗ کے درمیان تجارت افغانستان اور خطے کے مفاد میں ہے ۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان امن عمل کی حمایت کرے اور اس کے نتیجے میں کسی بھی ممکنہ سمجھوتے کوتسلیم کرے ۔۔۔اشرف غنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پاکستان سے 15لاکھ افغان مہاجرین کی دو برسوں میں مکمل وآپسی پر بھی بات چیت کے لئے رضا مند ہیں ۔۔اشرف غنی کی تقریر بہت اہم ہے ۔۔۔۔اس خطاب کو عالمی میڈیا ایک بہت بڑے بریک تھرو کے طور پر دیکھ رہا ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ کہیں وہ دو ایک روز کے بعد حامد کرزئی کی طرح دوسری بات نہ کردیں ،حامد کرزئی بھی ایک روز امن کی بات کرتے تھے اور دوسرے روز پاکستان مخالف بیانات پر اتر آتے تھے ۔۔۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان کے موقف میں لچک آئی ہے ۔۔۔کچھ دن پہلے وہ امریکہ سے جنگ کے خاتمے کی پیشکش کرچکے ہیں ۔۔۔ان کا سرکاری موقف تو یہ ہے کہ کیونکہ کابل حکومت کٹھ پتلی ہے ،اسی لئے وہ براہ راست اس کٹھ پتلی حکومت کے آقا یعنی امریکہ سے بات چیت کے لئے راضی ہیں ۔۔۔اس حوالے سے طالبان نے امریکی حکومت کو ایک خط بھی لکھا تھا کہ وہ امن چاہتے ہیں ،اگر جنگ چاہیئے تو وہ اگلے سو سال تک کرسکتے ہیں ۔۔۔خط میں کہا گیا تھا کہ جنگ کی وجہ سے نوے فیصد ہیروئن کی اسمگلنگ بڑھ گئی ہے ،امریکہ نے کڑروں ڈالر بہا دیئے ،اس کا کیا فائدہ ہوا؟امریکہ افغانستان میں جو پیسہ لگا رہا ہے وہ چوروں اور لٹیروں کی جب میں جارہا ہے ،خط میں کہا گیا تھا کہ وہ امریکی سنیٹر رینڈ پال سے بات کرسکتے ہیں ،رینڈ پال وہ امریکی شخصیت ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ امریکہ اب تک 44 بلین ڈالرز افغانستان میں خرچ کرچکا ہے ،یہ رقم ایسے گئی جیسے کسی کھڈے میں ڈال دی گئی ہو ،طالبان کی اس پیشکش سے لگتا ہے کہ ان کی اقتصادی حالت بھی خراب ہے اور وہ بھی لڑ لڑ کر تھک چکے ہیں اور داعش سے بھی خوف زدہ ہیں ،اس لئے امن چاہتے ہیں ۔۔۔ادھر پاکستان کے لئے حالات اچھے نہیں ،امریکی مخالفت سے پاکستان کی معیشت کمزور ہو رہی ہے ،اس لئے پاکستان طالبان کی پہلے کی طرح میزبانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ،میرا خیال ہے پاکستان بھی افغانستان میں امن چاہتا ہے ۔۔۔۔چین کا دباو بھی پائپ لائن منصوبے کے حوالے بڑھ رہا ہے ،اشرف غنی کا بیان بڑا بریک تھرو ہوسکتا ہے ۔۔۔اب دیکھتے ہیں اشرف غنی کے خطاب پر امریکہ ،طالبان اور پاکستان کا کیا ردعمل آتا ہے ؟اب دیکھتے ہیں کہ کابل حکومت عملی طور پر کیا اقدامات اٹھاتی ہے ؟کیا امریکہ امن چاہتا ہے ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