(Last Updated On: )
ہندوستان ہمیشہ سے خارجی حملوں کی آماجگاہ رہا۔ شمالی ہندوستان کا جغرافیہ ان حملوں میں کافی حد تک ممد و معاون ثابت ہوا۔غزنویوں نے ہندوستان پرپے در پے حملے کئے اور با لآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو شکست دی اور سر زمین ہند پر اتنی مضبوطی سے قدم جمائے کہ اس کے نقش آنے والی کئی صدیوں تک محفوظ رہے۔غزنویوں اور غوریوں کے بعد تیموریوں کی آمد ہوئی۔اس طویل مدت میں ہندوستان کا بارہا شورش و ہنگاموں سے واسطہ پڑا۔ کئی خاندان بر سر اقتدار آئے اور زوال پذیر ہو گئے۔سولہویں صدی کے اوائل میں بابر جیسے مدبر بادشاہ نے عظیم سلطنت مغلیہ کی بنیاد ڈالی جسے ہمایوں کے عہد تک خاص استحکام نہ نصیب ہوا لیکن اکبر کے تدبر کی بدولت مغلیہ سلطنت کو عروج حاصل ہوا۔یہ وسیع و عریض سلطنت عہد اورنگ زیب میں زوال پذیر ہو گئی۔اورنگ زیب کی وفات ۱۷۰۷ء میں واقع ہوئی اور اس کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔جدو ناتھ سرکار کے مطابق مغل سلطنت کا زوال اورنگ زیب کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اس نے اپنی حکمت عملی کی بدولت اسے زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیا۔اس کی وفات کے بعد دس برس کے عرصے میں ہی تخت کی دعویداری کی خاطر سات مرتبہ نبرد آزمائی ہوئی ۔نتیجتاً زوال نے رفتار پکڑ لی۔
اورنگ زیب کے بعد جو بھی حکمران دہلی کے تخت پر متمکن ہوئے وہ سیاسی سوجھ بوجھ سے بے بہرہ تھے۔چنانچہ اورنگ زیب کی جا نشینی کے سوال پر ہی جنگ ہوئی اور معظم شاہ تخت حکومت پر قابض ہو گیا۔وہ بہادر شاہ کے نام سے تخت نشین ہوا۔اس کے بعد تخت و تاج جہاندار شاہ کے حصے میں آیا جب کہ حکومت کا اہل عظیم الشان تھا۔جہاندار شاہ طبعاً عیاش اور ظالم تھا۔اس نے اپنے خاندان کے تمام شاہزادوں کو قتل کروا دیا ۔اس کی عیاشیوں کا خاتمہ عظیم الشان کے بیٹے فرخ سیر کے ہاتھوں ہوا مگر فرخ سیر کے زمانے میں بھی ظلم و ستم کا بازار گرم رہا۔اس نے بعض مغل شاہزادوں کو قتل کیا اور بعض کو اندھا کیا۔جس کی وجہ سے حکومت کی باقی ماندہ عزت اور وقار بھی جاتا رہا۔ شرفاء خوف و ہراس کے شکار ہو گئے۔فرخ سیر کو قدرت نے اس طرح سزا دی کہ بارہہ کے سیدوں نے پہلے تو اسے اندھا کیا اور پھر قتل کر دیا۔یہ واقعہ ۱۱۳۱ھ یعنی ۱۷۱۹ء میں پیش آیا۔یہ ایسا پر آشوب دور تھا جس میں دہلی کے تخت کا کوئی معتبر وارث نظر نہیں آرہا تھا۔مولوی ذکاء اللہ کے مطابق اورنگ زیب کے مرنے کے بعد سلطنت مغلیہ کی آنکھیں اندھی ، کان بہرے، دانت ٹوٹے، پوپلے، ٹانگیں لنگڑی، کمر ٹوٹی ، ہاتھ لنجے ہو گئے ۔کوئی کل سیدھی نہ رہی۔جیتے جی مر گئی۔ اگرچہ شہنشاہی کا سر چشمہ بزرگ دہلی بنی رہی مگر اس سے میلا گدلا پانی ان باغوں میں جاری رہا جو خس و خاشاک سے پر تھے۔
الغرض ایسے حالات میں تخریبی قوتیں فعال ہو گئیں۔تخت شاہی سیدوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا۔حرم سرا میں داد عیش پانے والے شہزادے تخت نشین ہوئے۔سب سے پہلے رفیع الدرجات تخت نشین ہوا ۔اس کے بعد روشن اختر جسے محمد شاہ رنگیلا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ساتھ ہی مغلوں کے انحطاط کا نمایندہ حکمران بھی، وہ مالک تخت و تاج ہوا۔ اس کے تخت نشین ہونے پر معاشرے کی اجتماعیت خطرے میں پڑ گئی۔غرض کہ دہلی بار بار اجڑی۔۱۷۳۹ء میں نادر شاہ حملہ آور ہوا۔اس کی ظالمانہ لوٹ کھسوٹ کا ذکر سید ظہور الحسن نے ان الفاظ میں کیا ہے :
