اساطیر، تاریخ اور مذہبی تعصب
(سنجے لیلا بنسالی کی فلم ’ پدماوت ‘ پر تبصرہ )
عقیدہ ، دھرم اور مذہب انسانی معاشروں میں اہم ہوتے ہیں لیکن انسانی جبلت کچھ ایسی ہے جو اس سے بھی اوپر رہتے ہوئے اس کی عزت نفس کے اظہار مختلف طریقے سے کرتی ہے جن میں دو تو اس وقت بہت کھل کر سامنے آتے ہیں جب انسان انسان کے درپے ہو کر ایک دوجے کو زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ زیر ہونے والے کے لئے شکست پر دو ہی راستے ہوتے ہیں ؛ شکست قبول کرکے غلام بن جائے یا پھر خود کو موت کے حوالے کر دے ۔ یہی دو راستے اس کے خاندان کی عورتوں اوربچوں کے لئے بھی ہوتے ہیں ۔ یہ انسانی جبلت عقیدوں ، دھرموں اور مذاہب کے گھڑے جانے سے بہت پہلے سے دنیا بھر میں موجود رہی ہے اور بعد ازاں یہ ان میں بھی در آتے ہوئے اپنی جھلک مارتی ہے ۔ مختلف معاشروں میں اسے اپنی اپنی زبان میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہو البتہ’ ہند سندھ ‘ کی قدیمی زبان سنسکرت میں یہ لفظ ’ جاتوگھرہ ‘ سے جڑا ہے ۔ جاتوگھرہ ایسے باڑے کو کہتے ہیں جس میں ’ لاخ ‘ اور اس جیسے دیگر جلنے والے بروزے موجود ہوتے ہیں جن میں جانداروں کو زندہ جلایا جا سکے ۔ اس سے لفظ ’ جوہر‘ بنتا ہے جو اس عمل کے لئے برتا جاتا ہے جب ہارا ہوا انسانی گروہ غلامی کو لات مارتے ہوئے خود کو موت کے حوالے کر دے ۔ اس خطے میں ہارے ہوئے مرد تو میدان جنگ میں لوٹ کر اس وقت تک لڑتے جب تک وہ مارے نہ جاتے ، اسے ’ ساکا ‘ کہا جاتا اور ان کی عورتیں اور بچے خود کو ’ جاتوگھرہ‘ میں بند کرکے لاخ اور دیگر جلنے والی اشیاء کو جلا کر خود کو بھسم کرتے رہے ہیں ۔ بسا اوقات مرد بھی میدان جنگ میں نہ لوٹتے اور اسی ’ جاتوگھرہ ‘ میں جل مرتے ۔
کچھ مورخ اسے صرف ’ راجپوت ‘ قوم کا خاصا گردانتے ہیں، کچھ اسے ہندو مت کی ’ ستی‘ رسم سے جوڑتے ہیں ۔ کچھ کا خیال ہے کہ راجپوت ایسا تب ہی کرتے تھے جب ان پر مسلمان حملہ آور ہو کر ان پر فتح حاصل کرتے تھے ، جبکہ ہندوﺅں کی آپسی لڑائیوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا ۔ تفصیل میں جائیں تو بات لمبی ہو جائے گی، مختصراً کہا جائے تو شاید ایسا نہیں ہے ۔
اس حوالے سے ، ہند سندھ کی تاریخ کے پنے ، ہمیں اس دور میں لے جاتے ہیں جب مقدونیہ کا سکندر اس پر حملہ آور ہوا تھا ۔ یہ 336 – 323 قبل از مسیح کی بات ہے ۔ ایسے میں اس کا سامنا ’ آگالاسوئی‘ نامی اس قبیلے سے بھی ہوا جو وادی سندھ کے زیریں حصے میں آباد تھا ۔ سکندر کی مقدونین فوج نے اس قبیلے کو شکست دی اورزندہ بچ جانے والوں کو غلام یا مطیع کرنا چاہا ۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ قبیلہ اس سے انکاری ہوا اور اس کے لگ بھگ بیس ہزار نفوس جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ، نے خود کو آگ کے حوالے کر دیا تھا ۔ تاریخ کے پنے ہمیں اودھے پور کی راجپوت شہزادی ’ کرشنا کماری ‘ کا بھی پتہ دیتے ہیں جسے1810ء میں اپنی زندگی کے سولہویں برس میں اس لئے زہر پینا پڑ گیا تھا تاکہ وہ لڑائی رُک سکے جو شادی کے حوالے سے اس پردعوے کی وجہ سے اودھے پور، جودھ پور اور جے پور کی ہندوراجدھانیوں کے درمیان دس سال تک ہوتی رہی تھی ۔
