“لیلت”
ملکئہ شب، عفریتِ شپ
LILITH
کائنات کی پہلی فیمنسٹ ، حقوقِ نسواں یا آزادی نسواں کی علمبردار عورت
عام طور پر کائنات کی ابتدا آدم و حوا کی داستان سے مربوط ہےلیکن یہودی حوالہ جات کے مطابق حواسے قبل آدم کو اسی کی طرح مٹی سے تخلیق کر کے ایک عورت لیلیت پیش کی گئی۔
جو حوا ہی کی طرح نافرمانی اور گناہ کا استعارہ ہے۔
لیلت یا لیلا آدم کی پہلی بیوی کا نام ہے جو آدم ہی کی طرح مٹی سے تخلیق کی گئی اور پھر آدم کی خدمت اور دل بہلانے کا سامان بنا دی گئی۔
سیعیاہ اور تالمود کے یہودی حوالوں سے اور بعد ازاں بہت سے ممالک کی اساطیری کہانیوں میں اس پہلی عورت کی مختلف ناموں کے ساتھ نافرمانی کے تذکرے موجود ہیں۔
پھر اسے شیطانی طاقتوں کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا۔
لیلت نے آدم کی ہمسری کا دعوی کرتے ہوئے وظائف زوجیت کی ادائیگی میں اس کی برابری کا تقاضا کیا.
آدم کی جنسی ضرورت اور خواہش کو اپنی برابری اور مساوی حقوق کی اپنی جنسی خواہش کے میزان میں تولتے ہوئے نافرمانی کی۔
اس نے آدم کا جنسی کھلونا بننا منظور نہیں کیا اور
حرفِ انکار کے بعد خداوند کے خفیہ نام ادا کرتے ہوئے اپنی مرضی سے باغِ عدن سے اڑ گئی۔
آدم نے خداوند کے حضور اپنا مقدمہ پیش کیا جس پر تین فرشتوں کو اس کے پیچھے بھیجا گیا تاکہ اسے واپس آدم کے حضور پیش کیا جائے۔”
بعض حوالوں میں اس کی شیطانی طاقتوں میں اضافے کے لیے ہر روز ایک سو شیطانی بچے پیدا کرنے کا جرم بھی شامل ہے۔
فرشتوں نے اسے واپس جانے کے لیے کہا اور اس کے انکار پر دھمکی دی کہ ہر روز اس کے سو بیٹوں کو قتل کر دیا جائے گا
عہد نامہ عتیق کے بیان کے ساتھ اس مقام پر اساطیری حوالے خلط ملط ہو گئے۔
ان روایات کے مطابق لیلت نے دعوی کیا کہ اسے نوزائیدہ بچوں اور زچہ کو نقصان دینے اور قتل کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے لیکن وہ ان عورتوں اور بچوں کو ایذارسانی سے باز رہے گی جو ان تینوں فرشتوں کے نام کا لاکٹ گلے میں پہنیں گے۔
یہ کہانیاں سمیری تہذیب میں بھی موجود ہیں اور بعد میں سلطنت اکد (Akkadian Empire)، اشوریہ (Assyria) اور سلطنت بابل (کلدانی سلطنت) تک مختلف ناموں کے ساتھ چلتی رہیں۔ یقینا ہندوستانی اساطیر میں بھی شیطانی طاقتوں کی مالک عورت سے پناہ کے لیے تعویز گنڈے کرنے عام ہیں۔
”بچے کھانی“ کی اصطلاح ایسی ہی عورتوں کے لیے ہے۔
مغربی دنیا میں لیلت کو صرف زچہ و بچہ کی دشمن نہیں کہا گیا بلکہ اس کے حسنِ توبہ شِکن کی وجہ سے زاہد و عابد راہبوں کو اپنی پارسائی کی حفاظت کے لیے کئی جتن کرنے پڑتے۔
معصوم مردوں کو اپنی پاک باز نیت کی سلامتی کے لیے اور احتلام سے محفوظ رہنے کے لیے مقدس صلیب کا سہارا لینا پڑت۔
قرون وسطی میں راہب لیلت کی اس کارستانی سے بچنے کے لیے اپنے اعضائے تولید پر ہاتھ باندھ کر سوتے اور صلیب کو تھامے رکھتے۔
