ہندوستانی اساطیر اور اس کی پھیلی ہوئی تہہ دار جمالیات میں ’سمندر منتھن‘ تخلیق کا کلاسیکی امیج ہے کہ جس کی مثال اساطیر کی دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔
ابتدا میں ہر طرف انتشار تھا۔
زبردست انتشار۔
انتشار سے پر اس سے پہلے سمندر کا منتھن ضروری ہے تاکہ زندگی اور اس کے جلوؤں کا ظہور ہو، منتھن سے ’امرت‘ نکلے، اس امرت کو پی کر زندگی ہمیشہ قائم رہے، انسان امر ہو جائے اس کی زندگی امر ہو جائے۔ دیوتا امر ہو جائیں سب امر ہو جائیں۔ منتھن ایک انتہائی خوبصورت زندگی کی تخلیق اور اس کے ارتقا کے لیے ہے، ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہے۔
عفریتوں اور بھوت پریتوں کی بھی تمنّا ہے کہ ’منتھن‘ کے بعد جو ’امرت‘ نکلے اس میں اُن کا بھی حصہ ہو۔
لہٰذا تمام دیوتا اور تمام عفریت اور بھوت پریت مل کر ’پہلے سمندر‘ کا منتھن کرتے ہیں۔ ’پہلے سمندر کے پانی‘ ہی سے اکسیرِ حیات (Elixirs of ife)کے مختلف اقسام کا جنم ہوتا ہے۔ نمک، دودھ، مکھن، گنے ّ کارس، شراب، سوم رس/ امرت جو زہر نکلتا ہے اسے دیکھ کر سب پریشان ہو جاتے ہیں، زہر کون پئے گا؟ شیو زہر پیتے ہیں، زندگی کے سمندر کا سارا زہر، انسان کے لیے اس کی زندگی اور اس کے مستقبل اور اس کے جنم جنم کی مسرتوں اور خوشیوں کے لیے، زہر پینے سے اُن کا حلق نیلا ہو جاتا ہے اسی لیے وہ ’نیل کنٹھ‘ کہے جاتے ہیں۔ منتھن کرتے ہوئے دیوتاؤں اور عفریتوں اور بھوت پریتوں کے درمیان اختلاف ہو جاتا ہے، عفریت اکسیرِ حیات پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، زہر میں حصّہ داری پسند نہیں کرتے، ’برہما‘ فیصلہ تو کرتے ہیں لیکن دیوتاؤں اور عفریتوں کے درمیان شدید اختلاف موجود رہتا ہے۔ ابتدا سے جو اختلاف رہا وہ موجود رہا اور ہمیشہ موجود رہے گا۔
یہ معنی خیز اساطیری کہانی ’پہلے ‘ سمندر کی سطح پر ایک ڈراما اسٹیج کرتی ہے جس کی تہہ دار معنویت اپنے حسن سے متاثر کرتی ہے۔ تخلیقی عمل میں تاریکی اور روشنی، خوبصورتی اور بدصورتی اور اچھے اور برے کی شناخت علیحدہ ہوتی ہے۔ یہ دراصل آئندہ زندگی کے ارتقا میں قدروں کی پہچان ہے۔ دو پہاڑ ہیں ایک سیاہ ہے اور دوسرا صاف ستھرا، دو ناگ ہیں ایک بھلا دوسرا ڈسنے والا، بارش دو بار ہوتی ہے، ایک سے رونق آتی ہے دوسری بارش سے تباہی ہوتی ہے۔ دیکھئے انسان کا تخیل کہاں پہنچاہے اور کیسی ’bسی‘ پیدا ہوئی ہے۔ منتھن کرتے ہوئے جہاں رقص اور آنے والی زندگی کے رقص کا خوبصورت تاثر ملتا رہتا ہے وہاں ’پتھوس‘ (Pathos) کی دبی دبی سی لہروں کا بھی احساس ملتا رہتا ہے۔ اس اساطیری کہانی میں فکشن ’bسی‘ بن جاتا ہے اور ’bسی‘ اپنے جلال و جمال کو لیے فکشن!