ایسا ہی کچھ سندھ میں اس وقت ہوا تھا جب 712ء میں محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے خلاف حملہ کیا تھا اور اس کے قلعے کا محاصرہ کئے رکھا ۔ راجہ داہر کے مارے جانے کے بعد اس کی رانی کئی ماہ تک قلعے کا دفاع کرتی رہی لیکن جب کھانے پینے کو کچھ نہ رہا تو اس نے دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر خود کو آگ میں جلا ڈالا جبکہ راجہ داہر کی بچی کچھی رعایا کے مرد ’ ساکا ‘ پر عمل کے لئے واپس میدان جنگ میں مرنے کے لئے چلے گئے تھے ۔ ایسا ہی کچھ گوالیار میں 1232 ء میں ہوا جب دہلی کے سلطان التتمش نے اس پر حملہ کیا تھا اور گوالیار کی عورتوں نے خود کو راکھ کیا تھا ۔ اورنگ زیب کے زمانے تک ایسے دس واقعات خاصے مشہور ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ بار ’ چتوڑ ‘ متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ پہلی بار1303 ء میں علاﺅالدین خلجی کے دور میں ، پھر گجرات کے بہادر شاہ کے ہاتھوں 1535 ء میں اور1568ء میں اکبر کے زمانے میں ’جوہر‘ اور ’ساکا ‘کاشکار ہوا تھا ۔
تاریخ میں ہے ؛علاﺅالدین خلجی کے دور میں ہوا ’ جوہر‘ اور ’ ساکا ‘ کا واقعہ جس میں چتوڑ کی چھوٹی رانی ’ پدمنی‘ ( پدماوتی) ، بڑی رانی اور ہزاروں داسیوں نے خود کو آگ کے سپرد کیا تھا ، کو بنیاد بناتے ہوئے 1540 ء میں ایک صوفی کوی ’ ملک محمد جے یاسی‘ نے ایک رزمیہ لکھا تھا ۔ اس میں اس نے لکھا کہ پدمنی (پدماوتی) ’سنگھال‘ ( موجودہ سری لنکا میں موجود) راجدھانی کی ایک خوبصورت شہزادی تھی ۔ اسی زمانے میں چتوڑ کے راجہ رتن سین نے اس کی خوبصورتی کا قصہ ایک طوطے ’ ہریمان ‘ کے منہ سے سنا اورسمندر پار کرتے ہوئے ایک لمبی اور خطرناک مہم جوئی ( اس میں مہم جوئی کے حوالے سے سمندر کی دیوی اور لکشمی دیوی رتن سین کو کڑے امتحانوں سے بھی گزارتی ہیں ) کے بعد وہاں سے بیاہ کرچتوڑ لے آیا ۔ یہ طوطا ، اصل میں پدماوت کا پالتو بولنے والا طوطا تھا اور پدماوت کا باپ اسے مروانا چاہتا تھا لیکن وہ جان بچا کر اڑتا ہوا چتوڑ کے راجہ کے پاس آ گیا تھا ۔ ادھر دہلی کے سلطان علاﺅالدین خلجی نے بھی پدمنی ( پدماوتی ) کی خوبصورتی کا چرچا سن رکھا تھا اور’ کمبھلنر‘ کا راجہ ’ دیو پال‘ بھی پدمنی ( پدماوتی) کو حاصل کرنے کا خواہاں تھا ۔ سلطان علاﺅالدین خلجی نے چتوڑ قلعے کا محاصرہ کیا ۔ اس وقت ہی کہیں رتن سین پدمنی کی خاطر دیو پال کے ساتھ’ یک یکی‘ مقابلے میں مارا جا چکا تھا ۔ اس سے پہلے کہ علاﺅالدین چتوڑ فتح کرتا ، پدمنی ( پدماوتی) ، بڑی رانی اورقلعے میں موجود تمام عورتوں کے ہمراہ ، اپنی عزت بچانے کی خاطر خود کو آگ کے حوالے کر چکی تھی اور اس قلعے کے مرد ’ ساکا ‘ پر عمل کرنے کے لئے خلجی کی فوج کے سامنے میدان جنگ میں ، مرنے کے لئے اتر گئے تھے ۔