اس دور میں عورت کو نہ صرف نا فرمانی کی علامت قرار دیا جاتا بلکہ مرد کو جنسی طور پر غلام بنانے کے لیے اپنے حسن، جوانی اور جسم کا استعمال کرنے والی فاحشہ قرار دیا جاتا۔
تالمود میں اس بدچلن عورت کو دراز بالوں والی حسین عورت کہا گیا اور یہیں سے عورت کے بالوں کو مردوں کو بہکانے کا چُنگل کہا گیا اور شاید اسی لیے ایسی عورتوں کی چوٹی کاٹنا، یا ہندومت میں بیوہ ہونے پر سر مونڈھ دینے کا حکم اسی پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
میسو پوٹا مک تہذیبوں میں پرندوں کے پیروں والی عورت درختوں پر پائے جانے والی چڑیل، دریا اور سمندر پر پائے جانے والی بدروح، قبرستانوں کی زنانہ آسیب اسی لیلت کا روپ تھے۔
1933ءمیں ’ارسلان تاش‘ لاکٹ ملا جس سے ماہرین نے اندازہ کیا کہ ساتویں صدی قبل مسیح میں لیلت کا نام تحریری طور پر موجود تھا اس کا ثبوت ان شواہد سے ملتا ہے جو
بحرِ مردار کے مخطوطات جو 1947ء، 1956ءاور 2000ءمیں بحرِ مردار کے شمال مغرب میں قمران کے بارہ غاروں سے دریافت کیے گئے۔
لاطینی زبان میں لیلت کو ’لامیہ‘ کہا گیا ہے جو بچے کھانے والی بدروح تھی۔ ان اساطیر کے مطابق لامیہ زیوس کی محبوبہ تھی اور زیوس کی حاسد بیوی ہیرہ نےلامیہ کے بچے چرا لیے جس پر ہوش حواس کھو بیٹھی اور دوسری عورتوں کے بچے چرانے لگی۔
لامیہ کو لبیا کی ملکہ بتایا جاتا ہے بعض روائتوں میں اسے سمندر دیوتا پوسائیڈن کی بیٹی بھی کہا گیا ہے۔ جس پر زیوس کی نظرِ کرم ہوئی اور وہ اس کے کئی بچوں کی ماں بن گئی۔
انگریز شاعر جان کیٹس نے 1819ءمعروف نظم “لامیہ” تحریر کی جس کے مطابق دیوتا ہرمیس لامیہ کو ملا تو لامیہ کا آدھا دھڑ سانپ کا تھا ہرمیس کی مدد سے وہ دوبارہ مکمل عورت کے روپ میں آئی۔
جان کیٹس نے رابرٹ برٹن (1577-1640) کی کتاب “اناٹومی آف میلن کولی” 1621ء سے متاثر ہو کر نظم تحریر کی۔ اس نظم نے انگریزی ادب پر گہرے اثرات چھوڑے۔
ہیرہ نے کبھی زیوس کی بے وفائی اور آشنائی کی سزا براہِ راست اس کو نہیں دی اس کی بجائِے ہمیشہ اس کی محبوباوں کو بالجبر زیادتی کے بعد زیوس کے ساتھ جنسی عمل سے گزرنے اور اس بچے پیدا کرنے کے جرم کی پاداش میں ہیرہ کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا۔
یہ موضوع بذاتِ خود کئی کہانیوں کی بنیاد ہے۔
متفرق روایات کے مطابق ‘ہیرہ’ نے لامیہ کے سامنے اس کے بچوں کو قتل کر دیا اور اسے ایک ایسے عفریت میں تبدیل کر دیا جس کے اوپر کا جسم تو حسین عورت کا تھا جبکہ نچلا دھڑ ایک ناگن کی دم کا تھا یہ ناگن بچوں کو قتل کرتی تھی۔
مختلف روایات میں موجود اختلافات کے ساتھ اساطیر میں عورت کو عذاب، ایذاءاور گناہ کا استعارہ قرار دینے والے کئی کردار موجود ہیں۔ جن میں ساکیبوس (Succubus) (قرینہ، سعلوة) ویمپائر یعنی خون آشام قابلِ ذکر ہیں۔