سمندر منتھن کی یہ کہانی مختلف عہد میں مختلف انداز سے پیش کی گئی ہے۔ ’وایوپران‘ (Vayu Puana) (350 A.D.) میں یہ اساطیری کہانی اس طرح درج ہے:
’’جانے کتنا وقت گزر گیا، ’ست یگ‘ (Sata Yuga) کا زمانہ تھا، وشِسٹھ رشی شیو اور پاروتی کے بیٹے کارتک کے پاس آئے، ان کی عبادت کی، پھر کہا آپ مجھے یہ بتائیں گے کہ شیو کا کنٹھ نیلا کیوں ہو گیا؟‘‘
کارتک نے جواب دیا ’’مجھے مکمل جانکاری نہیں ہے البتہ اپنی ماں پاروتی کی گود میں بیٹھ کر جو سنا ہے آپ کو بتائے دیتا ہوں، آگے بولے ’ایک بار میری ماں پاروتی نے شیو جی سے دریافت کیا آپ کا کنٹھ نیلا کیوں ہو گیا؟‘‘ شیو جی نے کہا تمام دیوتا اور بھوت پریت سمندر کا منتھن کر رہے تھے تاکہ انھیں زندگی کا وہ امرت مل جائے جس سے اُن کی زندگی لافانی بن جائے۔ ابھی منتھن شروع ہی ہوا تھا کہ سمندر سے وہ زہر نکل آیا کہ جس سے سب ختم ہو جاتے، کائنات گم ہو جاتی۔ سب برہما کے پاس پہنچے کہا ’’منتھن کرتے ہوئے جو زہر نکلا ہے اس سے سب کچھ تباہ ہو جائے گا، کائنات ختم ہو جائے گی۔‘‘ اس زہر کا نام ’کالا کوتا‘ (Kaakuta) تھا۔ برہما نے کہا حفاظت کی بس ایک ہی صورت ہے شیو کو یاد کرو، وہی تحفظ کر سکتے ہیں۔ سب نے شیو کی عبادت کی، شیو نے وہ زہر پی لیا اور زندگی بچ گئی، تب سے شیو کا کنٹھ نیلا ہے، تب ہی سے اُنھیں ’نیل کنٹھ‘ کہا جاتا ہے۔ ۱ ہے ا
یہی کہانی ’براہ منڈا پران‘ (Brahmanda Puran) (350-95A.D) میں ملتی ہے۔ ’مہابھارت‘ (300B.C.-A.D.300) میں یہ اساطیری کہانی زیادہ مفصل اور چمکدار اور روشن ہے۔ ایک چمکتا ہوا خوبصورت پہاڑہے کہ جس کا نام ’میرو‘ (Meru) ہے۔ اس کی بے پناہ تو انائی سے اس کی چوٹیاں سونے کی مانند چمک رہی ہیں۔ سورج کی روشنی بھی اس کے سامنے ماند ہے۔ یہاں دیوتا اور گندھروا سب آتے ہیں۔ اور ماحول کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جنگلی جانور اس پہاڑ کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ ہر جانب جاذبِ نظر جھر نے اور درخت ہیں، پرندوں کے نغمے گونجتے رہتے ہیں، سحر انگیز ماحول میں دیوتا جس چیز کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں وہ چیز سامنے آ جاتی ہے۔ ایک روز دیوتاؤں کا موضوع وہ ’امرت‘ بن گیا کہ جو سمندر کے اندر ہے اور منتھن کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ نارائن دیوتا نے برہما سے کہا کیا اچھا ہو جب دیوتا اور بھوت پریت تمام عفریت پہلے سمندر کا منتھن کریں اور ’امرت‘ حاصل کر لیں۔ اس امرت کو پی لینے کے بعد سب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ایک خوبصورت پہاڑی ہے ’مندارا‘ (Mandara) اس کے حسن کی کوئی مثال نہیں ہے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ سمندر منتھن کے لیے اسی پہاڑ کو اُکھاڑا جائے اور اسے استعمال کیا جائے۔ دیوتاؤں اور عفریتوں نے بڑی کوشش کی پہاڑ ٹس سے مس نہ ہوا، سب تھک ہار گئے تو برہما نے ’اننت ناگ‘ (سانپ) کو حکم دیا کہ وہ اس پہاڑ کو اُکھاڑے تاکہ اس کی مدد سے پہلے سمندر کا منتھن ہو سکے۔ اننت ناگ نے اس مضبوط پہاڑ کو اُکھاڑ دیا جو دیوتاؤں اور عفریتوں کے لیے بہت بڑا سہارا بن گیا۔ دیوتا اور عفریت سمندر کے پاس آئے مقصد بتایا تو سمندر کے دیوتا نے کہا منتھن ضرور کیجیے، لیکن امرت میں میرا حصہ بھی ہونا چاہیے۔ کچھوے کے راجا کی پیٹھ پر پہاڑ کا بوجھ رکھا گیا، اِندر دیوتا نے پہاڑ کے ایک حصّے کو اپنے اوپر رکھ لیا اسے اچھی طرح باندھ لیا۔ مندارا پہاڑ منتھن کر نے کا ڈنڈا بن گیا، ’واسوکی سانپ‘ (Vasuki) رسّی بن گیا۔۔۔ اور منتھن شروع ہو گیا۔ ’امرت‘ کی تلاش شروع ہو گئی۔
کہانی میں منتھن کے پورے عمل کو دکھایا گیا ہے۔ کون کیا کر رہا ہے، کس نے سانپ کی دُم پکڑ رکھی ہے کس نے سانپ کو زور سے گھمایا ہے۔ ’واسوکی‘ کے منہ سے جو آگ نکلتی ہے اور اس کے ساتھ جو دھواں پھیلتا ہے اس کا ردِّ عمل کیا ہوتا ہے۔ کس طرح بادل آ جاتے ہیں، کس طرح بجلیاں چمکتی ہیں اور کس انداز سے بارش ہوتی ہے۔ کس طرح پہاڑ کے پھول پودوں سے ماحول خوبصورت بنا ہوا ہے، کس طرح پھول دیوتاؤں کے اوپر برس رہے ہیں۔ دیوتاؤں اور عفریتوں پر پھولوں کی بارش کس طرح ہو رہی ہے، مندارا کے پہاڑ کو سمندر میں کس طرح گھمایا جا رہا ہے۔
صاف پانی آتا ہے پھر نمک پھر دودھ، اس کے بعد مکھن، پھر گنے ّ کا رس، شراب، زہر امرت، سوم۔
عجیب ’bسی‘ ہے، انسانی تخیل کی پرواز اپنی مثال آپ ہے۔ زندگی اور خوبصورت زندگی کے لیے بڑا معنی خیز رقص ہو رہا ہے جیسے!
شیو زہر پی جاتے ہیں، حلق ہمیشہ کے لیے نیلا ہو جاتا ہے!
