زمین پر موجود تقریبا ہر کلچر میں تخلیق کی کسی نا کسی قسم کی کہانی یا اساطیر موجود ہے جو اس کے کائنات میں موجودگی کی وضاحت کرتی ہے اور خدا یا دیوتاوں سے اس کے تعلق کو بیان کرتی ہے۔ جیسا کہ جوزف کیمبل نے The Power of Myth میں لکھا کہ اساطیر کسی بھی کلچر کے لیے کاسموس میں اپنے کردار اور خود کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں اور یہ داستانیں کلچر سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ بھی سمجھاتی ہیں کہ کلچر اور خدا یا دیوتاا ان سے کیا چاہتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہ اساطیر اس وضاحت کے ساتھ کہ کلچر کائنات میں کیا حیثیت رکھتا ہے، اس دنیا کے بننے کی وضاحت کرتی تھیں۔ اب ہم جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں سمیرین، پرانی نارویجن اور یونانی اساطیر پر ہنستے ہیں مگر اپنے وقتوں میں وہ انسانیت کے کائنات میں مقام اور اشیاء کیسے وجود میں آئیں کی استعاراتی اور تخیلاتی طور پر وضاحت کرتی تھیں۔
مختلف ادوار و کلچرز میں تخلیق کی اکثر کہانیوں میں مشترکہ عناصر یا تخیلات موجود ہیں۔ ان میں پیدائش یا انڈے کا عنصر موجود ہے، کیونکہ یہ ہماری دنیا میں تخلیق کی بہت طاقتور علامت ہے۔ تخلیق کی کچھ جاپانی اساطیر میں عناصر ایک انڈے کی شکل میں گچھم گچھا نمودار ہوئے، اور پھر بعد ازاں اس کہانی میں اذامانی دیوی نے دیوتاوں کو جنم دیا۔ ایک یونانی اساطیر کے آغاز میں پرندے نیکس نے ایک انڈا دیا جس سے محبت کا دیوتا ایروس نکلا۔ انڈے کے ٹکڑے گایا اور یورینس بن گئے۔ ایک اراقائی (امریکی قبائلی) داستان میں آسمان میں تیرتے ایک جزیرے سے حاملہ عورت نیچے گری جسے اس کے خاوند نے دھکا دے دیا تھا۔ جب وہ نیچے اتری تو اس نے دنیا کو جنم دیا۔ ہندووں میں تخلیق کی کئی داستانیں ہیں۔ ان میں سے ایک کے مطابق دیوتا برہما نے ابتدائی پانی کو ایک چھوٹے بیچ کے اندر پیدا کیا جو بڑا ہو کر ایک انڈا بن گیا۔ برہما نے اسے توڑا اور ایک حصہ سے آسمان بنا دیا اور دوسرے سے زمین اور اس پر موجود حیات کو بنا دیا۔ شمال مغربی بحر الکاہل میں موجود چنوک انڈینز کے مطابق وہ تھنڈربرڈ کے ایک بہت بڑے انڈے سے تخلیق کیے گئے۔ اسی طرح کے کائناتی انڈے کی داستاں چائنیز، فن لینڈ، ایرانی، اور سموئین اساطیر میں موجود ہیں۔
کئی اساطیر میں ماں اور باپ جیسی ہستیاں موجود ہیں جن سے تخلیق نمو پاتی ہے۔ ماں کی شکل میں اکثر “مدر ارتھ” کا تذکرہ ہے اور اس کے حمل کی صلاحیت زمین کی ذرخیزی کی علامت ہے۔ مثال کے طور پر یونانی اساطیر میں آسمانی دیوتا یورینس اور زمینی دیوی گایا کے ملاپ کے نتجے میں دنیا وجود میں آئی اور ان کے اسی اکٹھے ہونے سے کئی اور یونانی دیوتا بھی تخلیق ہوئے جنہوں نے پھر خود مادی کائنات کی کئی چیزوں کو تخلیق کیا۔ جاپانی اساطیر میں ازانامی دیوی اور ازاناگی دیوتا کا ملاپ ہوا ماں دیوی ازانامی نے تین بچوں اماتیراسو یعنی سورج، سوکی یومی یعنی چاند، اور سرکش بچے سوسانو کو جنم دیا۔ آسٹریلیا کے قبائلی سورج ماں پر یقین رکھتے تھے جس نے تمام جانوروں، پودوں، اور پانی کو تمام ارواح کے باپ کے کہنے پر تخلیق کیا۔ اس طرح کے ابتدائی ماں باپ کا کردار کئی اور کلچرز مثلا مصری، کک جزیرہ، ٹاہیٹین اور زونی انڈینز وغیرہ کی اساطیر میں ملتا ہے۔
