آسٹریلیا ایک حسین ملک ہے ۔ اس خوبصورتی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ دلکش ساحلِ سمندر ،سرسبز پہاڑ، وسیع میدانی علاقے، خوبصورت شہر، قدرتی حسن سے مالا مال دیہات، وسیع وعریض زرعی فارمز، ان میں گھومتے پھرتے صحت مند مویشی، گھنے جنگلات ،بل کھاتے دریا، معتدل موسم، وافرپانی اور شفاف آب و ہوا اس کی خصوصیات ہیں۔ لیکن میرے نزدیک اس خوبصورتی کی سب سے بڑی وجہ یہاں درختوں سبزے کی بہتات ہے۔ یہ سبزہ اور شجر اس کے حسن، اس کی دلفریبی کو چار چاندلگا دیتے ہیں۔ آسٹریلیا میں اُترتے ہی سب سے پہلاتاثر اور خوشگوار منظر جو آنکھوں اور دل کو بھلا لگتا ہے وہ اس کے شجر اور اس کا سبزہ ہیں۔
آسٹریلیا میں صرف دیہی علاقے ہی نہیں بلکہ اس کے شہربھی درختوں اور سبزے سے مزیّن ہیں۔ یہ درخت اور پودے رہائشی علاقوں، گھروں ،گلیوں سڑکوں، پارکوں اور باغات میں اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ فضا سے شہر کی عمارتیں کم اور درخت اور سبزہ زیادہ نظر آتا ہے۔ گھر اور عمارتیں درختوں سے ڈھکے ہیں۔ گھروں کے ارد گرد اور صحن کے اندر اتنے پرانے درخت ہوتے ہیں کہ اس میں سے شاخیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں لیکن ان کو کاٹنے کی اجازت پھر بھی نہیں ملتی۔آسٹریلیا سے باہر کے قارئین یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ سڈنی جیسے بڑے شہر میں جہاں زمین انتہائی مہنگی اور کمیاب ہونے کے باجود حکومت ان جنگلات، وسیع وعریض پارک اور بے شمار خالی جگہوں کو اس وجہ سے نہیں چھیڑتی کہ شہر کی مجموعی خوبصورتی اور اس کے کھلے پن پر منفی اثر نہ پڑے اور شہروں کے اندر بھی قدرتی ماحول، قدرتی خوبصورتی اور سرسبزوشاداب منظر اس کو چار چاند لگاتے ر ہیں۔
ہمارے آبائی وطن پاکستان کو بھی قدرت نے چاروں موسم، زرخیز زمین، پہاڑ، دریا، سمندر اور دوسری قدرتی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی اس زرخیز زمین، اچھے موسموں اور قدرتی خوبصورتی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان کے شمالی علاقے جس قدرتی حسن سے مالامال ہیں وہ دنیا کے بہت ہی کم ملکوں کو دستیاب ہیں ۔ مگر اس حسن اوران دِلکش قدرتی نظاروں کو نہ صرف ہم سجا اور سنوار کر دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکے بلکہ دن بدن اس کو تباہ کر رہے ہیں ۔میں نے یورپ سمیت متعدد ممالک کی سیاحت کی ہے۔ ان ممالک کی خاص بات یہ ہے کہ وہ معمولی خوبصورت مقام کو بہت اچھے طریقے سے سجا اور سنوار کرپیش کرتے ہیں اور سیاحوں کے لیے قابلِ دید بنا دیتے ہیں۔ جبکہ ہم اچھی خاصی تفریح گاہ کی شکل بگاڑ کر جنوں بھوتوں کی آماج گاہ بنا دیتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے صفائی ستھرائی اور دوسرے بہت سے انتظامی مسائل کو ایک طرف رکھ کر میں صرف ایک مسئلے پر بات کرنا چا ہتا ہوں۔ یہ درختوں کی کمی سے متعلق ہے ۔بیرونِ ملک سے جانے والوں کو سب سے پہلی کمی جو پاکستان کے شہروں میں محسوس ہوتی ہے کہ یہ درختوں سے خالی ہیں۔ ہر طرف ریت، بجری، اینٹ اورسیمنٹ تھوپی عمارتیں سر اٹھائے کھڑی نظر آتی ہیں ۔ سڑکیں، فٹ پاتھ ، صحن حتیٰ کہ پارک اور گراؤنڈ درختوں سے خالی اور چٹیل میدان نظر آتے ہیں۔ کہیں درخت او ر سبزہ نظر نہیں آتا۔ میلوں تک سبز پتّا بھی دکھائی نہیں دیتا۔لگتا ہے کہ یہ شہر صحرا میں بسائے گئے ہیں۔ صحرائی شہروں میں بھی درخت اُگائے جاتے ہیں ۔ ہمارے شہر ان سے بھی زیادہ اُجاڑ نظر آتے ہیں ۔
کیا ہمارے شہر ، ہمارے میدان اور گھر درختوں کے بغیر مکمل ہیں ؟کیا آج کی نسل اور آنے والی نسلیں درخت کی ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں سے ناآشنا ہی رہیں گے ؟کیا ان کی قسمت میں سبز گھاس پر ننگے پاؤں چلنے کی مسرت وتسکین لکھی ہی نہیں ہے ؟ کیا ہماری آنے والی نسلیں صاف ستھری ہو ا میں سانس لینے سے بھی محروم رہیں گی ؟ کیا ا ن کی قسمت میں نکہتِ گل کے نظارے لکھے ہی نہیں ؟ ۔