امرت کے نکلتے ہی عفریت چیخ پڑتے ہیں ’’اس پر صرف ہمارا حق ہے۔‘‘
نارائن دیوتا موہنی کا رُوپ اختیار کر لیتے ہیں اور عفریتوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک خوبصورت عورت کو دیکھ کر سب دیوانے ہو جاتے ہیں۔
دیوتا امرت پی لیتے ہیں۔
’امرت‘ کی چوری کی ایک کہانی بھی موجود ہے۔
مشہور شاعر ایٹس (Yeats) بھی اس کہانی سے متاثر ہوا تھا۔
کائنات کی تخلیق کے تعلق سے ’برہمانڈ‘ کا ذکر پچھلے صفحات میں آ چکا ہے۔ ’کرما پران‘ (Kurma Puran) (550-850 A.D.)، ’برہما پران‘ (Brahama Puran) (950-1350 A.D.)، ’برمّاویوارت پران‘ (Brammavaivarta Puran) (750-1550 A.D)، ’وراہا پران‘ (Varaha Puran) (750 A.D) اور ’مارکنڈیہ پران‘ (Markandeya Puran) (250 A.D) میں بھی اس کا ذکر ہے۔ بیان کر نے کا انداز مختلف ہے لیکن قصہ وہی ہے۔
’کرماپران‘ میں تخلیقِ کائنات کی کہانی اس طرح پیش ہوئی ہے:
ابتدامیں ’برہما‘ ہی تھا، ہر جانب وہی تھا۔
اس کی کوئی صورت نہیں تھی۔
اس کی کوئی ابتدا تھی اور نہ انتہا، نہ اختتام۔
اس سے پہلے کہ تخلیق کا سلسلہ شروع ہو،
برہما نے ساری کائنات میں پانی پیدا کیا، ہر طرف پانی اور صرف پانی
اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا۔
اسی پانی میں سونے کا ایک انڈا ظہور پذیر ہوا۔
سونے کا یہ انڈا آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔
’برہما‘ اس کے اندر تھے۔
اور وہ ساری چیزیں، تمام اشیا و عناصر، کائنات کی ہر شے اس کے اندر تھی، اسی کے اندر تھے تمام دیوتا، تمام بھوت پریت، عفریت، تمام انسان، سورج، چاند، ستارے تمام سیّارے۔
ہر جانب کی ہوائیں۔
’برہما‘ کو ہیرنیا گربھ‘ (Hiranya Garbha) بھی کہتے ہیں اس لیے کہ ان ہی کے پیٹ (گربھ) سے ہر شے وجود میں آئی۔
’برہما‘ کی چار صورتیں تھیں۔
اُنھیں ’آج‘ (Aja) کہتے ہیں یعنی جنم کے بغیر۔
چونکہ خود کو خلق کیا اس لیے وہ ’ بھو‘ (Bhuva) بھی کہے گئے یعنی ’سوئم بھو‘ خود جنم لیا۔
یہی وجہ ہے انھیں ’سوائم بھو‘ بھی کہتے ہیں، وہ سب کے (پرجا) کے پتی ہیں۔ اُن کو ’پرجاپتی‘ اسی لیے تو کہتے ہیں۔
تخلیق کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
’برہما‘ نے اپنے وجود کی تو انائی اور شکتی سے پانچ بیٹوں کو پیدا کیا وہ پانچوں رشی بن گئے۔
پھر افراد کو جنم دینا شروع کیا۔۔۔ اور آبادی بڑھتی گئی۔
برہما نے شیو سے کہا ’’اب تم تخلیق کا سلسلہ شروع کرو۔‘‘
شیو نے اپنی ہی شکل کے چھوٹے چھوٹے دیوتا پیدا کرنا شروع کر دیا۔
برہما نے کہا ’’یہ تم کیا کر رہے ہو، دیوتا نہیں چاہیے انسان چاہیے انسان جو دُکھ اور اذیت اُٹھاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔
شیو نے معذرت کرتے ہوئے کہا ’’بیماری اور موت دونوں مجھے ناپسند ہیں لہٰذا میں ایسے انسان پیدا کرنا نہیں چاہتا جو ضعیف ہو جائیں اور مر جائیں اور پھر برہما نے تخلیق کا عمل شروع کیا، پانی، آگ، آسمان، جنت، ہَوا، دریا، پہاڑ، سمندر، درخت، جڑی بوٹی سب پیدا ہوئے اور آخر میں ’وقت‘ کا جنم ہوا۔
