آج – 30/نومبر 1936
ممتاز قبل از جدید شاعر، صوفیانہ رنگ کی شاعری کے لیے معروف، نفاست پسند اور وسیع المشرب شاعر” اصغرؔ گونڈوی صاحب “ کا یومِ وفات…
اصغر گونڈوی ، نام سیّد اصغر حسین، اصغرؔ تخلص۔ یکم مارچ ۱۸۸۴ء کو پیدا ہوئے۔ وطن ضلع گورکھپور(گونڈہ) تھا۔ دینی تعلیم کے بعد باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا، مگر نامساعد حالات کی وجہ سے وہ مدرسے میں زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ البتہ خدا دادذہانت ، مطالعہ اور شوق کی بدولت عربی اور فارسی میں اچھی خاصی استعداد پیدا کرلی تھی۔ شروع میں کچھ غزلیں وجد بلگرامی، امیرؔ مینائی اور تسلیمؔ لکھنؤی کو دکھائیں۔ حصول معاش کے سلسلے میں کچھ عرصہ ادبی مرکز، لاہور سے وابستہ رہے۔ کچھ عرصہ انڈین پریس الہ آباد میں رسالہ ’’ہندوستانی ‘‘ کے مدیر رہے۔ چشموں کا کاروبار بھی کیا۔اصغرگونڈوی نہایت نفاست پسند ، خلیق اور وسیع المشرب شخص تھے۔ اصغرکا کلام کم ہے ، مگر منتخب ہے ۔ ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ ۳۰ ؍ نومبر ۱۹۳۶ء کو اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انھیں الہ آباد میں حضرت شیخ محب اللہ کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ اصغر کے دوشعری مجموعے ’’نشاطِ روح‘‘ اور ’’سرودِ زندگی‘‘ شائع ہوگئے ہیں۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:294
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف صوفی شاعر اصغرؔ گونڈوی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اس جلوہ گاہِ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
ایسا حجاب چشمِ تماشا کہیں جسے
—–
آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
—–
ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے
—–
اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موجِ زندگی
جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں
—–
بنا لیتا ہے موج خونِ دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے
—–
جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا
پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں
—–
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
—–
حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو
پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں
—–
رودادِ چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں
جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا
—–
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
—–
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرزِ ادا ہے
—–
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں تھا
—–
عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
ساری خطا مرے دل شورش ادا کی ہے
—–
لذت سجدۂ ہائے شوق نہ پوچھ
ہائے وہ اتصال ناز و نیاز
—–
مائل شعر و غزل پھر ہے طبیعت اصغرؔ
ابھی کچھ اور مقدر میں ہے رسوا ہونا
—–
مجھ کو خبر رہی نہ رُخِ بے نقاب کی
ہے خود نمود حسن میں شان حجاب کی
—–
نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں
ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی
—–
کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں
ہم التفات خاص سے بھی بد گماں رہے
—–
ہم اس نگاہِ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگِ جاں بنا دیا
—–
متاعِ زیست کیا ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں
جسے سب درد کہتے ہیں اسے ہم دل سمجھتے ہیں
●•●┄─┅━━━★•••★━━━┅─●•●
اصغرؔ گونڈوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