’لیکن سر! یہ کس طرح ممکن ہے؟
میں اپنے سولہ لاکھ جوانوں اور افسروں کو بیک جنبشِ قلم کس طرح فارغ کر سکتا ہوں اوروہ کہاں جائیں گے؟‘‘
’یہ مسئلے کا دوسرا پہلو ہے۔ اس کی طرف ہم بعد میںآئیں گے۔ پہلے اصولی طور پر ہم اصل مسئلہ طے کر لیں۔ بھارت کو فوج کی اور اتنی بڑی فوج کی۔ ضرورت نہیں!‘۔
’سر!، آپ کیمبرج سے پی ایچ ڈی ہیں۔ آپ نے دنیا کی معروف یونیورسٹیوں میں پڑھایا بھی ہے، آپ وزیر خزانہ کے طور پر بھی کامیاب رہے ہیں، لیکن معاف کیجئے عسکری معاملات میں آپ کا علم ہے، نہ تجربہ، ہمیں پاکستان جیسے دشمن کا سامنا ہے۔ آپ کو پاکستان کی مسلح افواج کی شہرت کا علم ضرور ہوگا۔ یہ بہت خطرناک فوج ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اسکے مقابلے کی فوج نہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو فوج کی ضرورت نہیں!‘۔
پھر، آپکو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت ہے۔ یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں ان کی آج بھی دلی لکھنو حیدرآباد اور پٹنہ پر نظرر ہے اور یہ ان تمام علاقوں کو اپنی میراث سمجھتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔
سر! مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ یہ درست ہے کہ آپ حکومت کے سربراہ ہیں آپ کا فیصلہ میرے نکتۂ نظر کو رد کر سکتا ہے۔ یہ آپ کا اختیار ہے۔ آپ کی صوابدید ہے لیکن مجھے اتنا حق تو دیجئے کہ میں اختلاف کر سکوں!‘۔
وزیراعظم نے اپنے سر پر پگڑی درست کی۔
عینک کو ناک کے اوپر سے دبایا اور مخاطب ہو کر جواب دیا۔
’میں آپکے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فوج ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ہم پاکستان کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کی فوج اس ادارے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی فوج کے پاس ایٹمی طاقت ہے لیکن جرنیل صاحب! ملک پر فوج کی حکومت نہیں ہوتی۔ ملکوں کو فوجیں نہیں بچاتیں۔ ملک ایٹم بم سے نہیں بچتے۔
’جناب! میں آپ کی بات سمجھا نہیں لگتا ہے آپ حالاتِ حاضرہ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ پاکستان کے عوامی نمائندوں نے الیکشن کمیشن کو اپنے اثاثوں کی تفصیلات مہیا کی ہیں۔ ایک سو کے قریب ایم این اے ایسے ہیں جن کے پاس کاریں نہیں ہیں اور جن کے پاس ہیں انکے ماڈل پرانے اور غریب ہیں مثلاً 1973ء ماڈل کی کرولا، 1968ء کی فاکس ویگن، ہونڈا 70 موٹر سائیکل، پورے ملک کو معلوم ہے کہ یہ سارے ایم این اے بیش بہا جگمگاتی چمکتی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ اگر یہ گاڑیاں انکی اپنی نہیں ہیں تو کن لوگوں کی ہیں؟ان کے پاس کیسے آئیں؟ ان لوگوں نے انہیں کیوں دیں؟ اور اگر انکی اپنی ہیں تو دوسروں کے نام پر کیوں ہیں؟ اگر اثاثے صداقت پر مبنی ہیں تو گاڑیاں کہاں سے آئیں؟ اور اگر گاڑیاں اپنی ہیں تو حقائق کیوں چھپائے گئے؟‘۔