1952ءکی آفاقی شہرت یافتہ پینٹنگ، ”دی فال آف مین“ جسے ڈچ مصور کورنلیس ون پارلم نے تخلیق کیا اور باغِ عدن میں موجود سانپ کو عورت کے روپ میں دکھایا گیا۔
یورپ میں لامیہ کا کردار مائیں کہانی سناتے ہوئے بچوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتیں۔ لامیہ کی پینٹنگ میں اس کے نچلے دھڑ کو سانپ دکھایا گیا ہے۔
مغربی ادب میں لیلت کے کردار کو استعمال کیا گیا گوئٹے نے 1808ءمیں ’فاﺅسٹ‘ میں لیلت کا ذکر کیا اور اس کے بالوں کو خطرناک کہا۔
گوئٹے کے اس شاہکار سے متاثر ہو کر انگریز (انجمن پری رافیلیٹز 1848ء(Pre-Raphaelites) جس میں شاعر، مصور، اور نقاد شامل تھے) 1863ءمیں دانتے روزیٹی نے شہر آفاق پینٹنگ ”لیڈی لیلتھ“ بنائی اس نے اک سو نیٹ ”لیلتھ“ بھی تحریر کیا۔
رابرٹ براﺅننگ کی معروف نظم، ایڈم، لیلتھ اینڈ ایوا” 1883ءمیں شائع ہوئی۔
1895ءمیں سکاٹ لینڈ کے مصنف جارج میکڈونلڈ نے ”لیلتھ“ ناول تحریر کیا۔
2011ءمیں برطانیہ میں مقیم جان صدیق کا شعری مجموعہ ”فل بلڈ“ منظرِ عام پر آیا جس میں لیلتھ کے کردار کو فیمنزم کے ساتھ جوڑا گیا۔
ان کرداروں کے حوالے سے کتب تحریر کی گئیں۔
آزادی نسواں کی ابتدا لیلتھ کو قرار دیا گیا۔
زنانہ کردار جو حرفِ انکار کی جرات رکھتا ہے اور اس نافرمانی کے سبب مغضوب ہوا وہ اپنی مرضی سے باغِ عدن کی آسائشیں اور نعمتیں چھوڑنے کو تیار ہے کیونکہ اسے آدم کے مساوی رتبہ اور جنسی اختیار چاہیے۔
اس مطالبے اور سرکشی کے باعث وہ نہ صرف راندہء درگاہ ہے بلکہ اس کے وجود کے ساتھ شرمناک خصوصیات کا اضافہ کیا گیا اور قرنہا قرن تک اسے بدباطنی اور بدکردار کی علامت بنا دیا گیا۔
لیلتھ کے جرائم کی فہرست میں ایک سانپ کے روپ میں آدم اور حوا کو ورغلانا بھی ہے تاکہ وہ بھی جنت سے نکالے جائیں۔ گویا لوسیفر کے سر سے الزام لیلتھ کے سر منتقل ہو گیا۔
مغربی فیمنزم کی تاریخ میں لیلتھ کے کردار کو پہلے صرف انکار اور مرد کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے اور اپنی خواہش اور مرضی سے محبت کرنے کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے
اگرچہ مختلف مفکرین کی آراءمختلف ہے لیکن حاصلِ بحث یہی ہے کہ شاید انسان کی سرشت میں عورت کو اپنا مطیع بنانا ہے اور سرکش عورتوں کو سزا کے طور پر شیطانیت اور بدچلنی کے ساتھ مربوط کر کے ان پر ارض و سما تنگ کرنے کی کوشش ہے؟
یا شاید ایسی عورتوں کو اور ان کے تقاضے کو سمجھنے کی بجائے انہیں سدھارنے اور نکیل ڈالنے کا عزم ہی اس کی شان ہے۔
یا پھر شاید ایسی عورتوں سے نفرت کے علاوہ ان سے خوف اور دہشت نے انسان کو مذہبی، سماجی اور قانونی طور پر ان کے خلاف محاذ آرا ہونے پر مجبور رکھا۔
اہلِ مغرب اور عیسائیت نے عورت کو شیطان کا روپ قرار دے کر اسے زندہ آگ کے الاﺅ میں پھینکنے کو عین ثواب قرار دیا۔