’ بے گناہ دہلی والوں کے سر کٹنے لگے اور ہر گلی کوچے میں نادریوں کی خونریز تلواروں نے قیامت برپا کر دی۔خدا کی بے گناہ مخلوق ایک ایسی کثیر تعداد میں قتل کی گئی کہ شاہراہوں کے راستے رک گئے‘۔
۱۷۴۱ء میں احمد شاہ ابدالی کی نگاہ قہر ہندوستان کی جانب اٹھی اور پانچ چھہ برس تک دہلی کو تاراج کرنے میں اس کی ہوس رانی کار فرما رہی۔نادر شاہ اور احمد شاہ کے حملوں نے دہلی کی شان و شوکت کو مٹی میں ملا دیا۔خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہو گئے ۔ایک وقت ایسا آیا کہ مرکزی سلطنت ’ از دلی ّ تا پالم ‘ ہو کر رہ گئی۔شاہان مغلیہ اندرونی خلفشار و انتشار کی وجہ سے اس قابل نہ رہے کہ بیرونی حملوں کا مقابلہ کر سکیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۶۰۱ء میں ہندوستان میں اپنا بازار قائم کیا۔ رفتہ رفتہ اس نے یہاں مضبوطی سے اپنے قدم جما کر پورے ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔حتیٰ کہ یہ بات عام ہو گئی کہ خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا ، حکم کمپنی بہادر کا۔ شاہ عالم کے انتقال کے بعد ۱۸۳۷ء میں اکبر شاہ ثانی تخت نشین ہوا۔ اس کے اور لارڈ لیک کے درمیان تسخیر دہلی کے موقعہ پر جو معاہدے ہوئے ، عوام اس سے مایوس ہو گئے۔ شاہان مغلیہ کے وظیفہ خوار ہو جانے کے بعد انگریزوں نے نہ فقط ان سے نفرت کا اظہار کیا بلکہ وہ انھیں حقیر سمجھنے لگے۔یہاں تک کہ آخری مغل تاجدار یعنی بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کے بعد انگریزوں نے کھل کر گستاخانہ اعلان کیا کہ بہادر شاہ ظفر کے بعد مغل خاندان لال قلعہ سے نکال دیا جائے گا اور شاہ کا لقب بھی ختم کر دیا جائے گا۔
انگریزوں کے مظالم بتدریج بڑھتے رہے ۔ نتیجتاً عوام کا غم و غصہ ۱۸۵۷ء کی بغاوت کا شعلہ بن کر میرٹھ سے بھڑکا۔اس کی لپٹیں بہت تیزی سے دہلی تک پہنچ گئیں۔حالات ابتر ہو گئے۔بادشاہ، رئوساء، علماء، شعراء، عوام سب اس کی زد میں آ گئے۔ ۱۸۵۷ء کی اس زبردست جنگ آزادی اور دہلی کی تباہی کا منظر غالبؔ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ موج خون ان کے سر سے بھی گذری۔جس مغلیہ دور میں غالبؔ نے آنکھ کھولی ، اس کے عروج کی داستان انھوں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھی تھی اور اس کا زوال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔جن واقعات و مناظر کی گواہ ان کی آنکھیں بنیں ، انھوں نے وہ سب قلمبند کئے اور اس مجموعے کو ’دستنبو‘ سے موسوم کیا۔
بہادر شاہ ظفر برائے نام بادشاہ تھے۔انگریز برملا ان کی توہین کر رہے تھے۔درون قلعہ سازشوں کا بازار گرم تھا۔سپہ سالار کس کا حکم بجا لا رہے تھے؟ بادشاہ کا یا کسی اور کا؟ غرضیکہ قلعے کے حالات معمہ بنے ہوئے تھے۔حساس طبع غالبؔ وقت کی ستم ظریفیوں کو محسوس کر رہے تھے۔ان کا دل پارہ پارہ ہوا جاتا تھا۔ دستنبو میں درج ان کے بیانات اس کے بینّ ثبوت ہیں۔ بادشاہ کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر غمگین ہیں اور لکھتے ہیں کہ بادشاہ اس چاند کی طرح تھا جسے گہن لگ جائے۔
