ہم میں سے اکثر لوگ ریموٹ کنٹرول سے ٹیلیویژن چلاتے اور اس سے مستفیض ہوتے ہیں۔ اس عمل کو ایک عام آدمی جب دوسروں سے بیان کرے گا تو بے ساختہ کہے گا کہ میں ریموٹ کنٹرول کا بٹن دباتا ہوں اور ٹیلیویژن چلنے لگتا ہے۔ لیکن اسی بات کو جب ایک ادیب و شاعر کہے گا تو کچھ اس طرح کے خیالات اُس کے ذہن میں ابھریں گے کہ میں اپنی انگلیوں کو جنبش دیتا ہوں یا ایک اشارہ کرتا ہوں اور میرا آئنہ قفلِ خاموشی کو توڑ کر خوشبوئے گفتار بکھیرنے اور آنکھوں میں عکس اتارنے لگتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں مرزا غالبؔ جیسا عظیم شاعر ٹیلیوژن کی ایجاد سے تقریباً ستّر اسّی سال قبل اپنے تخیّلات و تعقّلات کا سہارا لے کر اسے کس طرح کا شعری لبادہ عطا کرتا ہے:
اس چشمِ فسوٗں گر کا اگر پائے اشارہ
طوطی کی طرح آئنہ گفتار میں آوے
یہاں ”فسوٗں گر“ ریموٹ کنٹرول ہے جو اپنی نادیدہ آنکھوں سے فسوٗں کارانہ اشارہ کرتا ہے اور آئنیہ جو اشارہ پاتے ہی طوطی کی طرح گفتار میں آرہا ہے ٹیلیویژن ہے۔ فسوٗں گر سے مراد ایٹم کا تڑپتا ذرہ الیکٹران بھی ہو سکتا ہے جو ریموٹ کنٹرول میں یہ جادو گری دکھاتا ہے۔
سائنسی موضوعات کی عکاسی کرنے والے غالب ؔکے اشعار کی جب بات آتی ہے تو لوگ نہ صرف حیران ہوتے ہیں بلکہ بعض اپنی قفل بند سوچ کے سبب تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بہت سارے شارحینِ غالب ؔنے اس کا ذکر کیا ہے۔ بعض نے ایسے شعروں کو فلسفیانہ و حکیمانہ وغیرہ کہا ہے تو بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے بہت واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ غالبؔ نے اس شعر میں سائنسی اصول کو شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔
چنانچہ شمس الرحمان فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ غالبؔ کے غیر معمولی وجدانی علم نے جہاں ان سے ”بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا” اور ”ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب” جیسے شعر کہلائے وہاں یہ شعر بھی کہلوایا جس کی بنیاد ایک سائنسی حقیقت پر ہے جس کی خبر اُس زمانے میں اہلِ مشرق کو نہ تھی‘‘۔
زینتھ ریڈیوZenith Radio Corporation کارپوریشن 1950 میں "lazy bone" کے نام سے ٹیلی وژن کا پہلا ریموٹ کنٹرول بنایا جو ٹیلی ویژن کو آن اور آف کرنے کے ساتھ ساتھ چینلز کو تبدیل کرنے کی خصوصیت رکھتا تھا ۔ لیکن یہ وائرلیس ریموٹ کنٹرول نہیں تھا بلکہ اس ریموٹ کنٹرول سے ایک بڑی کیبل نکل کر ٹیلیویژن کے ساتھ جڑ جاتی تھی تھا۔