پدمنی ( پدماوتی ) کے اس ’ جوہر‘ پر ہندو اور جین مت میں ’ جے یاسی‘ کے رزمیہ کے علاوہ اور بھی بہت سی سینہ در سینہ چلتی اور لکھی گئی کتھائیں موجود ہیں جن میں ’ دیو پال‘ کا ذکر نہیں ہے اور رتن سین محاصرے کے دوران علاﺅالدین خلجی کے ہاتھوں مارا جاتا ہے اور پدمنی ( پدماوتی ) اس کے بعد اپنی اور دیگر عورتوں کی عزت بچانے کے لئے ’ جوہر‘ پر عمل کی قیادت کرتی ہے ۔ ان تمام کتھاﺅں میں اسے ایک ایسی راجپوت رانی کا درجہ دیا جاتا ہے جس نے ایک مسلمان حملہ آور سے اپنی اور دیگر عورتوں کی عزت بچانے کے لئے یہ آہر کیا تھا ۔ جوں جوں وقت گزرا ’ پدمنی‘ ( پدماوت ) ایک لیجنڈ کردار بنتی چلی گئی ۔
لکھی تاریخ کے پنے اس بات کی تو گواہی دیتے ہیں کہ علاﺅالدین خلجی نے 1303 ء میں چتوڑ پر حملہ کیا تھا ، قلعے کا محاصرہ کیا تھا اور اسے فتح بھی کیا تھا لیکن یہ ’پدمنی ‘ ( پدماوتی ) پر خاموش ہیں ۔ بہرحال پدمنی پر جو روایات موجود ہیں ان کا خلاصہ اور تقسیم چار خانوں میں کی جا سکتی ہے:
اول؛ 16 ویں صدی تا 19 ویں تک لگ بھگ 10 فارسی اور اردو قصے ایسے ہیں جو ’ جے یاسی‘ سے ماخوذ ہیں ۔
دوم ؛ راجپوت ہیم رتن کا بیلے ’ گورا بادل اور پدمنی چوپئی ‘ جو اس نے 1589 ء میں لکھا تھا اور اسی طرح کے دیگر بیلے جن میں بنیادی طور پر ’ راجپوت عزت نفس اور مسلمان حملہ آور‘ پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ یہ بیلے اب بھی راجستھان میں پیش کئے جاتے ہیں ۔
سوم؛ جیمز ٹوڈ کی دہرائی داستان جو اس نے اپنی کتاب ’ Annals and Antiquities of Rajas'han‘ میں لوگوں اور راجپوتوں کے گروﺅں سے سن کر لکھی تھی ۔ یہ 32- 1829 کے زمانے کی بات ہے ۔
چہارم ؛ 19 ویں کی آخری دہائیوں سے شروع ہوتی بنگالی کتھائیں جن کا بنیادی ماخذ ' جیمز ٹوڈ ' کی کتھا ہی ہے ۔ ان میں بھی آگ میں جل جانے اور ’ساکا ‘ کا امر مسلمان حملہ آوروں سے عزت بچانا ہی ہے ۔
مجھے یہ تمہید اس لئے باندھنا پڑی کہ جین مت کے پیروکار گجراتی سنجے لیلا بنسالی کی فلم ’ پدماوت ‘ ( اصل نام ؛ پدماوتی ) جس فلمی دنیا میں دو سالوں سے ہلچل مچا رکھی تھی بالآخر جنوری 2018 ء میں ریلیز ہو ہی گئی ۔