مادر سِری سماج کو ختم کرنے اور پدرسالاری معاشرے میں عورت اور مرد کو مساوی اور دوطرفہ احترام کی بجائے اسے یک طرفہ مالکانہ حقوق اور غلامانہ برتاﺅ کے ساتھ مطیع بنانا تھا ایک مطیع اور ملکیت سے آپ غلامی تو کروا سکتے ہیں اس کی محبت نہیں جیت سکتے۔
عورت کا استحصال کسی ایک مذہب یا معاشرے تک محدود نہیں بلکہ ایک آفاقی لیلیت کے زوال کے بعد آدم کو اس کی پسلی سے تخلیق کر کے ایک نئی عورت دی گئی اور بظاہر اسے وفا شعاری، محبت اور مسرت کا استعارہ بنا دیا گیا لیکن اس کے باوجود پہلو سے پیدا اس عورت میں اپنی مرضی سے ممنوع چیزوں کو جاننے کے لیے ایک ”کیوں“ اور سوالیہ نشان موجود تھا۔
اگر ان روایات ہی کی وضاحت کی جائے تو مردانہ مصنفین کی تحریر کردہ یا سینہ بسینہ بیان کردہ ان قصائد میں ایک جبر اور استحصال کا رنگ ہمیشہ موجود رہا۔ فطرت کے اس تقاضے کو مذہب اور قانون نے مستحکم کر دیا اور پوری دنیا میں عورت کو پسماندہ ترین درجے تک پہنچا دیا گیا۔
[
لیلت نے آزادی نسواں کی تحریک میں ازسِر نو زندگی پائی۔
1970ءکی دہائی میں آزادی نسواں کی یہودی علمبردار جوڈتھ پلاسکو (Judith Plaskow) جو مذہبی عالمہ بھی تھی لیلت کی کہانی کو
ایک نئے رنگ سے پیش کیا
اس کے کردار کو یہودی حوالہ کے ساتھ دوبارہ تحریر کیا۔
اب لیلت کو عفریت شب اور بچوں کا خون پینے والی ڈائن کی بجائے آدم کی پہلی بیوی کے طور پر دیکھا گیا اور کیونکہ اس کے مزاج میں بھی اپنے ساتھی آدم ہی کی خو بُو تھی اور وہ بھی خود کو اس کے مساوی قرار دے کر وہی حقوق طلب کرتی تھی جو آدم کو حاصل تھے لہذا اسے جو کائنات کی اولین فمینسٹ قرار دیا گیا اور اسکے کردار میں حریت، خودشناسی اور خوداری کی خصوصیات کو اجاگر گیا گیا۔
معاشرے میں عورت کی جنسی زندگی کے حوالے سے نئے ضابطے ترتیب دیئے گئے جن میں وہ مرد کی طلب اور خواہش کے مطابق صرف ایک کھلونا نہیں بلکہ اپنی رضا و رغبت اور اپنی خوشی سے ذاتی جذباتی اور جنسی زندگی کا انتخاب کرے گی۔
جنسی عمل کو عورت کے لیے جبر کا استعارہ ہونے کی بجائے مرد ہی مانند مسرت کشید کرنے اور جسمانی تلذز سے مکمل آشنائی کا ذریعہ ہونا چاہیے۔
مرد ہی کی طرح عورت کی زندگی کے لیے بھی بدن اور اس کی ضرورت کی بنیادی اہمیت ہونی چاہیے۔
مرد کے ساتھ بالجبر یا بالرضا ایک شب گزارنے کے بعد اس کی نسب کا بوجھ اُٹھائے اور مادرِ عظیم یا مادرِ مقدس کے روپ میں خود پر زندگی کی خوشیاں حرام کرنے کا نام عورت نہیں۔
اولاد دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کیونکہ یہ ان جسمانی اور جنسی لمحات کا فطری ثمر ہے جو صرف دو ابدان کے یکجا ہونے پر ملتا ہے۔
مغربی معاشرے کی عورت ایک بے حد اہم اور فطری سوال اٹھاتی ہے کہ پھر قربانی اور ایثار کی توقع ایک ماں ہی سے کیوں کی جائے؟