اس کے بعد دیوتا، عفریت اور انسان کی تخلیق کی۔ عفریت کی پیدائش برہما کی جانگھ سے ہوئی، دیوتا منہ سے پیدا ہوئے، اس کے بعد ناگ سانپ (سرپا) یا کشا (چھوٹے دیوتا) بھوت پریت (بھوت) اور گندھروا آئے۔ گائے، گھوڑے، ہاتھی، ّخچر، ہرن، اونٹ اور دوا علاج کے لیے جڑی بوٹیاں۔۔۔ سب نے جنم لیا۔ ۱
ویدوں میں جو اس بات کا ذکر ہے کہ ’پرش‘ (انسان) کے ایک ہزار سر تھے، ایک ہزار آنکھیں اور ایک ہزار پیر، اس سے غالباً یہ بتانا مقصود تھا کہ بہت سے انسان پیدا ہوئے۔ ’برہما پران‘ میں یہ کہا گیا ہے کہ شروع میں ہر طرف صرف پانی ہی پانی تھا، برہما وِشنو کی صورت پانی پر لیٹے ہوئے تھے، (نارا = پانی۔ ئن = بستر) وِشنو کو نارائن کہا جاتا ہے۔ برہما نے ایک ’پرش‘ اور ایک ’ناری‘ کو جنم دیا، ’پرش‘ مانو (Manu) تھا اس لیے آنے والی نسلیں ’مانوا‘ (Manava) کہی گئیں۔ ’برہما پران‘ میں تخلیق کے سلسلے کی ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ دور تک یہ قصّہ ختم ہونے کو دِکھائی نہیں دیتا۔
وِشنو (Vishnu) ہندوستانی اساطیر اور اس کی رومانیت اور جمالیات کا ایک بہت ہی اہم معنی خیز استعارہ ہیں۔ وہ اننت (ایسا سانپ کہ جن کا انت نہ ہو) پر سمندر کے اوپر سوئے ہوئے ملتے ہیں۔ اچانک ان کی ناف کے اوپر ایک بہت بڑا کنول کا پھول کھلتا ہے، اس میں ایسی روشنی ہے کہ سورج کو بھی شرمندہ کر دے۔ ’کرما پران‘ کے مطابق کنول کی خوشبو ہر جانب پھیلی لیکن وِشنو اسی طرح سوئے رہے۔ کنول کے اندر برہما تھے، (پدم= کنول/ یونی = پیدائش کا مقام- یہی وجہ ہے کہ برہما کو ’پدم یونی‘ کہتے ہیں ) برہما نے وِشنو کو جگایا پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘ ’’وِشنو، میں وِشنو ہوں۔‘‘ جواب ملا۔ ’’ہر شے کی ابتدا مجھ سے ہوئی ہے۔ لیکن تم کون ہو؟‘‘ وِشنو نے دریافت کیا۔ ’’میں برہما ہوں، خالقِ کائنات۔ کائنات کی ہر چیز میرے وجود کے اندر ہے۔ جو بھی شئے جنم لے گی وہ میرے اندر موجود ہے۔‘‘ ۔۔ ’’کیا واقعی؟‘‘ وِشنو نے حیرت سے دریافت کیا ’’میں دیکھنا چا ہوں گا‘‘ اور اس کے بعد وِشنو برہما کے اندر داخل ہو گئے، وہاں تین دنیاؤں کی سیر کی، وہاں دیوتا تھے، بھوت تھے، انسان تھے۔ وِشنو یہ سب دیکھ کر برہما کے منہ سے باہر آ گئے، اُنھیں سخت حیرت ہوئی یہ سب دیکھ کر۔
’’بلاشبہ جو دیکھا حیرت انگیز ہے‘‘ وِشنو نے کہا۔ ’’لیکن میں بھی تمھیں اپنے اندر بہت کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔ تم میرے اندر آ جاؤ۔‘‘ برہما وِشنو کے جسم میں داخل ہو گئے۔ اتنی بڑی دنیا، تین دنیاؤں کی ایک دنیا، برہما اندر کی دنیا کی وسعت کا اندازہ نہیں کر سکے۔ چلے تو گئے اندر لیکن نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آئی۔ بڑی مشکل سے وِشنو کی ناف سے نکلے، کنول کے اتنے بڑے پھول کے اندر بیٹھے ہوئے!!
