اشوک سے اشوک اعظم تک
آج بھارتی اشوک بھارت کا مایہ ناز سپوٹ فخر سے کہتے ۔ اشوک واقعی اشوک اعظم کہلانے کا مستحق ہے ۔ اس نے عہد قدیم میں پہلی دفعہ بھارت کو متحد کرکے ایک ایسی سلطنت قائم کی جس کی نظیر مغلوں سے پہلے تک نہیں ملتی ہے ۔ اس کے بہت سے کتبہ اور آثار پورے برصغیر میں بکھرے ہوئے ہے ہیں ۔ اشوک نے اپنے کتبوں میں مختلف اخلاقی و مذہبی احکام رعایا کے لیے لکھے ہیں ۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہندوستان میں دو سو سال پہلے تک اشوک کو کوئی نہیں جانتا تھا ۔ صرف اتنا معلوم تھا کہ جب بندوسار کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا اشوک ۲۷۰ ق م میں باپ کے مرنے کے بعد موریا سلطنت کے تخت پر بیٹھا جو اس وقت مگدھ میں نائب السطنتہ تھا ۔ لیکن یونانی مورخین اس کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا ۔ برہمنوں نے اپنے نوشتوں اس کے بارے میں کچھ نہیں لکھا تھا اور انہوں نے تقریباً دس بارہ صدیوں کے بعد اس کا نام حکمرانوں کی فہرست درج کیا ۔ حالانکہ اس زمانہ میں برہمنوں کی بدھوں کی تحریر تک رسائی تھی نہ وہ اشوک کے کتبوں کو وہ پڑھ نہیں سکتے تھے ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں اشوک کا حال صدیوں تک سینہ بسینہ منتقل ہوتا رہا ۔ اشوک کے متعلق سیلون کی تاریخیں ، بدھوں کی تصنیفات اور خود اس کے کتبات میں بہت کچھ حالات درج ہیں اور اشوک ایسا گمنام نہیں تھا ۔ ساتویں عیسویں میں چینی سیاح ہیونگ سانگ برصغیر آیا تو اس نے وادی کابل سے لے پورے برصغیر میں اشوک کے بنائے ہوئے بہت سے اسٹوپوں کا ذکر کیا ہے ۔
یورپی مقحق جمیس پرنسیپ نے ۱۸۳۰ء تا ۱۸۴۰ء کے دوران مختلف قدیم کتبوں اور سکوں پر تحقق کر رہا تھا ۔ اسے ایک نام پیا داسی ( دیوتاؤں کا پیارا ) مختلف کتبات پر لکھا ملا ۔ اس نے ہندوستان کی مختلف قدیم کتابیں کھنگالیں کہ معلوم ہوسکے کہ یہ نام کسی کا ہے ۔ مگر اسے ہنوز کامیابی نہیں ہوئی ۔ حالانکہ اس نے اس کے لیے جان توڑ کوشش کی مگر معمہ حل نہیں ہوا کہ یہ کتبات کس کے ہیں جو کہ پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے ۔
سیلون کی سول سروس کا ایک عہدہ دار جارج ٹرنور نے جب سیلون کی قدیم کتابوں کی چھان بین کیں تو اس پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ کتبوں میں جو راجہ پیا داسی کندہ ہے وہ راجہ اشوک کا ہی نام ہے ۔ جارج ٹرنور نے پرنسیپ کی توجہ اس طرف دلائی ۔ پرنسیپ نے سیلون کی ان کتابوں کی چھان بین شروع کی تو یہ انکشاف ہوا کہ اب وہ ان کتبات کو پڑھ کر زیادہ بہتر اندازے قائم کرسکتا ہے ۔ جب کہ مقامی ماخذ اس کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ اسے سیلون کی کتابوں میں اشوک کے بارے اس کے عہد جو تفصیلات ملیں وہ ان کتبات سے پوری طرح مطابقت رکھتی تھیں ۔ اگرچہ بدھوں نے ان تفصیلات کو تاریخ کے حوالے سے نہیں بلکہ مذہبی ضرورت کے پیش نظر قلم بند کیا تھا ۔