اکثر تخلیق کی اساطیر جیسا کہ عبرانی، یونانی اور جاپانی اساطیر جن کا پہلے ذکر ہوا، یا پھر سمیرین بابلی اساطیر جن کا ذکر آگے آئے گا، ان سب میں ابتداء میں کسی قسم کی افراتفری یا عدم وجود ہے جسے ان کے دیوتا زمین و آسمان کی صورت میں منظم شکل و صورت دیتے ہیں۔ کئی دیگر اساطیر میں اس دنیا کا تصور ہے جو ہماری آج کی دنیا سے قبل موجود تھی اور ان کا پرانی دنیا کا کوئی دیوتا ہماری اس نئی دنیا کو تشکیل دیتا ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ کچھ قبائل میں اس دنیا کا تصور ہے جس میں انسان اور حیوان امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے۔ تب ان کے گریٹ ماسٹر اور تمام حیات کے مالک کانگ نے اس دنیا کے عین اوپر ایک اور حیرانگیز دنیا بنائی جس میں اس نے ایک عظیم الشان درخت اگایا۔ اس درخت کی جڑ کے قریب اس نے ایک سوراخ کیا اور نیچے والی دنیا سے تمام جانوروں اور انسانوں کو وہ اوپر والی دنیا میں لے آیا۔ ہوپی قبائل کی اساطیر کے مطابق ہماری اس دنیا کے نیچے اور کئی دنیائیں تھیں۔ جب وہاں نیچے والی کوئی دنیا رہنے کے قابل باقی نہیں رہتی تو لوگ اور جانور صنوبر کے درختوں کی مدد سے اوپر چڑھ کر نئی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ اوپر چڑھنے والی سیڑھی کبھی نا ختم ہونے والی ہے اور ممکن ہے کئی قسم کی حیات ہماری آج کی دنیا میں سے اوپر چڑھ کر اگلی میں جا رہے ہوں۔ نواجو قبائل کی تخلیق کی اساطیر بھی کچھ اسی قسم کی ہے، بس اس میں فرق یہ ہے کہ وہ صنوبر کے درخت پر چڑھنے کی بجائے وہ بہت بڑے سرکنڈوں کی مدد سے اوپری دنیا پر جاتے ہیں۔
اساطیر میں انسانوں کا دیوتاوں کے کسی حکم سے روگردانی کرنا اور پھر اپنی نافرمانی کے سبب تکلیف اور دکھ کا شکار ہونا بھی عام ہے۔ جنت کے باغ میں آدم و حوا کی کہانی کے علاوہ ایک یونانی کہانی اس پہلی عورت پنڈورا کی بھی ہے جسے زیوس نے ایپی میتھیس کو تحفے کے طور پر دیا۔ پنڈورا کو ایک باکس دیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ اسے کبھی نا کھولے۔ مگر ساتھ ہی زیوس نے پنڈورا کو تجسس بھی عطا کیا اور اسی بنا پر وہ اس باکس کو کھول بیٹھی اور یوں دنیا پر گناہ اور آصائب نازل ہونا شروع ہو گئے۔ افریقی قبائل کے مطابق انہیں دیوتاوں نے آگ بنانے منع کیا، مگر انہوں نے نافرمانی کی اور یوں ان کے جانوروں کے ساتھ پرامن تعلقات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ آسٹریلیا کے قبائل کے مطابق جب سورج ماں نے جانوروں کو تخلیق کیا تو انہیں آپس میں امن سے رہنے کی تلقین کی۔ مگر وہ حسد کی وجہ سے آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ وہ دنیا میں واپس آئی تو انہیں کسی بھی صورت کو اخیتار کرنے کا ایک موقع اور دیا اور اسی وجہ سے آسٹریلیا میں جانور عجیب شکل و صورت میں پائے جاتے ہیں۔ مگر چونکہ جانوروں نے سورج ماں کے احکام کی نافرمانی کی تھی، اس لیے اس نے ان پر غلبہ اور حکمرانی کے لیے دو انسانوں کو بھی تخیلیق کیا۔
