افتخار عارف کا ایک شعر ہے
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا بھی ضروری ہے ، مگر جو بیش قیمت خزانے ابھی ہمارے پاس ہیں ، انکو محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے . ادب کی دنیا میں اشعر نجمی ایک غیر معمولی ذہن اور شخصیت کا نام ہے . اشعر اچھے شاعر بھی ہیں اور مدیر تو غضب کے ہیں .اشعر نجمی نے دو ہزار آٹھ میں ادبی جریدے 'اثبات' کا آغاز کیا. مجھے اس وقت اثبات جیسا کویی ادبی جریدہ دور دور تک نظر نہیں آتا . پاکستان کے ادیب دانشور اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ ہم نے محمد طفیل کو پیدا کیا . نگار اور فنون جیسا رسالہ ہمارے پاس ہے . ہم بھی فخر کر سکتے ہیں کہ اشعر نجمی جیسا مدیر اور اثبات جیسا رسالہ ہمارے پاس ہے . اثبات نے پہلے شمارے سے ہی اپنی شناخت قائم کر لی . اور مجھے کہنے دیجئے کہ جو خاص نمبر اثبات کے شایع ہوئے . میں نے ایسے خاص شماروں کے بارے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا . وہ سوچتا ہے اور کام کرتا ہے .اس کے ذہن میں پلاننگ چلتی رہتی ہے . وہ صرف یہ سوچ کر نہیں بیٹھ جاتا کہ حالات خراب ہیں . دو اور دو چار ہوتے ہیں .دو اور دو چار کیوں ہوتے ہیں ، وہ حساب لگاتے ہوئے اس سچ تک پہچنے کا خواہشمند نظر آتا ہے ، جہاں اس سے پہلے کوئی مسافر نہیں پہچا .
وہ سوال کرتا ہے اور سوال کے بہاؤ میں آپ کو اپنے ساتھ لئے جاتا ہے
جواب معمولی ہوسکتا ہے مگر سوال نہیں ہوتا۔ ذرا سوچیے یہ سوال بظاہر کتنا معمولی اور احمقانہ ہے کہ سیب نیچے کیوں گرتا ہے، اوپرکیوں نہیں جاتا؟ مگر اس ایک سوال نے کشش ثقل کا مسئلہ حل کرکے فلکیاتی جہان کھول دیا۔ کیا تشدد بڑی طاقت ہے یا عدم تشدد؟ اس سوال کا جواب گاندھی، مارٹن لوتھرکنگ اور نیلسن منڈیلا کی صورت موجود ہے۔ لیکن سوال پوچھنے والے طالب علم کو بدتمیز، پراگندہ ذہن، گمراہ اور جانے کیا کیا کہا جاتا ہے، تبھی تو سوال کو توہین اور گستاخی کے زمرے میں ڈال کر سوال کنندہ کو گولی مارکر اس کی لاش کا مُثلہ کیا جا سکتا ہے.
وہ سوال کرتا ہے کہ فرسودہ مضمحل معاشرے کو حیات نو مل سکے اور اس کے لئے وہ مسلسل خود پر دباؤ قائم کرتا ہے
مذہب کی تاریخ میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا مذاہب اپنی خالصیت اور ابتدائی تعلیمات کو بدلتے ہوئے حالات اور نئے لوگوں میں تبدیلیء مذہب کے بعد ان کو برقرار رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا مذاہب بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں؟کیامذاہب جغرافیائی تناظرمیں مخصوص رسوم و رواج اورثقافتی اقدار و اداروں کو اپنے میں ضم کرتے رہتے ہیں؟ چنانچہ تاریخ کے ہر دور میں ہر مذہبی علماء کے درمیان یہ بحث رہی ہے کہ مذہب کو بدلنا چاہئے یا معاشرہ کو تبدیل کرکے اسے مذہب کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے؟ یہ کشمکش اور تصادم ہر مذہب کے اندرہے اوررہے گا۔ نتیجتاً ہرمذاہب میں احیائی تحریکوں کا جنم ہوتا رہا اور خالصیت کے نام پرکبھی اصلاحی توکبھی تجدیدی اورکبھی عسکری توانائی کے ساتھ کوششیں ہوتی رہیں کہ یا تو متعلقہ مذہب میں نئی تبدیلیوں کے لیے گنجائشیں پیدا کی جاسکیں یا پرانی روایات کونئی زندگی دی جاسکے تاکہ زوال پذیر، فرسودہ مضمحل معاشرے کوحیات نومل سکے۔ ۔ لیکن کیا کبھی ایسا ممکن ہو پایا
وہ روشن خیال ہے . اور کویی کام خلا میں انجام نہیں دیتا . اثبات کا ‘احیاے مذاہب’ (اتحاد ، انتشار اور تصادم )خاص نمبر کے تین ضخیم حصّے ہیں . اشعر کا تاریخی مقدمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ محض شاعر نہیں ہے . اٹھ کہ اس بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے . اشعر آپ کو اس دنیا میں لے جاتے ہیں ، جو یقین کیجئے ، آپ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی . اور ایسا پر مغز خاص نمبر اس سے قبل نہ پاکستان میں شایع ہوا نہ ہندوستان میں . یہ نمبر قدیم و جدید تاریخ کا اہم حصّہ ہے جس سے یہ سراغ لگانے میں آسانی ہوتی ہے کہ ہمارے اذہان میں تبدیلی کیسے آیی ؟ مذاہب کا کردار کیا رہا ؟ عالمی سیاست انتہا کو کیوں پہچی ؟ ہندوستان کی موجودہ صورت حال اور فسطائیت کے عروج کی وجوہات کیا ہیں ؟ اشعر کا یہ کارنامہ ہی اشعر کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے . وہ ایک شخص نہیں ادارہ ہے . وہ غیر معمولی روبوٹ ہے ، جہاں ہرقسم کے نایاب خیال کو اثبات میں محفوظ کرنے کی طاقت موجود ہے . رفتگاں کی سیر بھی ضروری اور اشعر جیسے غیر معمولی ذہن کا تحفظ بھی ضروری
اسے بچا لیجئے . وہ ہماری قدیم وراثت کا اہم حصّہ ہے .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...