بلا شبہ درخت زمین کا زیور ہیں۔ ان سے فضا صاف رہتی ہے۔ ان سے برآمد ہونے والی آکسیجن انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہمارے شہروں اور دیہاتوں میں مشینوں،گاڑیوں اور موٹرسا ئیکلوں نے ہوا کو انتہائی آلودہ کیا ہوا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ سے زیادہ درختوں کا ہونا ضروری ہے۔ گھاس اور پودوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر خالی جگہوں پر گھاس اور پودے ہوں توگردوغبار کم ہو گی اور فضا خوشگوار ہو گی۔موسم خوشگوار ہو گا ۔ بارشیں زیادہ ہوں گی ۔حتٰی کہ لوگوں کا مزاج خوشگوار ہو گا ۔
وطن عزیز میں درختوں کی یہ کمی شروع سے نہیں تھی۔ آج سے چالیس پچاس برس قبل درخت اُگانے اور ان کی حفاظت کرنے کا بہت اہتمام کیا جاتا تھا۔ صدر ایوب کے دورِ حکومت میں پورے ملک کو سرسبز بنانے کی مہم چلائی گئی تھی۔ ستر اور اسی کی دہائی میں بھی جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف میں گھنے درخت استادہ تھے۔ ان درختوں کے درمیان گھنی گھاس اور سبزہ بہار کا منظر پیش کرتا تھا۔ دیگر سڑکوں کے کناروں ، فٹ پاتھوں، پارکوں اور دیہی علاقوں میں درختوں کی بہتات تھی۔ شہروں میں بھی پارک، باغات، سٹرک کنارے ، گھروں، دفاتر اور دوسری خالی جگہوں پر درخت اُگائے جاتے تھے۔
میں نے ستّرکی دہائی میں تحصیل گوجرخان کے گاؤں کونتریلہ کے سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس وقت اس سکول میں کئی سرسبز میدان موجود تھے۔ جن کے بیچ میں گھنی گھاس اور کناروں پر سرسبز درخت تھے۔ سکول کے سامنے کا میدان اتناسرسبز وشاداب تھا کہ ہم سردیوں کی دھوپ میں اس گھاس پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ ہمارے سکول کے باغیچے میں مختلف رنگوں کے پھول کھلے ہوتے تھے۔ اس باغیچے اور ان گھاس بھرے میدانوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک مالی ہمہ وقت موجود ہوتا تھا ۔کچھ عرصہ پہلے میں اِس سکول میں گیا تو وہاں خاک اُڑ رہی تھی، باغیچہ اُجڑ چکا تھا، ایک بھی پھول دار پودا سلامت نہیں تھا۔ کھیل کے میدانوں کے ارد گر کے درخت غائب ہو چکے تھے ۔ میدانوں سے گھاس اُڑ چکی تھی ۔ حالانکہ اب پانی نکالنے کے لئے موٹریں موجود ہیں ۔ لیکن اب لوگ اور ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں ۔
شہروں اور دیہات میں درخت اور سبزہ نہ ہونے کی وجہ سے مٹی اور گردوغبار ماحول کو گردآلود او ر کثیف رکھتی ہے ۔گلے ، پھیپھڑے، آنکھوں، ناک، جلد اور معدے کے بہت سی بیماریاں اس کثافت اور گردوغبار کی وجہ سے حملہ آور ہوتی ہیں۔ اگر درخت موجود ہوں تو ان وباؤں سے بچا جا سکتا ہے۔ فضاصاف ستھری، خوبصورت اور صحت افزا بنائی جا سکتی ہے۔
ویسے تو حکومت اس سلسلے میں سب سے زیادہ کردار ادا کر سکتی ہے ۔ کیونکہ اختیارات کا درست استعمال ، پالیسی سازی ، قانون سازی اور ترجیحات کا تعین اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں ۔ تاہم یہ کام حکومتی اداروں کا مکمل محتاج بھی نہیں ہے۔ اگر ہر فردیہ عہد کرے کہ وہ اپنے گھر، اپنی زمین ،اپنے دفتر یا جہاں بھی اس کو موقع ملے ایک درخت لگائے اور یہ یقینی بنائے کہ وہ درخت سلامت بھی رہے تو اس ایک قدم سے ملک میں سبز انقلاب آسکتا ہے ۔
حکومتیں اور ادارے درخت اُگانے کے لیے خصوصی مہم چلائیں۔ ان کی حفاظت کے لیے قانون سازی کریں۔ درخت اُگانے والے کے لیے انعام اور کاٹنے والے کو سزا دیں۔یہ صدقہ جاریہ بھی ہے۔ اسلام میں درخت اُگانے کا بہت زیادہ اجر ہے اور نوزائیدہ درختوں کو، جنہوں نے ابھی پروان چڑھنا ہے،کاٹنا گناہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے علماء، میڈیا ، سکول، کالج اور دیگر سرکاری اور نجی ادارے اہم کردار کر سکتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے حصے کا ایک درخت لگا ئے تو پورا پاکستان سرسبز وشاداب ہو سکتا ہے۔
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھاایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے اس ساونتوں کے جسم