کل یہاں نیوجرسی امریکہ میں ایک پاکستانی امریکی ، پی ایچ ڈی ، جو امریکہ کی معروف کولمبیا یونیورسٹی میں بہت عرصہ پروفیسر رہے سے ملاقات ہوئ ۔ ان کو آج سے تین سال پہلے مجاہد کامران نے پنجاب یونیورسٹی میں ایک اسپیشل پروجیکٹ کے لیے بُلایا ۔ کل بہت زیادہ پریشان دکھائ دیے ، جب میں نے ان سے پُوچھا کے آپ اس عمر میں gout کی مرض کے باوجود اتنا طویل سفر کر کے جاتے ہیں کوئ رزلٹ ؟ انہوں نے بلا جھجک کہا zero ، سوائے میری اپنی satisfaction کے ۔ ان کی بھی وراثتی جائیداد پر پچھلے دس سال سے لینڈ مافیا نے قبضہ کیا ہوا ہے اور سول عدالتیں لینڈ مافیا کو اسپورٹ کر رہی ہیں کیونکہ پاکستان کی عدالتیں پیسہ اور طاقت کے زور پر چلتی ہیں ۔
کل ہی پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک جج منصور علی خان نے ثاقب نثار پر نہ صرف تابڑ توڑ حملہ کیے بلکہ مٹی پلیت کر کے رکھ دی ۔ کہیں کا نہ چھوڑا ۔ بدھ کو فُل کورٹ ریفرینس بھی شاید ججوں کی ہُلڑ بازی کی وجہ سے نہ ہو سکے ، اور اگر ایسا ہوا تو سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہو گا ۔ اسی سپریم کورٹ میں ایک سرکس ۱۷ جنوری ۲۰۱۹ کو اہتتام پزیر ہو گا اور دوسرا باغی ججوں کی بغاوت والا ۱۸ کی صبح کو انشا ء اللہ ، constitutional ایوینیو اسلام آباد میں واقع اسی سپریم کورٹ سے شروع ہو گا۔ سپریم کورٹ بھی تقسیم ہو گئ ۔ سیاستدان ، سول بیوریوکریسی اور فوج تو پہلے ہی تقسیم ہے ، یہ ایک ادارہ رہ گیا تھا جو پہلے ۱۹۹۷ میں تقسیم ہوا جب نواز شریف کے گماشتوں نے اس پر حملہ کیا اور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد شاہ نے اپنی چپلیاں چھوڑ کر دوڑ لگا کر جان بچائ۔
یہ سب کچھ کون کر وا رہا ہے ؟
لوگوں کو بتایا جا رہا ہے ، امریکہ اور صیہونی طاقتیں ۔ ایسا نہیں ہے یہ صرف اور صرف پاکستان کی بے لگام ، مادر پدر آزاد انٹیلیجینس ایجینسی ISI کرواتی رہی ہے اور ابھی بھی کروا رہی ہے ۔ جسٹس شوکت صدیقی کی گندگیاں اپنی جگہ لیکن اس نے بھی اس کا کُھل کر تزکرہ کیا ۔ کاش اسے اس پاداش میں نہ نکالا جاتا بلکہ کبوتر پالنے پر فارغ کیا جاتا ۔ اور کاش اصغر خان کیس کا فیصلہ بھی ہو جاتا اور ملوث جرنیلوں کی گردنیں کاٹ دی جاتیں ۔ تاریخ کا دراصل دستور ہی اُلٹا ہی رہا ہے ، منصور اور سرمد کی گردنیں کاٹی گئیں اور یزید اور پیوٹن جیسوں کو ہار پہنائے گئے ۔
۲۰۱۶ کی ایک گرمیوں کی صبح میں پاکستان ہی میں ایک نارمل عورت کو پاگل خانہ سے چھڑوانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں ہیومن رائیٹ پیٹیشن دائر کر رہا تھا کہ رجسٹرار نے فضول قسم کے اعتراضات لگا کر فائل واپس کر دی ۔ میں نے کراچی جانا تھا وہاں سے نئے بنے چیف جسٹس منصور علی شاہ کو ٹی سی ایس کے زریعے یہ کہ کر وہ فائیل بھجوا دی کہ اسے سوؤ موٹو میں تبدیل کر دیا جائے ، میرے زاتی کیس نہیں ہے وگرنہ کھسماں نُوں کھاؤ ۔ شام کو آئ ایس آئ کے ایجینٹوں کی ایک رکھیل جو میرے گھر پر بھی قابض ہے نے کہا کہ گھبراؤ نہیں میں کچھ کرتی ہوں ۔ اُس نے دائیں بائیں اپنے باسسز کو اپروچ کیا انہوں نے کہا کہ مسئلہ ہی نہیں منصور علی شاہ کو تو ہم نے چیف جسٹس لگوایا ہے فکر کیوں کرتے ہو ۔ کچھ ہی لمحوں بعد چیف جسٹس منصور علی شاہ کے سیکریٹری کا فون آتا ہے ۔ پیٹیشن اگلے ہفتہ لاہور ہائیکورٹ کی ایک خاتون جج کے پاس لگائ جاتی ہے اور اس بی بی جو ایک گریڈ ۲۱ کے ڈی ایم جی افسر کی خالہ ہوتی ہیں کو دو پیشیوں بعد پاگل خانہ سے نجات دلوا دی جاتی ہے ۔ دراصل اس ڈی ایم جی افسر نے ہی اپنی خالہ کو اس کی جائیداد ہتھیانے کے لیے پاگل خانے جمع کروایا ہوتا ہے اور وہ اس وقت اور آج بھی عمران خان کا ڈارلنگ افسر ہے ۔
معاملات خراب کدھر ہیں ؟ اس کے لیے ایک دفعہ پھر میرا اسی ہفتہ کا ایک بلاگ پاک فوج اور آئ ایس آئ کا بغور مطالعہ ضرور کریں ۔ میری چند گوروں کے ساتھ والی پچھلے ہفتہ کی وڈیو کو بھی پھر دیکھیں ۔ گورا Tim Corrigen اس میں کہتا ہے کہ دراصل یہ ریپلیکنز اور ڈیموکریٹز کی اپنے زاتی مفادات کی جنگ ہے ، عام آدمی کی کسی کو پرواہ نہیں ۔ بلکل درست ، پوری دنیا میں یہی ہو رہا ہے صرف ڈگری کا فرق ہے ۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹریڈیو کا گراف گر رہا تھا ٹرمپ کی وجہ سے ، تو ٹرمپ نے ٹریڈیو کو کہا کہ اگلے تین سال میں دس لاکھ لوگوں کو امیگرئشن دو ۔ ٹرمپ نے ایک تیر سے دو شکار کیے ، ایک تو اپنا امریکہ میں گوروں کی حاکمیت والا بیانیہ مضبوط کیا دوسرا سارا امیگرئشن کا گند کینیڈا کے گلے ڈال دیا ۔ کینیڈین گورا شدید پریشان ہے ، وکٹوریہ اور وینکؤور کچرے کے ڈھیر بن کر رہ گئے ہیں ۔
جی ہاں ، اس وقت سارے مقابلے ، ساری جنگیں ، زاتی مفاد کی جنگیں ہیں ۔ مخلص لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہو کر رہ گئ ہے ۔ خمیازہ دنیا کی سات ارب آبادی بُگھت رہی ہے اور بُگھتتی رہے گی ۔ اس کا علاج کیا ہے ؟ روحانیت ۔ پنکی والی نہیں ، بلکہ رُومی کشمیر میاں محمد بخش والی ۔ جس میں سب ہی پیر ، سب ہی مرشد ، سب ہی ولی اور سب ہی گُرو۔ شرط صرف نفس عمارہ کا خاتمہ ۔ پیار اور محبت کے سوا کسی جزبہ کو پنپنے نہ دینا اور مقابلہ ، حسد ، غصہ اور نفرت کا قلع قمع کرنا ۔ بہت آسان ہے ، بہت سادہ اور بہت مزے دار ۔ دنیا ہی جنت بن جاتی ہے ۔
کل پاکستان سے ایک لڑکی نے پوچھا انکل آپ کی اتنی زبردست زندگی کا راز کیا ہے ؟ میں نے کہا ، بہت سادہ ، اپنی مرضی اور قدرت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ۔ قدرت کے بہاؤ کے ساتھ اس پتہ leaf کی مانند بہنا جو دریا کے بہاؤ کے ساتھ مزے مزے سے بہتا رہتا ہے ۔ سات ارب لوگ یہ باآسانی کر سکتے ہیں لیکن ب۔۔پنگا چین سے بیٹھنے نہیں دیتا ۔ ہم مشکلوں میں اپنے آپ کو خود ڈالتے ہیں ۔ محمد بخش ہی کے ایک شعر پر ہی یہ بیانیہ ختم کرنا چاہوں گا ؛
بے شرمی دے حلوے نالوں ساگ جماں دا چنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے وفاسجن دے نالوں سنگ چُوہڑے دا چنگا
جیتے رہیں ۔ بہت خوش رہیں ۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...