سیلون کی کتابوں میں اشوک کے بارے میں جو تفصیلات درج ہیں ان کی دوسرے ذرائع سے تصدیق اور کتبوں کہ مبہم مطلب بھی واضح ہوتے ہیں ۔ اشوک کا حال بہت سی کتابوں میں بکھرا ہوا ہے ۔ مگر چار کتابیں ایسی ہیں جن میں اشوک کے سوانح مسلسل درج ہیں ۔ یہ کتب درج ذیل ہیں ۔
(۱) اسوک اودان ۔ اس کتاب کی زبان بدھ کے زمانے سنسکرت ہے اور نیپال میں موجود ہے ۔
(۲) دیپ ومبسہ ۔ پالی زبان میں ہے اور برما میں ہے ۔
(۳) دنیائے کی تفسیر میں بودھ گھوس کا نوشتہ ہے ۔
(۴) مہادمسہ ۔ اس کی زبان پالی ہے اور سیلون میں محفوظ ہے ۔
پہلی کتاب وادی گنگا میں تصنیف ہوئی ۔ مصنف کا نام اور زمانہ تصنیف نامعلوم ہے ۔ یہ غالباً تیسری صدی عیسوی کی لکھی ہوئی ہے ۔ اودان قصہ کے معنوں میں آتا ہے اور یہ کسی سیرت مقدس کی طرح ہے ۔
باقی تین کتابیں سیلون میں انورادھ پور میں پالی میں مذہبی کتابیں اور سنہالی میں ان کی شرحیں ہیں ۔ ان شرحوں میں پالی زبان کے واقعات و مسائل اشعار صورت میں جابجا موجود ہیں ۔ چوتھی صدی عیسوی میں کسی نے ان میں سے صرف ایسے اشعار جمع کئے جو کہ سیلون کی تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں اور مزید اشعار پیوست کرکے ایک مسلسل بیان پیدا کیا اور اس کا نام ویپ مسبسہ (جزیرے کی تاریخ) کا نام دیا ۔ یہ اشعار بہت بری پالی زنان میں اضافی اشعار کی زبان کچھ اچھی زبان میں نہیں ہے ۔ پرانے اشعار ایک تفسیر سے نہیں بلکہ کئی تفسیروں سے جمع کئے گئے ہیں ۔ اس لیے ایک واقعہ مختلف شعروں میں اعادہ ہے ۔ مہادمبہ (تاریخ کبیر) جو بہتر کتاب ہے اور اس نے ویپ ومبہ کی جگہ لے لی اور بالکل نیست و نابود ہوگئی ۔ اس کا موجودہ متن جو مخرف و مسخ ہے پروفیسر اولڈن برگ نے کئی قلمی نسخوں سے تدون کیا ہے مگر یہ سارے نسخے ایک نسخے سے ماخوذ ہیں جو برما میں بچا رہ گیا تھا ۔
ویپ ومبسہ کی تالیف کے کچھ عرصہ کے بعد بہار کا مشہور برہمن بودھ گھوس سیلون گیا اور اس نے سنہالی کی پرانی تفسیریں دوبارہ لکھیں اور اس کی کتابیں سنہالی کی شرحوں کی قائم مقام ہوگئیں ہیں ۔ قدیم شرحیں ناپید ہیں اور صرف بودھ گھوس کی کتابوں سے اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ قدیم روایت کی اصلیت و نوعیت کیا تھی ۔ اس نے سنہالی کی پرانی شرح سے معاون حافظہ اشعار کشرت سے نقل کئے ہیں جو ویپ ومبسہ میں بھی موجود ہیں اور سنہالی نثر کو جہاں پہلے یہ پیوند تھے پالی میں لکھا ہے ۔