اس سے پہلے کہ میں اس فلم پر کچھ بات کروں ایک نظر بنسالی کے فلمی کیرئیر پر ڈالتے ہیں ۔ 1988 ء میں جب شیام بینیگل انڈین ٹی وی ’ دور درشن ‘ کے لئے جواہر لال نہرو کی کتاب ’ The Discovery of India ‘ پر ٹیلی سریل ’ بھارت ایک کھوج‘ بنارہا تھا تو بنسالی اس کے ساتھ بطور کام کر رہا تھا ۔ وہ اس سیریل کے تدوین کار ' سوتنو گپتا ' اور ' دیپک سیگل ' کی ٹیم میں شامل تھا ۔ اس کے بعد اس نے ’ وِدھو ونود چوپڑا ‘ کے ساتھ کام شروع کیا اور ’ پرندہ ، 1989 ء ‘ میں اس کا نائب ہدایت کاررہا ۔ اس نے 1996 ء میں’ خاموشی ؛ دی میوزیکل ‘ سے ہدایت کاری کا آغاز کیا ۔ اس نے جہاں ’ ہم دل دے چکے صنم ‘ اور ’ دیوداس ‘ جیسی سپر ہٹ فلمیں بنائیں وہاں ’سانوریا ‘ جیسی ناکام فلمیں بھی بنائیں ۔ اس کے تھیلے میں پدماوت سے پہلے بھی دو فلمیں ایسی ہیں جو متنازع رہیں ، یہ’ گلیوں کا رسیلا ؛ رام لیلا ‘ اور ’ باجی راﺅ مستانی ‘ ہیں ۔ ’ گلیوں کا رسیلا ؛ رام لیلا، 2013 ء ‘ وہ فلم تھی جس میں بنسالی ’ آل اِن وَن ‘ کے طور پر سامنے آیا ۔ وہ اس کا پروڈیوسر ، ہداہت کار ، رائٹر ، میوزک ڈائریکٹر اور تدوین کار سبھی کچھ تھا ۔ اور اب وہ ’ پدماوت ‘ میں بھی اسی طور سامنے آیا ہے ۔
چتوڑ کی چھوٹی رانی ’ پدمنی ( پدماوتی) پر بنی یہ فلم پہلی فلم نہیں ہے ۔ اس سے پہلے یہ ’ کیمونار اگُن ‘ ( خاموش فلم) کے نام سے 1930ء میں بنی ، پھراسے تامل زبان میں ’ چتوڑرانی پدمنی‘ کے نام سے 1963 ء میں فلمایا گیا ، 1964 ء میں یہ ہندی / اردو فلم ’ مہارانی پدمنی‘ کے نام سے سامنے آئی ۔ 1986 ء میں ’ تیرہ پنے ‘ نامی ایک سیریل میں ہیما مالنی نے پدمنی کا کردار ادا کیا ۔ 2009 ء میں سونی ٹی وی نے بھی ایک سیریل ’ چتوڑ کی رانی پدمنی کا جوہر‘ کے نام سے بنائی ۔ شیام بینیگل انڈین ٹی وی ’ دور درشن ‘ کے لئے ٹیلی سریل ’ بھارت ایک کھوج‘ میں ۲۶ ویں ایپی سوڈ میں بھی اس کو ذکر ہے ۔
بنسالی نے جب اس فلم پر کام شروع کیا تو شوٹنگ کے دوران ہی اسے ’ شری راجپوت کرنی سینا ‘ سمیت دیگر راجپوت تنظیموں کی مخالفت کا سامنا رہا ، شوٹنگ کے دوران اس اور اس کے عملے پر حملے بھی ہوئے ، سیٹ بھی جلائے گئے ۔ جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں ۔ بات یہاں تک جا پہنچی کہ بی جے پی اور کانگریس کے ایک حصے ( راجستھان ) نے بھی اس فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا ۔ معاملہ عدالت میں گیا اور بالآخر سپریم کورٹ نے اس پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا البتہ بنسالی کو اس فلم میں خاصی کانٹ چھانٹ ، دوبارہ سے عکس بندی اور فلم کے نام میں تبدیلی ( پدماوتی کی بجائے پدما وت ) کے علاوہ فلم کے آغاز میں بہت سے ’ claimer/disclaimer ‘ ڈالنے کے علاوہ واضح طور پر یہ لکھنا پڑا کہ اس فلم کا ماخذ 1540 ء میں لکھے گئے صوفی کوی ’ ملک محمد جے یاسی‘ کا رزمیہ ہے ۔
یہ سب کرنے پر اور فلم کے وقت پر ریلیز نہ ہونے کی وجہ سے اس فلم کا بجٹ ’ دو سو کروڑ انڈین روپے ‘ سے بھی کہیں زیادہ تجاوز کر گیا اور یوں یہ فلم انڈیا میں بنی سب سے مہنگی فلم بن گئی اور یہ پورے انڈیا میں ریلیز بھی نہ ہو سکی ۔ کئی ریاستوں میں یہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود سنیماﺅں میں نہ دکھائی جا سکی ۔ بہرحال یہ فلم اب تک دنیا بھر سے چھ سو کروڑ انڈین روپے بٹور چکی ہے ۔
