۷ ۔ ' استھیاں ' ( Kami no hone, 1927 )
( Ashes )
کاواباتا یاسوناری ، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاور
مسٹر’ کاساہارا سئیچی‘ ، منتظم اعلیٰ ، مضافاتی ٹرام کمپنی ،’ تاکا مُورا توکی جورو‘ ، تاریخی فلموں کا اداکار ، ’تسوجی موریو‘ ، ایک نجی یونیورسٹی کا علم ِطب کا طالب علم اور مسٹر’ ساکوما بین جی‘ ، مالک کینٹن ریستوراں ؛ ہر ایک نے ’ بلیو ہیرون کافی شاپ ‘ کی ایک بیرہ ’ یومیکو‘ کی طرف سے ایک سے مضمون والا خط موصول کیا ۔
” میں آپ کو راکھ بھیج رہی ہوں ۔ یہ خدا کی راکھ ہے ۔ میرا بچہ ڈیڑھ دن زندہ رہا ۔ اس میں اس وقت سے طاقت نہیں تھی جب سے وہ پیدا ہوا تھا ، میں اس نرس کو دیکھتی رہی جس نے اسے پیروں سے الٹا پکڑ رکھا تھا اور اسے ہلا رہی تھی ۔ اس نے بالآخر رو کر اپنے زندہ ہونے کی گواہی دی ۔ کل دوپہر مجھے بتایا گیا کہ اس نے دو جمائیاں لیں اور مر گیا ۔ ایسا میرے بستر کے ساتھ پڑے کھٹولے میں ہوا ۔ ۔ ۔ یہ درست ہے کہ وہ ’ ست مایا ‘ تھا ۔ وہ پیدا ہو کرمُوتتا رہا اور کھٹولے میں ہی پڑے پڑے مر گیا ۔
بچہ کسی سے مشابہ نہیں تھا ۔ وہ مجھ پر بھی ذرہ بھر نہیں گیا تھا ۔ وہ صرف ایک خوبصورت ننھا گڈا تھا ۔ مہربانی کریں اور ذہن میں ایک بچہ لائیں جس کا چہرہ دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت ہو ۔ اس کا کوئی شناختی نشان نہ تھا اور نہ ہی اس میں کوئی نقص تھا ۔ اس کے گال گول مٹول تھے اور اس کے لب بند تھے جن پر موت کے بعد خون کی ایک ہلکی سی لکیر تھی ۔ مجھے اس کے علاوہ اور کچھ یاد نہیں ہے ۔ نرسیں اس کی تعریف کرتے ہوئے نہ تھکتی تھیں کہ وہ بہت ہی پیارا اور نازک گوری جلد والا بچہ تھا ۔
اگر وہ ایک بدقسمت بچہ تھا ، اور زندہ رہنے پر اس نے کمزور ہی رہنا تھا تو میرا خیال ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ میرا دودھ پیتا یا ہنستا، اس کا مر جانا ہی بہتر تھا ۔ میں اس بچے کے لئے روئی تھی کہ وہ کسی سے مشاہبہ نہ تھا ۔ کیا اس بچے نے، جب وہ میری کوکھ میں تھا ، اپنے دل میں خود سے یہ نہ کہا ہو گا ؛ میں کسی سے مشاہبت کیوں نہیں رکھ سکتا ؟ وہ اس دنیا میں اس دردناک سوچ و بچار کے ساتھ آیا تھا ۔ اور کیا وہ یہ سوچتے ہوئے نہیں مرا ہو گا کہ اسے مر ہی جانا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ کسی سے مشاہبت پانا شروع کر دے ؟
” آپ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ، زیادہ وضاحت سے کہنا بہتر ہو گا ، آپ سب ۔ ۔ ۔ آپ سب اب تک ، چاہے میں اس سے پہلے سو مردوں یا ہزار مردوں کے ساتھ سو چکی ہوں ، اپنے چہروں پر ’ جیسے جانتے ہی نہیں ‘ کا مکھوٹا سجائے ہو جیسے یہ تم لوگوں کے لئے گلی میں گڑھے لکڑی کے ٹکڑوں کی گنتی ہو ۔ ۔ ۔ اور جب میں حاملہ ہوئی تھی تو ، خدایا ، آپ سب نے کتنا ہنگامہ کھڑا کیا تھا ۔ ۔ ۔ آپ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کارنامہ آپ کا سرانجام دیا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ آپ میں سے ہر ایک اپنی مردانہ خوردبین لئے ایک عورت کے رازوں کو کریدتے پھرے تھے ۔