وِشنو کا ’آرچ ٹائپ‘ (کن معنی خیز رشتے کا احساس دیتا ہے۔ خواب اور ’bسی‘ کے حسن و جمال کے درمیان اُبھرتا ہوا یہ حسی پیکر لاشعور کی گہرائیوں (Depths) کا احساس بخشتا ہے۔ ’آرچ ٹائپس‘ کے پیشِ نظر نفسی کلیت (Psycho Totality) کا جب بھی مطالعہ ہو گا وِشنو کا آرچ ٹائپ ’سائیکی‘ کی کیفیتوں اور اپنے جمالیاتی مظاہر کو لیے توجہ کا مرکز بنے گا۔ ’وِشنو پران‘ کی تدوین کے وقت تک وِشنو کے تعلّق سے جانے کتنی کہانیاں وجود میں آ چکی تھیں۔ اس پران میں مختلف قسم کی کئی کہانیاں موجود ہیں کہ جس طرح دوسرے پرانوں میں بعض دوسرے دیوتاؤں کی کہانیاں ہیں، کہانی سے کہانی پیدا ہوتی گئی ہے۔
’وِشنو‘ لاشعور کی وادی کی بڑی خوبصورت اور معنی خیز علامت ہیں، تخلیق سے قبل کی پراسرار خاموشی وِشنو کے پیکر میں ڈھل گئی ہے۔ وہ اکثر اپنی ذات میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں، اپنے باطن کی گہرائیوں میں اُترے ہوئے۔۔۔ لاشعور اور ’سائیکی‘ کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سمندر، لاشعور کی پُر اسرار گہرا ئیوں کا علامیہ ہے جو وِشنو کا مسکن ہے۔
زندگی کی بڑی نعمتوں کا شعور ان ہی سے حاصل ہوتا ہے، تاریک ’سائیکی‘ پر قیمتی روشن ذرّات کو پانے کا ذریعہ وہی ہیں۔ یہ ’آرچ ٹائپ‘ زندگی کے معجزوں کا سرچشمہ بنا متاثر کرتا رہتا ہے۔ پانی یا سمندر ایک انتہائی پُر اسرار اور حد درجہ دلچسپ اور اَنگنت جہتوں والا ’آرچ ٹائپ‘ ہے، وِشنو کا پیکر اس کا ایسا علامیہ ہے کہ شعور اور لاشعور دونوں کے عمل اور ردِّ عمل کی پہچان ہونے لگتی ہے۔ یہ ’آرچ ٹائپ‘ تخلیقی عمل کی پُر اسرار کیفیتوں کو بھی سمجھاتا ہے اور زندگی کے جلال و جمال سے آشنا کرتا رہتا ہے۔
وِشنو نسلی شعور (Co ective Consciousness) کے بے پناہ بہاؤ کو پیش کرتے ہیں۔ ایک تمثیل کے مطابق جب کائنات تباہ ہو رہی تھی فنائے کامل کی منزل پر تھی تو تمام مادّی عناصر ایک اور صرف ایک سمندر میں جذب ہو گئے تھے اور وہاں اننت ناگ کے اوپر وِشنو لیٹے ہوئے تھے، وِشنو ہی سمندر تھے اس لیے کہ تمام عناصر کے جذب ہو جانے کے بعد پھیلے ہوئے بے پناہ گہرے سمندر کے کچھ اور نہ تھا، کسی شے کی انفرادیت نہیں تھی، شعور ہی گم ہو چکا تھا، سمندر خود میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ غرق تھا، دوپریت یا آسیب آئے جنھوں نے وِشنو سے لڑناl چاہا، وہ اسی طرح لیٹے رہے گم سُم، جب ان دونوں نے وِشنو کو للکارا تو اُنھوں نے لفظوں کی ایک خوبصورت دُنیا خلق کر دی، وہ اپنی اسی کیفیت میں ڈوبے رہے، الفاظ سمندر کی لہروں کی مانند ان دونوں سے ٹکراتے رہے، داخلی کلام کا ایک سلسلہ تھا جو جاری تھا۔ ہر لفظ طاقتور تھا، تو انائی سے بھرپور یہ الفاظ غیر معمولی انرجی کے مالک تھے، پُر وقار ذہنی، تعلقی اور صوتی عمل سے دونوں کی شکست ہوئی لیکن ہمہ گیر لاشعور کے اس تحرک سے زمین کا بوجھ بڑھ گیا، لفظوں کی تو انائی یا انرجی میں احساس اور جذبے کی شعاعیں جذب تھیں، لفظوں کے آہنگ کا حسن غیر معمولی نوعیت کا تھا، الفاظ اور آہنگ گہرائیوں کی نعمتیں ہیں۔ بے پناہ تجربوں کی گہرائیوں کا علامیہ، باطن اور پھیلے ہوئے لاشعور کی طاقتوں کا مظہر! شعور یہ سمجھتا ہے کہ بلندیوں کا شعور حاصل ہونا چاہیے۔ تمام رحمتیں بلندیوں سے حاصل ہوتی ہیں اس کے برعکس لاشعور (وِشنو) اس سچائی کو واضح کرتا ہے کہ تمام عظمتوں اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ نیچے ہے باطن میں ہے۔
’پانی‘ مادّہ کی سیّال صورت ہے جسے چھوا جا سکتا ہے محسوس کیا جا سکتا ہے، اس سے بہتے ہوئے لہو کا تصوّر وابستہ ہے، یونگ نے کہا ہے کہ یہ لاشعور کی علامت ہے اور لاشعور وہ ’سائیکی‘ ہے جو نیچے کی طرف جاتی ہے، گہرائیوں میں۔۔۔ اور زندگی کے توازن کو برقرار رکھتی ہے۔ وِشنو زندگی کے توازن کو اس کے تمام حسن و جمال کے ساتھ قائم رکھتے ہیں، یہاں ذات یا خودی علیحدہ ہو جاتی ہے اور پراسرار سطحیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جن سے داخلی زندگی کا علم حاصل ہوتا رہتا ہے اور اس طرح ذہنی عمل اعلیٰ سطح پر پہنچ جاتا ہے۔
وِشنو کے تعلق سے ایک بڑی خوبصورت تمثیل ہے جس میں اس ’آرچ ٹائپ‘ کی جمالیاتی جہات نمایاں ہوتی ہیں۔ وِشنو کے سامنے کسی ملکوتی ساحرہ کا ایک ہاتھ آگے بڑھا وہ چونک پڑے۔ یہ اُن کے جمالیاتی تخیل کا حیرت انگیز پیکر تھا۔ فوراً ہی اُنھوں نے آم کے میٹھے لذیذ رس سے اپنی جانگھ پر ایک دو شیزہ کی تصویر بنائی۔ اس تصویر میں ان کے تخیل کا رس ایسا تھا کہ وہ ایک حسین ترین دوشیزہ کی صورت سامنے کھڑی ہو گئی۔ اُنھوں نے اُسے ’ارویشی‘ کہا، ارویشی کے معنی ہیں جو جانگھ میں رچی بسی ہو اور اسی سے مصوّری کے فن نے جنم لیا۔ وِشنو کا آرچ ٹائپ مصوّری کی لکیروں، رنگوں اور مصوّری کے آہنگ سے آشنا کرتا ہے۔ عورت کا جمال، اس کا وجود، آم کے میٹھے رسوں سے بھرا بھرا۔۔۔ جمالیاتی انبساط اور لذتیت سے آشنا کرتا ہے۔ یہ ’آرچ ٹائپ‘ غیر معمولی جمالیاتی مظاہر لیے ہوئے ہے۔ پہلی تمثیل میں دو پریت یا آسیب اور وِشنو کے لفظوں کی دنیا کے تصادم میں پہلی بار ڈراما کا وجود عمل میں آتا دِکھائی دیتا ہے، یہ ’آرچ ٹائپ‘ ڈراما اور مصوّری اور لفظوں کی تو انائی کے تئیں بیدار کر دیتا ہے۔
پہلی تمثیل میں وِشنو ڈراما کے فن کے پہلے خالق نظر آتے ہیں۔
اور دوسری تمثیل میں مصوّری کے پہلے خالق!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...