حتی کہ جس لذت اور بے رنگ شادی شدہ زندگی کی لرزتی عمارت کو بھی ایک ماں ہی سنبھالے رکھتی ہے جبکہ بچوں کی تربیت اور مستقبل کا سوال مرد و زن دونوں کے لیے اہم اور اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
::::::::::::::::::
نظم
ڈرامہ کوئین پارٹ ون لیلت
ٹاک شو
سلور: شام بخیر معزز حاضرین! کہا جاتا ہے کہ خاموشی سونا ہے، لیکن میرا نام سلور ہے، چاندی کی زبان والا۔۔ چاندی، اور یہ ہے شاندار ”کنگ سائز شو“ اور آج شام کا تڑکا ۔۔۔ ایک حقیقی اسپائس گرل ۔۔۔۔
پبلک: ہا ہا ہا
خواتین و حضرات، لیلت کو ایک ذرا انگلی پکڑائیے وہ خود پنجہ پکڑ لے گی
حاضرین: تالیاں تالیاں تالیاں تالیاں
لیلت: شکریہ
سلور: شیطان، چڑیل، آدم کی پہلی بیوی ”لاڈلے بچوں کے کئی نام ہوتے ہیں۔
حاضرین: ہا ہا ہا ہا
سلور: بات شروع سے شروع کرنے کے لیے، کیا یہ بات درست ہے لیلت کہ آدم آپ کا سابقہ شوہر تھا
لیلت: پیدائش کے پہلے اور دوسرے باب کے الفاظ بذاتِ خود ایک جواب ہیں۔
سلور: صرف میں ہی تنہا نہیں جو آپ کے لبِ احمریں سے یہ سننا چاہتی ہے۔ کیا کہتے ہیں آپ۔
حاضرین: کہو کہو لیلت
لیلت: اول کتاب پیدائش، باب ایک: “اور
خداوند نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق کیا۔ خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا۔ نر اور ناری کی شکل میں دونوں کو پیدا کیا”
سلور: تم میرا نام بدل کر ‘میڈز’ رکھ دینا اگر یہ عورت حوا نہ ہوئی تو.………..
لیلت: میڈز
حاضرین: ہا ہا ہا تالیاں
سلور: اخاہ، تو کیا تم یہ بتا رہی ہو کہ حوا تخلیقِ کائنات کی کہانی میں شامل نہیں ہے؟
لیلت: دوسری کتاب پیدائش “خداوند نے آدم پر گہری نیند طاری کر دی اور جب وہ سو گیا تو خداوند نے اس کی ایک پسلی نکال لی اور گوشت سے جسم کو بند کر دیا اور خداوند نے آدم کی اس پسلی سے ایک عورت تخلیق کی اور آدم کی خدمت میں پیش کی گئی”۔”
سلور: تو کیا یہ آپ تھیں؟
لیلت: نہیں، یہ حوا تھیں۔
سلور: رہنے دو لیلت، دونوں مرتبہ یہ حوا ہی تھی نا؟
لیلت: کتاب پیدائش اول، باب دوم، ”آدم نے کہا اس مرتبہ یہ میری ہڈی کی ہڈی اور میرے ہی گوشت کا گوشت ہے“
سلور: “”گوشت اور ہڈی اور گوشت اور ہڈی ۔۔۔۔کیا ہمیں ایک صریح جواب نہیں مل سکتا۔ آپ آدم کی پہلی بیوی تھیں یا نہیں تھیں؟
حاضرین: تالیاں تالیاں
لیلت: آدم۔ “اس مرتبہ” کبھی نہ کہنا اگر ایک اور مرتبہ یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا، ظاہر ہے پہلی مرتبہ بھی تو کچھ ہوا ہوگا۔
سلور: اوہ ہ ہاں پہلی مرتبہ جیسی تو کوئی بھی چیز نہیں ہو سکتی نا ہے نا؟ اچھا اب مجھے صاف صاف بتاﺅ یہ سوال کے لیے نہیں پوچھ رہی، آدم فرائضِ زوجگی ادا کرنے میں کیسا تھا؟
حاضرین: ہا ہا ہا
