اشفاق احمد اور منٹو سے جڑا ایک افسانوی خیال
سانجھ پبلیکشنز اینڈ بک ھاؤس پر سعادت حسن منٹو کے افسانوں پر مبنی کتاب ۔۔۔منٹو کےافسانے۔۔۔ہاتھ میں لئے کھڑا تھا ۔اچانکآواز آئی،میاں ادھر کیا کرو رہے ہو۔مڑ کر پیچھے دیکھا، تو علی ریحان کھڑا تھا ۔میں نے کہا دوست تم کدھر ؟علی نے کہا ،یار تجھے ڈھونڈتا ڈھونڈتا یہاں تک آگیا ہوں۔کیا کررہے ہو ؟میں نے کہا کہ منٹو کے افسانوں کی کتاب لینے آیا تھا ۔علی ریحان نے کہا، یہ دیکھو مشہور پاکستانی ادیب اشفاق احمد کی کتابیں رکھی ہیں ۔کبھی ان کو بھی پڑھ لیا کرو۔میں نے کہا اشفاق صاحب اچھے لکھاری ہیں ،لیکن منٹو کی طرح کے بابے نہیں ہیں ۔اس لئے مجھے ان کے خیالات سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ۔علی ریحان مسکرایا اور کہنے لگا، منٹو تمہیں کیوں پسند ہے ،میں نے کہا ، منٹو بابا منافق نہیں تھا ۔وہ جو دیکھتا تھا،وہ جو مشاہدہ کرتا تھا ،وہ جو سوچتا تھا ، وہی ایمانداری سے لکھ دیتا تھا ۔کبھی اس نے یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ وہ کوئی ولی یا بابا ہے ۔شاید منٹو سے میری طبیعت ملتی جلتی ہے۔علی اور میں نے منٹو کے افسانوں کی کتاب خریدی اور سانجھ بک ہاؤس سے نکل گئے ۔علی مجھے وہاں سے سیدھا ریس کورس پارک کے قریب پیزا فیکٹری پر لے گیا۔کہنے لگا، شبیرمیاں آج پیزا کھانے کو دل کررہا ہے ۔ہم دونوں نے لارج سائز پیزا آرڈر کیا ۔اسی دوران علی کتاب کھول کر منٹو کا افسانہ پڑھنے لگ گیا ۔میں نے کہا یہ کتاب اپنے آستانے پر پڑھیئے گا ۔بعد میں آپ سے یہ کتاب لے لوں گا ۔پہلے یہ بتاؤ یہ منافق کون ہوتا ہے؟علی نے کتاب بند کرکے اپنے تھیلے میں رکھ دی اور کہنے لگا، منافق وہ ہوتا ہے جو کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے ۔جو سوچتا کچھ ہے، لیکن خوف کی وجہ سے اس کے اعمال کچھ اور ہوتے ہیں ۔اسے منافق کہا جاتا ہے۔علی کے ان ریمارکس پر میں نے کہا، اگر منافق کی یہ تعریف ہے، تو اس ملک میں ہم سارے انسان ہی منافق ہیں اور منافقت ہمارے ہر گھر کی لونڈی ہوئی ۔علی نے کہا لگتا تو ایسے ہی ہے جیسے یہاں کی ساری انسانیت ہی منافق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کی اندر کی دنیا کچھ اور ہے اور باہر کی دنیا کچھ اور ۔اسی حساب سے تو سب انسان منافق ہوئے ۔منافق وہ بھی ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اچھا ،نیک نمازی اور خدا ترس ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ۔وہ کہتا تو یہ ہے کہ وہ تمام انسانوں اور انسانیت کا خیر خواہ ہے ،لیکن اس کے اعمال انسانیت کے خلاف ہوتے ہیں ۔بابا نے کہا یہ تمام بیوروکریٹ ،پاکستانی تہذیب و کلچر ،سیاستدان اور جرنیل ہی منافق نہیں ،یہاں کی تمام انسانیت ہی منافقت ہے ،یہی وجہ سے ان کے مسائل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔پاکستان میں کلچر و تہذیب کے لئے منافق ہونا بہت ضروری ہے ۔کیونکہ ان تمام کا کاروبار اس ملک میں منافقت پر چلتا ہے ۔ان لوگوں کے حقیقی چہرے نہیں ہوتے ۔ان کے لاکھوں کروڑوں چہرے ہوتے ہیں ۔جس چہرے کی ضرورت ہوتی ہے وہی چہرہ یہ عوام کے سامنے لے آتے ہیں ۔پاکستان میں سیاستدانوں اور ٹھیکیداروں کے کمروں کے اندر کی زندگی کچھ اور ہے اور کمروں کے باہر کی زندگی کچھ اور ہے ۔ان کی مسکراہٹیں اور مزمتیں سب فراڈ ہیں ۔