انگریز پے در پے ہندوستانیوں پر کاری ضرب لگا رہے تھے۔ ملک کی صنعت پوری طرح تباہ ہو چکی تھی۔ زمینوں کی جبراً قرقی اور نیلامی ہو رہی تھی۔بادشاہ کی اہانت ، ریاستوں کے جبری الحاق ، عیسائی مذہب کی ترویج وغیرہ انگریزوں کے ایسے اقدامات تھے جن سے ہندوستانیوں کا ذہن مکدر ہو چکا تھا۔ان میں غم و غصہ کی زبردست لہر دوڑ گئی اور یہی لہر ۱۸۵۷ء کی بغاوت کی شکل اختیار کر گئی۔یہ ایسی آگ تھی جس نے پورے ملک کو اپنی لپٹوں سے جھلسا دیا ۔ دہلی تو دار الحکومت تھااور غالبؔ وہیں سکونت پذیر تھے۔ دستنبو میں غالبؔ نے ۱۱؍ مئی ۱۸۵۷ء سے لے کر جولائی ۱۸۵۸ء تک کے دہلی میں رونما ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا ہے۔قلعے کی تباہی کے ساتھ ساتھ انگریزوں پر جو گذری اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس طرح ان کا بیان یک طرفہ نہیں ہے۔شہر میں قتل و غارت کے ساتھ لوٹ مار بھی اوج پر تھی۔کافی لوگ شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ جو رہ گئے وہ اپنے گھر میں تقریباً قید رہے۔بازار کی رونق سناٹے میں تبدیل ہو گئی۔سڑکوں پر لٹیرے آزاد گھوم رہے تھے۔غالب ؔ نے اس کی منظر کشی کچھ یوں کی ہے :
’ ۱۱؍ مئی ۱۸۵۷ء کو اچانک دہلی کے قلعے اور فصیل کی دیواریں لرز اٹھیں ۔ شہر دہلی میں ہندوستانیوں کے ساتھ ساتھ انگریز افسروں کے بھی مکانات تباہ ہوئے اور قتل و غارت کا منہ انھیں بھی دیکھنا پڑا۔کچھ لوگ جو انگریزوں کے نمک خوار تھے شہر سے دور چلے گئے۔کچھ لوگ جنھیں تیر و تبر سے کام نہ تھا وہ غمگین اور ماتم زدہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہے۔ (غالبؔ بھی انھیں میں سے ایک تھے۔وہ بھی گھر میں بیٹھے تھے کہ شور و غوغا ہوا) زمین ہر طرف گل انداموں کے خون سے رنگین ہو گئی ۔وہ بچے جنھوں نے دنیا کو اچھی طرح دیکھا بھی نہ تھا ، ایکدم قتل و خون کے بھنور میں پھنس گئے اور بحر فنا میں ڈوب گئے۔ اندرون قلعہ شاہی باغ گھوڑوں کا اصطبل بنا۔شہر حاکموں سے خالی اور بندہ ہای بے خدا سے بھرا ہوا جیسے باغ باغبان سے خالی اور درختان بے ثمر سے پر ہو۔ لٹیرے ہر قسم کی پابندیوں سے اور سوداگر محصول ادا کرنے کی ذمہ داریوں سے آزاد۔ گھر ویرانے معلوم ہوتے ہیں اور مکانات لوٹ مار کرنے والوں کے لئے خوان مفت۔ امن پسند اور نیک نہاد لوگ گھر سے بازار تک آتے ہوئے راستے میں بیسیوں جگہ عاجزی اور مغلوبیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ لٹیرے دن میں دلیری کے ساتھ لوٹ مار میں مصروف ہیں اور رات میں ریشمی بستر پر محو خواب‘۔
یہ تباہی اور غارت گری با برگ اور بے برگ پر یکساں طور پر اثر انداز ہوئی۔عالی مرتبہ لوگوں کا حال زیادہ برا ہوا کیوں کہ وہ تو عیش و عشرت کے عادی تھے۔ دستنبو میں درج بیان کے مطابق :
’ بڑے بڑے عالی خاندان لوگوں کے گھروں میں چراغ جلانے کو تیل نہیں ۔اندھیری رات میں جب پیاس کی شدت بڑھتی ہے ، بجلی چمکنے کے منتظر رہتے ہیںکہ یہ دیکھیں کہ کوزہ کہاں رکھا ہے اور پیمانہ کدھر ہے۔ زمانے کی اس بے نیازی اور بے اعتنائی کو کیا کہوں کہ وہ کم رتبہ لوگ جو سارا دن مٹی بیچنے کے لئے زمین کھودتے تھے ان کو مٹی میں سونے کے ٹکڑے مل گئے اور جن لوگوں کی محفل میں آتش گل سے چراغ روشن ہوتے تھے، اندھیرے گھروں میں ناکامی و نامرادی کے غم میں مبتلا ہیں۔کوتوال شہر کی زن و دختر کے علاوہ ساری نازنینان شہر کا زیور بزدل اور سیہ کار رہزنوں کے قبضے میں ہے‘۔