جس ملک کے عوامی نمائندے، قانون ساز ادارے کے ارکان، اخلاقی عظمت کی اس بلندی پر فائز ہوں جس ملک کے عوامی نمائندوں کی سوچ کا معیار یہ ہو کہ کبھی وہ مطالبہ کریں کہ جم خانہ کی رکنیت انکی جھولیوں میں ڈال دی جائے، کبھی مطالبہ کریں کہ ہمیں دارالحکومت میں سرکاری پلاٹ اور سرکاری ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا کر دی جائیں اور جس ملک کے عوامی نمائندے صرف اس وقت متحد ہوتے ہیں جب مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو، جس ملک کے وزیر نے دنیا کے گراں ترین شہر میں کروڑوں روپوں کا گھر خریدا ہو اور کوئی اس سے پوچھنے کی جرات نہ کرسکے، جس ملک میں سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے کہ اتنے سرکاری مکان فلاں فلاں عمائدین اور امراء کی سفارشوں کی بنیاد الاٹ کئے گئے ہیں اور یہ بھی بتا دیا جائے کہ سفارش کرنے والوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں، جس ملک کا سفیر، بیرون ملک چلنے والے سرکاری تعلیمی ادارے میں کام کرنے والوں کو بیک بینی دوگوش نکال دے اور اوپر سے نیچے تک۔ پرنسپل سے لے کر کلرک تک اپنے قریبی رشتہ داروں کی بھاری تعداد میں کئی گنا زیادہ تنخواہوں پر تقرریاں کر دے اور کوئی اس کا بال نہ بیکا کر سکے۔ اس ملک کو نقصان پہنچانے کے لئے تمہاری اور تمہاری فوج کی کیا ضرورت ہے؟ اور ہم بھارتی عوام کے خون پسینے کی کمائی تم پر کیوں خرچ کریں؟‘‘۔
جرنیل سن رہا تھا اور دم بخود تھا۔ کھدّر کے کپڑوں میں ملبوس، وزیراعظم نے اپنی بات جاری رکھی۔
تم اگر اس غلط فہمی میں ہو کہ 1971ء میں پاکستان کو دولخت تمہاری فوج نے کیا تھا تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ پاکستان کو بھارتی فوج کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جن لوگوں نے تم پر اور تمہاری فوجوں پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے، تمہاری فوج اگر چار گنا بڑھ جائے، تو بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہ تو ان کی اپنی پالیسیاں تھیں جن سے مشرقی پاکستان کے عوام ناراض تھے۔ یہ تو مغربی پاکستان کا جاگیردارانہ ڈھانچہ تھا جو مشرقی پاکستان کے تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس عوامی نمائندوں کیساتھ چل نہیں سکا۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لوگ متحد ہوتے اور یک جان دو قالب ہوتے تو تمہاری افواجِ قاہرہ قیامت تک ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتیں! تم اس دن سے پناہ مانگو جب پاکستان کی اسمبلیوں میں سچ بولنے والے بیٹھے ہونگے۔ جن کے اثاثے انکے بیانات کے عین مطابق ہوں گے اورغلط بیانات دیکر اصل اثاثوں کو چھپانے والے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہونگے۔ تم اس دن سے ڈرو جس دن کسی پاکستانی سیاست دان کا کاروبار، محلات، فلیٹ، کارخانے، بیرون ملک نہیں ہونگے۔ اور وہ عام گھروں میں عام لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہونگے۔ جس دن اعلیٰ ملازمتیں اس بنیاد پر نہیں دی جائیں گی کہ کون کس شہر سے تعلق رکھتا ہے اور کون کس کا دوست ہے۔ جس دن مارشل لاء کے تلوے چاٹنے والے عوام کی نفرت سے خوار زبوں ہوچکے ہونگے اور وہ لوگ حکومت کر رہے ہونگے جن کا ظاہر اور باطن اندر اور باہر قول اور فعل یکساں ہونگے۔
’لیکن سر! کیا ایسا ہوگا؟ کیا یہ ممکن ہے؟‘‘
’احمق انسان! ایسا ہو کر رہے گا۔ پاکستان کروٹ لے رہا ہے۔ میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جب پاکستان میں جھوٹ کو چھپنے کیلئے جائے پناہ نہیں ملے گی اور نفاق کی دھجیاں اڑ رہی ہوں گی! اگر ایسا ہوا اور ایسا ہونا ہے، تو میں نہیں سمجھتا تمہاری سولہ لاکھ فوج کی پرورش کا جواز کیا ہے؟