لیکن بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں انہی منافقوں کا غلبہ ہے ۔یہی وہ منافق ہیں جو یہاں کی انسانیت کو کمزور کررہے ہیں اور تمام انسانیت میں غلاظت پھیلا رہے ہیں ۔انسانیت کا احترام ان کی وجہ سے تباہی و بربادی کا شکار ہے ۔یہ اانسانیت کی شان و شوکت کے دشمن ہیں ۔میں نے کہا علی بھائی ، منٹو تو منافق نہیں تھا ۔بابا نے کہا تم سچ کہہرہے ہو، وہ منافق نہیں تھا اسی وجہ سے اس انسانیت نے اسے قتل کردیا ۔وہ اس انسانیت کی حقیقی صورتھال بتاتا تھا اسی وجہ سے کم عمری میں ہی مر گیا،یہ زمین منافقوں سے بھری ہوئی ہے ۔دھوکے بازوں اور سازشی عناصر سے بھرپور ہے ۔یہ سازی ،منافق اور دھوکے باز فراڈیئے ہر اس چیز اور عمل کے خلاف ہیں جو فطری ہے ۔منافق محبت کے خلاف ہوتا ہے لیکن وہ ہمیشہ دل میں محبت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔منافق جدیدیت اور روشن خیالی کا دشمن ہے، لیکن اس کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ جدید اور روشن خیال زندگی انجوائے کرے ۔منافق انسانوں کو بھرپور زندگی انجوائے نہیں کرنے دیتے ،لیکن بند کمروں اور بڑے بڑے محلات میں خود بھرپورزندگی انجوائے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کیونکہ اسی میں ان کا مفاد ہوتا ہے ۔یاد رکھو منافق میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ کبھی سچ کو جان سکے ،لیکن جو سچ کی تلاش کررہے ہوتے ہیں منافق ان انسانوں کو قتل کروادیتے ہیں ،انہین زلیل و رسوا کردیتے ہیں ۔یہ تمہارے منٹو کے ساتھ بھی تو کچھ ایسا ہی ہوا تھا ۔منافق دماغ چالاک اور عیار ہوتا ہے لیکن کند زہن بھی ۔منافق معاملات کو ایسا نہیں دیکھنا چاہتے جیسے حقیقت میں معاملات ہوتے ہیں ۔منافق کی زندگی غیر ضروری طور پر پیچیدہ اور بدترین ہوتی ہے اس لئے وہ انسانیت کی زندگی کو بھی پیچیدہ اور بدترین بنا دیتے ہیں ۔وہ خود بھی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں اور انسانیت کے اندر بھی کشمکش پیدا کردیتے ہیں ۔وہ خود بھی اندر باہر کی دنیا میں تقسیم در تقسیم ہوتے ہیں اور انسانیت کو بھی گروہوں ،زات پات اور فرقہ واریت میں تقسیم کردیتے ہین ۔یہ جو ہر جگہ افراتفری ہے یہ انہی منافقوں ی وجہ سے ہے ۔علی نے کہا، یہاں منافقت کی سلطنت اور بادشاہت ہے ،اس لئے منافق ہونے سے بچنا مشکل ہے ۔لیکن ناممکن نہیں ۔جس طرح کی یہ تہذیب و کلچر ہے، یہ بزات خود منافقت کی پیداوار ہے، اس لئے یہ صرف منافقوں کو پیدا کرتی ہے اور ان کی ترقی کی ضامن ہے ۔اس سے بچنا ہے تو پھر اس تہذیب وکلچر کے خلاف آواز بلند کرو ۔منافقت سے بچنا ہے تو سادہ زندگی گزارو۔جو سوچتے ہو وہی بولو ۔جو لکھنا چاہتے ہو وہی لکھو ۔زندگی کو بھرپور انداز میں انجوائے کرو ،اپنی آزادی کو انجوائے کرو ۔فطری انداز میں قہقہے لگاؤ۔محبت کرو ،دل کی سنو اور خوف سے نکل جاؤ۔پھر شاید منافقت سے بچ جاؤ۔علی کی گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران پیزا آگیا ۔ منافق اور منافقت کی بحث رک گئی ،ہم دونوں نے مزے لے لے کر پیزا کو زہر مار کیا ۔جب پیزا ختم ہو گیا توعلی نے کہا دوست بڑے عرصے کے بعد لزت سے بھرپور پیزا کھایا ہے ۔ ۔ہم دونوں پیزا فیکٹری سے باہر نکلے ۔اور اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