یہ وہ دور تھا جب اہل علم و دانش بھی اپنی آبرو بچانے میں ناکام رہے۔ وہ لوگ جنھیں اپنی قوت بازو پر ناز تھا وہ بھی خوف و ہراس کے سائے میں زندگی گذار رہے تھے۔بڑے بڑے عالموں کی عزت خاک میں ملا دی گئی۔غالبؔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’میرا درد بھرا حال سن کر ستاروں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں۔بڑے بڑے بہادروں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے سائے سے ڈریں ۔ دہلی کے اندر اور باہر تقریباً پچاس ہزار سواروں اور پیادوں کی فوج پڑی ہوئی ہے ۔ شہر کی مغرب جانب پہاڑی پر انگریزوں کا قبضہ ہے‘۔
کثیر تعداد میں انگریزی فوج دار الحکومت دہلی میں موجود تھی۔ ہندوستانی گو کہ جنگی تکنیک میں انگریزوں سے پیچھے تھے لیکن ان کا جوش اور ولولہ انھیں انگریزوں سے مقابلے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس بابت غالبؔ یوں رقمطراز ہیں :
’ توپوں اور بندوقوں کے دھوئیں سے ایسا معلوم ہوتا کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے اور اس سے اولے برس رہے ہیں۔ رات دن دونوں طرف سے گولہ باری ہوتی ہے۔مختلف مقامات سے آئے ہوئے سپاہی دن چڑھے شیر دل انگریزوں سے لڑنے کے لئے جاتے ہیں اور سورج ڈوبنے کے پہلے واپس آ جاتے ہیں‘۔
حکیم احسن اللہ خان صاحب علم و فضل ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں وزیر اعظم ، ان کے طبیب اور با اثر مشیر بھی تھے۔وہ اپنے عصر کے علماء اور فضلاء کو عزیز رکھتے تھے۔ غالب ؔسے بھی ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ان کے شاندار آراستہ و پیراستہ محل نما گھر کو نذر آتش کیا گیا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم کہ گلیوں کے دروازے بند کر دئے گئے اور کسی میں اتنی ہمت نہ رہی کہ باہر جا کر کھانے پینے کی اشیاء مہیا کر سکے۔ دستنبو کے اندراج کے مطابق :
’ حکیم احسن اللہ کا گھر جو خوبصورتی اور آرائش میں نگار خانۂ چین ہوا کرتا تھا ، اسے لوٹا گیا۔ اس کی چھت کو آگ لگا دی گئی۔ چھت کے شہتیر اور منقش تختے جل کر راکھ ہو گئے۔ دیواریں سیاہ پڑ گئیں۔ دہلی دروازہ، ترکمان دروازہ اور اجمیری دروازہ تینوں دروازے باغیوں کے قبضہ میں رہے ‘۔
غالبؔ کا مکان جہاں واقع تھا اس گلی کا دروازہ بند کر لیا گیا ۔کسی میں اتنی ہمت نہ رہی کہ باہر جا کر خورد و نوش کا انتظام کر سکے۔غالب ؔ خود بھی اپنے مکان کے اندر بیٹھے رہے۔آخر گلی کا دروازہ بند کر لینے پر کھانے پینے کا سامان کتنے دن ساتھ دیتا۔ باہر کشت و خون سے لوگوں کا دل لرز جاتا تھا۔ کھانے کے ساتھ پینے کے پانی کی بھی قلت ہو گئی۔حلق خشک ہو گئے ۔ محلے میں گندگی پھیل گئی۔ غالب ؔ حالانکہ اپنے گھر میں قید تھے مگر ان کا حساس دل ایسے ہولناک واقعات سے کراہ اٹھا۔ان کی پژمردہ انگلیوں نے قلم اٹھانے کی ہمت مجتمع کی اور اس زبوں حالی کا تذکرہ یوں رقم کیا :