لیلت: میں نے کی روائت کے مطابق کہہ دیا تھا کہ میں جسمانی فریضے کی ادائیگی کے عمل کے دوران آدم کے بستر پر نہیں بچھوں گی۔ بلکہ بالا ہی رہوں گی۔ لیکن آدم نے کہا تم اوپر نہیں رہ سکتیں کیونکہ تم بہت بدتر ہو اور میں برتر ہوں۔ میں نے کہا ہم دونوں مساوی ہیں کیونکہ ہم دونوں خاک سے تخلیق ہوئے ہیں۔
میں نے آدم کو چھوڑ دیا۔ آدم نے کہا کہ اے خداوند تو نے جو عورت میرے لیے تخلیق کی مجھے چھوڑ گئی ہے””۔
سلور: حد ہو گئی
سنو لیلت ۔۔۔
پتا کیا ہمارے پاس تمہارے لیے ایک چھوٹی سی حیرت ناک خبر ہے یہاں سکرین پر دیکھنا ذرا ”
لیلت: آدم؟
سلور: ہیلو آدم۔ کیا آپ کو میری آواز آ رہی ہے؟
آدم: جی ہاں
سلور: آدم براہِ راست جنت سے ہم سے مخاطب ہیں۔ کیا یہ آسمانی مسرت نہیں ہے؟
سلور: ذرا آدم کو خوش آمدید تو کہیے۔
حاضرین: ہیلو۔
آدم: ہیلو ہیلو
سلور: یہ بے انتہا خوش کن ہے۔ یہ کنگ سائز پروگرام ہے
حاضرین: تالیاں
سلور: میں یہاں ایک خاتون لیلت کے ساتھ موجود ہوں جس کا خیال ہے کہ ابتدائے آفرینش کی صبح میں اس نے آپ کو چھوڑ دیا تھا
کیونکہ اس کی وجہ… سیدھے سبھاو کہوں تو۔۔۔۔۔ آپ کی
مشنری پوزیشن کی خواہش تھی۔۔۔””؟
آدم: میں نے اس عورت سے کبھی ہم بستری نہیں کی
سلور: آہ ہ آدم یہ سب تو ہم پہلے بھی سن چکے ہیں۔ یہ ٹاک شو ایک سنجیدہ پروگرام ہے۔
حاضرین: ہا ہا ہا
(آدم اپنے منہ کو ہلاتا ہے لیکن کوئی آواز برآمد نہیں ہوتی)
سلور: آدم آدم کہا میری آواز آپ تک پہنچ رہی ہے!
(آدم سر کو اثبات میں جنبش دیتا ہے لیکن ہنوز کی کوئی آواز نہیں نکلتی)
لیلت: وہ ایسے ہی ظاہر کر رہا ہے جیسے وہ بات کر رہا ہے۔
سلور: یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ تھوڑی سی پیرانائیڈ ہو رہی ہوں۔ اور وجہ صرف یہ کہ رابطہ شکستہ ہے۔ آدم؟
(آدم ہاتھ ہلاتا ہے)
سلور: میرا خیال ہے کہ بدقسمتی سے ہمیں آدم کو ابھی سے ہی خدا حافظ کہنا ہوگا۔ روسکلڈ شہر میں خدا اس پر رحم کرے۔
حاضرین: ہا ہا ہا تالیاں۔
سلور: ہاں تو لیلت، مذاق بر طرف، جیسا کہ کہا جاتا ہے تم شیطان ہو اور چڑیل ہو اور خون آشام، اور پانی میں پائی جانے والی بدروح ہو
اور مجھے پرندوں کی زبانی یہ خبر بھی ملی ہے کہ تم نوزائیدہ بچوں کو قتل کر دیتی ہو۔
حاضرین: اُف
سلور: یہ بہت سنجیدہ الزامات ہیں، آپ اپنے دفاع میں کیا کہتی ہیں۔؟
لیلت: میرے نام کا مطلب رات ہے۔ یا رات کی نسائی مخلوق
سلور: ہاں اور؟؟
لیلت: مجھے بارہا یابل کی اساطیری داستانوں کی سہ شامہ، للشو، للی اور للو سمجھ کر مارا گیا۔ میرے بارے میں ہی تصور کیا جاتا ہے کہ میں حاملہ عورتوں اور نوزائیدہ بچوں کو قتل کرتی ہوں۔
سلور: اور تم بے گناہ ہو؟ یا کچھ اور؟