ایک نسل کے بعد مہانام نے مہاومسہ تصنیف کی ۔ یہ مورخ نہ تھا بلکہ ادیب تھا اور یہ کتاب ایک زرمیہ نظم ہے اور ’محبوب وشٹ گامنی’ اس نظم کا ہیرو ہے ۔ اس نے اشوک کی نسبت جو کچھ بیان کیا ہے وہ مقدمہ کے طور پر ہے ۔
پرنسیپ نے ان کتب کے مطالعہ کے بعد اعلان کیا کہ پیا داسی اصل میں اشوک کا نام ہے جو کہ چندر گپت کا پوتا اور بندوسار کا بیٹا ہے ۔ پرنسیپ کے اس اعلان سے بھوچال برپا ہوگیا اور مختلف اعتراضات کئے گئے ۔ مثلاً اس کا یونانیوں ذکر نہیں کیا اور کہا گیا کہ سیلون کی کتابیں مستند نہیں ہیں ۔ یہ محض افسانے ہیں تاریخ نہیں ہیں اور انہیں نظر انداز کرکے کتبوں پر مزید توجہ دی جائے ۔
مگر مسلہ یہ تھا کتبات پر لکھا ہوا مواد بہت کم ہے اور جمع کیا جائے تو مشکل سے کتاب کے ۲۰ صحفوں میں آتا ہے ۔ اس کے علاوہ کتبے مطالب اور مقاصد واضح نہیں ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ شاہی اعلانات ہیں اور ان کی صداقت کو متاخر تاریخوں کی روشنی میں دیکھا یا پرکھا نہ جائے تو انہیں سمجھنا ممکن نہیں اور کتبوں کے پیاداسی کو سیلوں کی کتابوں کے اشوک نہ مانا جائے تو بہت سے سوالات پیدا ہوں گے ۔ اس طرح اشوک کی چندر گپت سے رشتہ داری یا پاٹلی پٹر میں اس کا پایہ تخت ہونا یا اس طرح اور بہت سے سوالات تھے کہ جن کا جواب صرف سیلون کی تاریخوں سے ہی جواب مل سکتا ہے ۔ اگر ان پر تکیہ نہ کیا جائے تو ان سوالات کے جوابات ملنا ممکن نہیں ۔
اس کی سب سے پہلے ایم سیناڑٹ اور پھر بعد میں دوسرے لوگوں نے اس کی تائید کی ۔ اس کے بعد اشوک کے آثار اس کے کبتوں کو درست طور تشریح اور پڑھے گئے ۔ اس تحقیات کے نتیجے میں حقائق سامنے آئے اور اشوک وہ تصویر لوگوں کے سامنے آئی جو اب تک لوگوں کی نظر سے اجھل تھی ۔ اس تصویر میں وہ عظیم فاتح اور اس نے اتنی بڑی سلطنت قائم کی جس کی نظیر مغلوں پہلے نہیں ملتی ہے ، عظیم مذہبی مصلح ، اس کی عظیم تعمیرات ، اس کے رفاعہ عامہ کے کام کہ اس نے عام لوگوں کو سہولت پہنچانے کے لیے مفت علاج معالجہ کی سہولت ، مفت تعلیم اور تربیت کی سہولت ، راستوں کی تعمیر جس میں مسافروں کے رکنے کے لیے سراؤں کا قیام ، ہر مذہب کے لوگوں کی سرپرستی ، انصاف اور قانون کی فراہمی اور رعایا اچھے اعمال کی ترغیب کے لیے جگہ جگہ اس نے کتبات نصب کروائے ۔ یہ اشوک کے ایسے کارنامے تھے جن کو صدیوں تک کوئی انجام دے نہیں سکا ۔ اشوک کے یہ کارنامے جب ہندوستان کے لوگوں کے سامنے آئے تو ہندوستان کے لوگوں کو احساس ہوا کہ اشوک کتنا عظیم شخص تھا اور برہمنوں نے مذہبی تعصب کی وجہ سے اسے پس پشت ڈال دیا تھا ۔ لہذا اشوک کی عظمت کے پیش نظر اسے اشوک اعظم کے خطاب سے نوازا اور آزادی کے بعد بھارت نے اس کے نشان اشوک چکر کو نے اپنے جھنڈے پر جگہ دی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