’ انگریزوں نے شہر میں داخل ہوتے ہی بے سر و سامان لوگوں کو قتل کرنا اور مکان جلانا جائز سمجھا۔ بے شمار مرد عورتوں کے گروہ جن میں معمولی لوگ بھی تھے اور صاحب حیثیت بھی ، ان تینوں دروازوں سے باہر نکل گئے۔ شہر کے باہر جو چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں ، مقبرے تھے ، ان میں پناہ گزین ہو گئے‘۔
غالبؔ اپنے مکان کے ایک گوشے میں بے سرو سامانی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ ۱۸؍ ستمبر کو انگریزوں نے شہر اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔ کشت و خون اور گیر و دار غالب ؔ کے گھر کی گلی تک پہنچ گئی ۔ خوف سے لوگوں کا دل دہل گیا۔ ان کا بیا ن ملاحظہ ہو :
’اس گلی سے زیادہ تر لوگ چلے گئے اس طرح کہ عورتیں بچوں کو چھاتیوں سے لگائے ہوئے تھیں اور مردوں کے سر پر سامان کی گٹھریاں ۔ سارے شہر میں ۱۵؍ ستمبر سے ہر گھر کا دروازہ بند ہے۔ دکاندار اور خریدار دونوں غائب ہیں ۔نہ گندم فروش ہے کہ گندم خریدیں ، نہ دھوبی ہے کہ کپڑے دھلوائیں ۔ حجام کو کہاں ڈھونڈیں کہ بال تراشے اور مہتر کو کہاں سے ڈھونڈھ کر لائیں کہ صفائی کرے۔ گھروں میں کھانے کا جس قدر سامان تھا ختم ہو گیا ۔ پانی بیحد احتیاط سے پیا گیا لیکن آخر کار کوزہ یا گھڑے میں ایک قطرہ نہ رہا۔ چوک کے آگے قتل و خون کا بازار گرم تھا۔ نہ کھانے کو روٹی نہ پینے کو پانی ۔ ایک دن اچانک بادل آگیا۔ پانی برسا ۔ صحن میں ایک چادر باندھی گئی۔ اس کے نیچے ایک مٹکا رکھ دیا گیا اور اس طرح پانی حاصل کیا گیا۔ شہر کے بیشتر لوگوں کو باہر نکال دیا ہے۔ جو لوگ ویرانوں اور گوشوں میں مقیم ہوئے ہیں ان کے بارے میں ابھی کوئی حکم صادر نہیں ہوا ہے۔ اندرون شہر یا بیرون شہر جو لوگ مبتلائے پریشانی ہیں ان کے درد کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ شہر کے اندر رہنے والے مجبور لوگ ہوں یا باہر کے پریشان حال، سب کے دل درد سے بھرے ہوئے ہیں اور سب قتل عام کے خوف سے ہراساں ہیں‘۔
نہ فقط دہلی بلکہ گرد ونواح کی جاگیریں مثلاً جھجھر ، بلبھ گڑھ اور فرخ نگر وغیرہ بھی اس آتش میں جھلس کر رہ گئے۔ وہاں کے جاگیرداروں اور شاہزادوں کا انجام دردناک ہوا۔ عوام کو بری طرح جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اس طرح کہ اعداد و شمار کی کوئی گنجائش نہ رہی۔ بقول غالب ؔ :
’ محل لوٹ لئے گئے ۔ قیمتی سامان نذر آتش کئے گئے۔ جھجھر ، بلبھ گڑھ اور فرخ نگرکے جاگیر داروں کو محل میں قید کیا گیا۔ پھر انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا‘۔
شاہزادوں کے بارے میں لکھتے ہیں :
’بعض کو گولی ماری گئی، بعض آوارہ اور پریشان پھر رہے ہیں۔کمزور اور ضعیف بادشاہ پر مقدمہ چل رہا ہے۔ کچھ لوگ جو شہر سے نکل کر چلے گئے ہیں ، وہ اتنی دور چلے گئے گویا وہ سرزمین دہلی کے باشندے ہی نہیں تھے۔ بہت سے عالی مرتبہ لوگ شہر کے ارد گرد ، دو دو چار چار کوس پر ٹیلوں ، گڑھوں ، چھپروں اور کچے مکانوں میں اپنے نصیب کی طرح آنکھیں بند کئے پڑے ہیں۔ قید خانے میں اتنے لوگوں کو بھر دیا گیا ہے کہ گویا آدمی میں آدمی سمایا ہے۔ کتنے افراد کو پھانسی دی گئی ان کی تعداد فرشتۂ موت ہی جانتا ہے‘۔ غالبؔ کے مطابق ایسے پر آشوب حالات میں مہر و محبت اور مسرت و انبساط کی گنجائش کہاں کیونکہ :
ہر روز تنم ز سایہ لرزاں گردد ہر شب دلم از داغ چراغاں گردد