لیلت: جب میں نے آدم کو چھوڑا تو بحرِ احمر پر ڈیرے ڈالے، مجھے ایک عاشق ملا اور پھر یکے بعد دیگرے میرے عشاق بدلتے رہے۔ ہر معاشقے سے مجھے ایک بچہ حاصل ہوا ۔ مجھے لگتا ہے کہ میری آزادی اور زرخیزی سے آدم کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ اس نے خداوند سے کہہ کر میرے پیچھے تین فرشتے، سپنائے، سپنسائے، اور سینگیا لوف، بھجوائے ان فرشتوں نے بھی مجھے تحریری دھمکی دی کہ وہ بالجبر میرے بچوں کو چھین لے جائیں گے۔ میں نے قسم کھائی کہ اگر انہوں نے میرا ایک بچہ بھی چھینا تو میں آدم کی اولاد سے انتقام لوں گی۔
سلور: اخاہ، اب مزید سنسنی پھیل گئی ہے۔ کیا تم قاتل ہو یا نہیں؟
لیلت: میں قاتلہ ہوں لیکن بغیر
(R) کے
(ماں)
**
سلور: مجھے کہنا ہی پڑے گا کہ یہ جو اب قاتلانہ مزاح سے بھرپور ہے۔
حاضرین: ہا ہا ہا
سلور: گویا تم نے آدم کے بیٹوں کی بات نہیں کی؟
لیلت: وہ اپنے حال میں مست رہے۔
سلور: اچھا تو تم ایک سیکسی نینا ماں ہو اور شیطانی خون آشام نہیں ہو؟
لیلت: یکلخت اٹھتی ہے اور اپنے دانت سلور کے گلے میں گاڑ دیتی ہے۔ سلور اپنی کرسی پر دھنس کر رہ جاتا ہے۔ لیلت کا منہ خون سے بھر جاتا ہے۔
حاضرین: اُف اُف
(آدم ٹمٹاتی سکرین پر نمودار ہوتا ہے کیا آپ میری آواز سن سکتے ہیں۔ یہ سب طے شدہ ڈرامہ ہے یہ کیچپ ہے اورگیلری کا ڈرامہ)
حاضرین: تالیاں تالیاں
سلور: (ہکلاتے ہوئے) خدا حافظ
لیلت: ایک دن
درخت کی جڑ پر اپنا گھونسلا بنایا
پرندے نے درخت کی چوٹی پر انڈے دیئے اور لیلتھ نے درخت کے تنے میں قیام کیا۔ لیکن وہ اپنے بچے لے کر پہاڑ کی جانب اڑ گیا۔ جبکہ خوف سے پتھرائی لیلت نے اپنے چھوٹے بچے لیے اور دور بیابان اور جنگل کو نکل گئی
شاعرہ
میٹے موسٹروپ
Mette Moestrup. 1969
Drama queen I Talkshow
2006
میٹے موسٹروپ
ڈنمارک کی معروف اور زبان و بیان پر قادر شاعرہ اور ادیبہ تاریخ ادبیات میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی.
میٹ کو پوسٹ فیمنسٹ بھی کہاجاتا ہے ۔ اس نے بدلتے ہوئے زمانے میں عورت کی حیثیت اور اہمیت کے حوالے سےنظم کی صورت میں اپنے خیالات پیش کیے.
میٹ نے پیرس اور نیو یارک میں بھی تعلیم حاصل کی ۔
اس کی نظم ” ڈرامہ کوئین 1 ٹاک شو” کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔
حوالہ
ڈرامہ کوئین ا
اور خُدا نے اِنسان کو اپنی صُورت پر پَیدا کیا۔ خُدا کی صُورت پر اُس کو پَیدا کیا۔ نرو ناری اُن کو پَیدا کیا۔
—پَیدائش 1 باب 27 آیت
**
)شاعرہ الفاظ کے ساتھ خوبصورت، قابل دار کھیل کھیلتی ہے۔ ڈینش میں لفظ قاتل کے لیے Morder مستعمل ہے۔ جب اس لفظ میں سے (R) نکال دیا جائے تو Moder بچتا ہے جس کے معانی ماں کے ہیں۔(
Mindre afhandlinger
By Filologisk-historiske samfund (Denmark)
P 175
The Coming of Lilith: Essays on Feminism, Judaism, and Sexual …
Judith Plaskow, Donna Berman – 2005 –
Which Lilith?: Feminist Writers Re-Create the World’s First Woman
Enid Dame, Lilly Rivlin, Henny Wenkart – 1998 –