بنسالی ایک ایسا کلاکار ہے جو اپنی فلموں میں بہت باریک بینی سے کام لیتا ہے ، بڑے بڑے حقیقت پسندانہ سیٹ کھڑے کرتا ہے ، ملبوسات ( کاسٹیومز ) پر یوں دھیان دیتا ہے کہ پگڑیوں کا ایک ایک بل اور ساڑھیوں کی ایک ایک چُنٹ دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ فلم میں دکھایا گیا سب حقیقی ہے ۔ اس فلم میں بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ فلم میں کی گئی اداکاری بھی کمال کی ہے ۔ موسیقی عمدہ ہے اور یہ آپ کو راجستھانی ثقافت میں گندھی دکھائی دیتی ہے ۔ اس کا رقص ’ گھومر‘ آپ کو قرون وسطیٰ کی ان راجپوت راجدھانیوں کی یاد دلاتا ہے جو ہندستان میں موجود تھیں ۔ اس فلم کا ’ تھری ڈی ‘ افیکٹ ، البتہ ،خاصا فضول سا لگتا ہے ۔ بنسالی فلم سازی میں کمپیوٹر کے استعمال میں بھی ماہر ہے ۔ اس فلم میں بھی اس نے اس کا بخوبی استعمال کیا ہے ۔
کانٹ چھانٹ ، مکالموں میں تبدیلی ، دوبارہ سے عکس بندی اور فلم کے نام میں تبدیلی ، فلم کے آغاز میں بہت سے ’ claimer/disclaimer ‘ ڈالنے اور واضح طور پر یہ لکھنے کے کہ اس فلم کا ماخذ 1540 ء میں لکھے گئے صوفی کوی ’ ملک محمد جے یاسی ‘ کا رزمیہ ہے ۔ اس فلم میں بہت سا مواد ایسا ہے جو اصل رزمیہ سے میل نہیں کھاتا اورساتھ ہی ساتھ نہ صرف ہندوﺅں کی دل آزاری کا سبب ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے بھی شاید قابل قبول نہیں ۔
میں ذاتی طور پر درباروں میں لکھی گئی تاریخوں کو کچھ زیادہ مصدقہ نہیں گردانتا چاہے وہ تزک بابری ہو یا اسی طرح کی اور تاریخی کتب لیکن ایک ’ ملٹی کلچرل معاشرے ‘ جس میں بھانت بھانت کی قومیتیں ہوں ، ایک غیر جانبدار کلاکارکے لئے یہ بات اہم ہونی چاہیے کہ اپنی کلا میں ایک ایسا توازن برقرار رکھے کہ عمومی طور پر کسی کی بھی دل آزاری نہ ہو ۔
عمومی طور پر تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ جب دہلی کا سلطان ’ غیاث الدین بلبن1287ء میں فوت ہوا تو دہلی کی سلطنت افراتفری اور ابتری کا شکار ہو گئی تھی ، جس پر ملک جلال الدین فیروزخلجی ( جوبعد میں جلال الدین خلجی کہلایا ) ، جو تین سالہ سطان شمس الدین کا ’ اتالیق ' تھا ، نے دہلی کا تخت 1290 ء میں خود سنبھال کر خاندان غلاماں کا دور ختم کیا تھا ۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اس نے غزنی سے دہلی پر حملہ نہیں کیا تھا ، جبکہ فلم کے آغاز سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس نے ایسا کیا تھا ۔ فلم میں ایک فرضی قتل کی کوشش بھی دکھائی گئی ہے جو علاﺅالدین خلجی کا بھتیجا کرتا ہے جبکہ ایسا تاریخ میں کہیں نہیں ہے ۔ مزید براں علاﺅالدین خلجی کو ’ ہم جنس پرست ‘ بھی دکھایا گیا ہے ۔ اور تو اور جلال الدین اور علاﺅالدین کے کردار ایسے دکھائے گئے ہیں جیسے وہ ’تہذیب یافتہ ‘ نہیں ’ بار بیرین ‘ ہوں ۔ ان کے میک اَپ اور ملبوسات بھی کچھ ایسے ہی ہیں ۔ اس کے برعکس راجپوتوں کی شان و شوکت دکھانے میں بنسالی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ دہلی سلطانوں کا جھنڈا بھی وہ سبز جھنڈا نہیں ہے جو وہ استعمال کرتے تھے ۔ ان کا جھنڈا سبز ہوتا تھا لیکن اس پر سفید ہلال کی بجائے ایک کالی پٹی ہوتی تھی جوبائیں طرف عمودی طور پر بنی ہوتی تھی ۔ جھنڈے پر ہلال کا بنانا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ بنسالی کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا کہ مسلم شناخت کھل کر سامنے آئے ۔
اب بات کرتے ہیں اس’ پدماوت ‘ رزمیہ کی جسے اس فلم کا ماخذ بتلایا گیا ہے ؛ فلم میں پدما وت کو ’ سنگھال‘ کے بادشاہ کی بیٹی دکھایا گیا ہے جبکہ وہ رزمیے میں اس کی بہن ہے اور رتن سین اسے شطرنج کی ایک بازی میں ہرا کر پدماوت کا ہاتھ جیتتا ہے ۔ فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ پدماوت اپنے شوہر کو آزاد کرانے کے لئے خود دہلی جاتی ہے جبکہ رزمیے میں ایسا نہیں ہے ، رتن سین کو بچانے کے لئے صرف اس کے وفادار ’ گورا ‘ اور ’ بادل ‘ ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ جاتے ہیں ۔ فلم میں براہمن رگھو چیتن پدماوت کے ایماں پر ریاست سے نکالا جاتا ہے جبکہ رزمیے میں وہ از خود ’ میوار‘ چھوڑ کر دہلی چلا جاتا ہے ۔ فلم میں رتن سین کو علاﺅالدین کے ہاتھوں مرتے دکھایا گیا ہے جبکہ رزمیے میں علاﺅالدین اور رتن سین کبھی ’ یک یکی‘ لڑائی نہیں لڑتے ، ہاں رزمیے میں رتن سین چتوڑ پر علاﺅالدین خلجی کے حملے سے پہلے ہی ایک ’ یک یکی‘ مقابلے میں راجہ دیول کے ہاتھوں مارا جاتا ہے ۔
اگر میں بنسالی کی اس فلم کو مجموعی طور پر دیکھوں تو بنسالی کی’ وتحسین‘ ( meticulous ) کلا کاری نے ایک اسطوری رزمیے اور تاریخ کے پنوں کو آپس میں گڈ مڈ کرکے ایک ایسی میگا فلم تخلیق کی ہے جس میں اس نے راجپوت راجاﺅں کو ُپر شکوہ ، مہذب اورعزت کی خاطر جان پر کھیل جانے والے دکھا کر جبکہ مسلمان سلطانوں کو جانگلی ، قاتل ، دوسروں کی عورتوں کو ہتھیانے والے اور ہم جنس پرست ثابت کرکے اس تعصب کو ہوا دی ہے جو پہلے ہی بھارت میں مودی کی حکومت آنے کے بعد سے زوروں پر ہے ۔
نوٹ ؛ دانشور ، دانشور ہوتا ہے اور استاد ، استاد ہی رہتا ہے ؛ جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ’ The Discovery of India ‘ میں ’ ملک محمد جے یاسی‘ کے لکھے رزمیہ کو تاریخ کے پنوں سے گڈمڈ نہیں ہونے دیا اور شیام بینیگل نے اپنی ۵۳ ایپی سوڈز پر مبنی ' بھارت ایک کھوج ' میں بھی ۲۶ ویں ایپی سوڈ جو پدماوت پر ہے، میں ' جوہر ' کے عمل کو دکھانے سے گریز کیا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