تقریبا تمام اساطیر میں ایک عظیم الشان سیلاب مذکور ہے جس نے تقریبا تمام نوع حیات کا خاتمہ کر دیا۔ سمیرین کہانی میں زیوسودرا، بابل کی کہانی میں اوپانشتم، عبرانی داستان میں نوح، اور یونانی اساطیر میں ڈیوکیلین کا تذکرہ ہے جو عظیم الشان سیلاب میں سے گزرے اور پھر پانی اترنے کے بعد ان سے نوع انسانی آگے چلی۔ اسی طرح کے عظیم الشان سیلاب کی کہانی قدیم ناروے، Celtic، انڈین، ازٹک، چائینیز، مائین، شامی، ہوپی، رومینین، افریقن، جاپانی، اور مصری اساطیر میں مذکور ہے۔ سکالرز کا کہنا ہے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ اکثر کلچرز پانی کے کسی بہت بڑے ذخیرے کے آس پاس موجود تھے (جو کہ سوائے پہاڑوں میں رہنے والوں کے سوا سب ہی تھے) اور ان کے ماضی قدیم میں کوئی نا کوئی بڑا سیلاب آیا تھا۔ اور اس بڑے سیلاب نے وہاں اتنی تباہی پھیلائی کہ پھر وہ نسل در نسل سنائی جانے والی کہانیوں میں افسانوی حیثیت اختیار کر گیا۔ چند کلچر یا مذاہب مثلا انڈیا کے جین مت اور چائینا کے کینفوشش ایسے ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی تخلیق کی اساطیر موجود نہیں۔
ان اصل اساطیر میں پائی جانے والی تفصیل و تصورات اور زبان و بیان سے یہ مختصر سمری مکمل طور پر انصاف نہیں کر سکتی۔ اگر آپ نے پہلے یہ کام نہیں کیا تو میں تجویز کروں گا کہ اساطیری تقابل کی کوئی کتاب ضرور پڑھیں یا اس موضوع پر انٹرنیٹ پر موجود مواد کو ضرور دیکھیں۔ اس تمام ڈسکشن میں ہم نے دیکھا کہ مختلف اساطیر کس طرح انسان کے وجود اور اس کے یونیورس میں فٹ ہونے کے مشترکہ تصور کو بیان کرتی ہیں۔ ان میں کوئی بھی کہانی لازمی طور پر “سچی” یا “جھوٹی” نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے اپنے کلچر کا ماحاصل تھیں اور ان میں رہنے والے لوگوں کے لیے اس دنیا کو سیاق دینے کے لیے لازمی تھیں۔ تمام انسان اپنی ابتدا جاننے کی خواہش رکھتے ہیں اس لیے وہ اسے بیان کرنے کی خاطر کسی قسم کی کہانی بنا لیتے ہیں۔ جب وہ کہانی نسل در نسل چل نکلے تو اسے ایک طرح کی حقیقت یا ‘سچائی’ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اس کلچر میں رہنے والوں کے لیے لازمی ہو جاتی ہے تا کہ وہ دنیا میں اپنے کردار اور دیوتاوں سے اپنے تعلق کو سمجھ سکیں۔
جیسا کہ مائیکل شرمر بیان کرتا ہے: “تو کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بائیبل کی بیان کردہ تخلیق اور پھر دوبارہ تخلیق کی کہانی جھوٹی ہے؟ اس سوال کا پوچھا جانا ہی ظاہر کرتا ہے کہ اساطیر کا اصل مقصد نہیں جان سکے جیسا کہ جوزف کیمبل نے اپنی تمام عمر یہی واضح کرنے کے لیے صرف کی۔ سیلاب کی اساطیر کے معنی گہرائی میں دیکھیں تو وہ دوبارہ تخلیق اور تجدید سے جڑے ہیں۔ اساطیر سچائی سے متعلقہ نہیں ہوتیں۔ اساطیر کا اصل تعلق وقت کے ساتھ ساتھ زندگی، پیدائش، موت، شادی، بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی انسانی کشمکش کے ساتھ ہے۔ وہ انسانوں کی ان نفسیاتی یا روحانی ضرورت کو پورا کرتی ہیں جن کا سائنس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی اساطیر کو سائنس میں بدلنا، یا سائنس کو اساطیر بنانا، اساطیر کی توہین ہے، مذہب کی توہین ہے اور سائنس کی توہین ہے۔ یہی کرنے کی کوششوں میں کری ایشنسٹ لوگ اساطیر کی اہمیت، معنی اور ارفع فطرت کے حوالے سے خطا کا شکار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے تخلیق اور دوبارہ تخلیق کی خوبصورت کہانی لی اور اسے تباہ و برباد کر دیا۔”
کتاب کا نام:
EVOLUTION
WHAT THE FOSSILS SAY AND WHY IT MATTERS
SECOND EDITION