” ہاکوین ، پروہت ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پرانے وقتوں کی ایک کہانی ہے ، نے ایک کنواری کنیّا کا بچہ اپنے بازوﺅں میں لیا تھا اور کہا تھا ، ’ یہ میرا بچہ ہے ‘ ۔ خدا نے میرے بچے کی بھی مدد کی ہے ۔ کوکھ میں اس بچے کی ، اس وقت ، جب وہ اس بات پر اداس تھا کہ وہ کس سے مشابہ ہو ، خدا نے اس وقت کہا تھا ، ’ میرے پیارے بچے ، مجھ سے شباہت رکھو ۔ میرا بچہ خدا سے مشابہ تھا کیونکہ آپ سب بھی خدا کے بچے ہو ۔‘
” بچے کی اس د ل سوز سوچ کے پیش نظر میں کچھ نہیں کہہ سکتی کہ میں چاہتی کہ بچہ آپ میں سے کس کے ساتھ مشابہ ہو ۔ اس لئے میں اس کی راکھ کا ایک ایک حصہ آپ سب کو بھیج رہی ہوں ۔ “
منتظم اعلیٰ ، جس نے وصولتے ہی سفید کاغذ کا بنا چھوٹا ساڈبہ جلدی سے جیب میں ٹھونس لیا اور گاڑی میں چھپ کر اسے کھولا ۔ دفتر پہنچ کر اس نے اپنی خوبصورت ٹائپسٹ کو املاء کے لئے بلایا ، اس نے ایک سگریٹ پینا چاہا ۔ جب اس کا ہاتھ جیب میں گیا تو ’ ہیپی ہِٹس‘ سگرٹوں کے پیکٹ کے ساتھ راکھ والا ڈبہ بھی باہر نکل آیا ۔
ریستواں کے مالک نے راکھ کو سونگھا ، تجوری کھولی اور ڈبہ اندر رکھ دیا اور ایک روز پہلے کی آمدن باہر نکالی تاکہ بنک بجھوا سکے ۔
طب کا طالب علم سرکاری ریل گاڑی میں سفر کر رہا تھا ۔ اس کے پاس کھڑی ایک سکول کی طالبہ گاڑی کے ڈبے کے ایک جھٹکے کے ساتھ زور سے ، اس کے ساتھ ٹکرائی اور اس کی گوری ران کے سخت دباﺅ سے راکھ کا ڈبہ اس کی جیب میں چُرمُر ہو گیا ۔ اس نے ، شہوانی اثر تلے ، جھرجھری لیتے ہوئے خود سے کہا ۔ ” میرا خیال ہے ، مجھے اس لڑکی سے شادی کرنی چاہیے ۔ ''
فلمی اداکار نے راکھ کے ڈبے کو اس خفیہ تھیلے میں چھپایا جس میں وہ مچھلیوں کی کھالیں اور ہسپانوی مکوڑے رکھتا تھا اور شکار کے لئے نکل پڑا ۔
ایک ماہ بعد کاساہارا سئیچی’ بلیو ہیرن ‘ آیا اور’ یومیکو‘ سے کہا ، ” تمہیں راکھ کسی مندر کے احاطے میں دبا دینی چاہیے ۔ تم کیوں اسے رکھے بیٹھی ہو ؟
” کون ، میں ؟ ۔ ۔ ۔ میں نے تو ساری راکھ آپ سب میں بانٹ دی تھی ۔ میں اسے اپنے پاس کیوں رکھتی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاکوین ، پروہت = Hakuin Ekaku زین بدھسٹ فرقے کا ایک اہم پروہت ( 1686 ء تا 1768 ء ) جو جاپان میں بہت بااثر تھا اور ' رنزئی ' مکتبہ فکر کے احیاء کی وجہ سے مشہور ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