منور رانا موجودہ دور کے ایک ایسے عوامی شاعر تھے جنھوں نے اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے سماجی تناظر،مسائل،اور انسانی نفسیات کو اپنے کلام میں ڈھال کر پیش کیا۔ان کی شاعری احساسات و جذبات سے لبریز نظر آتی ہے۔انھوںنے اپنی شاعری میں ہندی اور انگریزی لفظوں کو بھی بڑی خوب صورتی کے ساتھ برتا ہے۔جو عصر حاضر کی حسیت کے ترجمان بن جاتے ہیں۔چونکہ ہر لفظ اپنے عہد کے مجموعی معاشرے کے تجربات و احساسات کا عکاس ہوتا ہے۔لہٰذا اس کے توسط سے ادا ہونے والے مفہوم و معانی قاری کو اس کے سحر میں قید کر لیتے ہیں۔منور رانا کی شاعری میں یہی خوبی جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ان کی شاعری میں عہدِ حاضر کے انسان کی حقیقی نفسیاتی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ایک ایسا انسان جو ہمارے درمیان ہے سماج کا حصہ ہے اور زمانے کی ستم ظریفی اور حالات کا مارا ہوا ہے۔در اصل منور رانانے جو تجربات حاصل کئے اور جومشاہدہ اپنے گردو پیش اور اپنی ذات میں محسوس کیا ان ہی کو اپنی شاعری میں بغیرکسی تردّد کے پیش کر دیا ۔انھوں نے اس سماج کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے جس میں انھوں نے زندگی گزاری۔
ادبی نقطۂ نظر سے ناقدینِ ادب ان کے بارے میں کیا خیال اور تصور رکھتے ہیںیہ بحث اپنی جگہ ہے لیکن نظیرؔ اکبرآبادی کی طرح وہ بھی عصرِ حاضر ایک بڑے عوامی شاعر ہیں۔ان کی شاعری کا مخصوص انداز اپنے اندر وہ تاثیر رکھتا ہے جس کو پڑھنے کے بعدایک حساس قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جب ہم منور رانا کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں توان کی شاعری میں جگہ جگہ عصری حسیت اور انسانی نفسیات کی بھر پور ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے۔انھوں نے زندگی اور اس سے متعلق مسائل کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔عصر حاضر کی شاعری میں گھر ایک اہم علامت کے طور پر ابھرا ہے۔انسان کی زندگی کے تقاضوں میں گھر کی تعمیرایک اہم مسئلہ ہے۔ وہ پوری زندگی ایک آشیانہ بنانے میں صرف کر دیتا ہے۔در بدر مارا مارا پھرتا ہے۔منور رانا کی شاعری میںبھی ’’گھر ‘‘ایک مخصوص رنگ میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔اشعار ملاحظہ کریں:
زندگی تو کب تلک در در پھرائے گی ہمیں
ٹوٹا پھوٹا ہی سہی گھر بار ہونا چاہئے
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
کبھی اے خوش نصیبی میرے گھر کا رخ بھی کر لیتی
ادھر پہنچی ادھر پہنچی یہاں آئی وہاں آئی
صرف بچوں کی محبت نے قدم روک لیے
ورنہ آسان تھا میرے لیے بے گھر ہونا
صرف تاریخ بتانے کے لیے زندہ ہوں
اب مرا گھر میں بھی ہونا ہے کلنڈر ہونا
پہلے شعرمیں منور رانا ایک خانہ بدوش غریب و مفلس انسان کی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جو دردر مارا مارا پھر رہا ہے۔جس کا کوئی چاہنے والا نہیں ہے۔نہ کوئی اس کو سہارا دے رہا ہے۔نہ کہں اس کو سر چھپانے کا آسرا مل رہا ہے۔اس کو محلوں میں رہنے کی تمنا نہیں۔وہ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان کا خواہش مند ہے۔تاکہ اس کی شناخت بھی سماج میں بن سکے۔دراصل گھر کا ہونا انسان کے وجود اوراس کی شناخت کا ضامن ہے۔کیوں کہ گھر سے ہی سماج میں اس کا مقام قائم ہوتا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے،سماج میں اس کی کیا حیثیت ہے۔وہ لوگ جن کا کوئی مکان نہیںاس کو سماج کسی خاطر میں نہیں لاتا اور انھیں در کنار کر دیتا ہے۔منور رانا نے اس شعر میںاُس مجبور و لاچار شخص کی نفسیاتی ترجمانی کی ہے جس کا سماج کے ذریعے استحصال ہو رہا ہے۔منور رانا کا خطابیہ لہجہ بھی اس شعر میں ایک مخصوص احساس کوابھارتا ہے۔اور ایک ایسے انسان کا خاکہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔جو زندگی کے مسائل کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے۔
دوسرا شعر بھائیوں کے درمیان تقسیم ہونے والی جائدادکا ترجمان ہے۔جس میں جو جتنا طاقت ور ہے وہ اتنے بڑے حصے پر قبضہ کر لیتا ہے۔اور کمز ور مظلوم شخص کے حصے میں صرف ماں آتی ہے۔یہ شعر انسانی رشتوں کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا عکاس نظر آتا ہے۔کس طرح لوگ مال و زر کے لالچ میں انسانی تعلقات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
تیسرے شعرگھر کے اندر موجود افراد کے درمیان انتشار اور رشتوں کے ٹوٹنے کے سبب چھائی ہوئی مایوسی اور بے چینی کا منظر پیش کرتا ہے۔گھر کا شیرازہ بکھر جانے سے خوش حالی کہیں کھو سی گئی ہے۔جس سے شاعر گھر میںخوش نصیبی کے دوبارہ آنے کے لئے فکر مند نظر آتا ہے۔
اس کے بعد کا شعر بھی اسی ذہنی نفسیات سے لبریز نظر آتاہے۔جب گھر کا انتشار زیادہ بڑھ جاتا ہے،تووہ شخص جس پرگھر کو جوڑ کر رکھنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔وہ ذہنی اذیت سے دوچار ہو کر راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے لیکن اس کو بچوں کی محبت روک لیتی ہے۔
آخری شعر میں منور رانا نے لفظ ’’کلنڈر‘‘کو ایک اہم استعارے کے طور پر پیش کیا ہے۔یہ شعر ایک ایسے انسان کی نفسیاتی کیفیت کو پیش کرتا ہے جس کو گھر کے مکینوں نے بھلا دیا ہے اور وہ گھر میں کسی بے کار چیز کی مانند ہے۔ٹھیک کسی کلنڈر کی طرح جو صرف تاریخ بتاتا ہے۔اسی طرح گھر کے بزرگوں کی گھر میںحالت ہے۔نئی نسلیں صرف معاشرے میں ان کے ذریعے اپنی شناخت قائم کرتی ہیں اور گھر میں ان کو بالکل بھلا دیا گیا ہے۔یہ کسی بے جان کلنڈر کی طرح گھر کے کسی کونے میں پڑے رہتے ہیں۔
دراصل ان اشعار میں منور رانا نے گھر کو بطور علامت استعمال کر کے بدلتے ہو ئے انسانی رشتوں کے اقدار، تقاضوں،محبت و خلوص کی حقیقی ترجمانی کی ہے جو عصر حاضر کی زندگی کا ایک اہم المیہ ہے۔گھر کے ساتھ ساتھ مکان کی علامت بھی منور رانا کی شاعری میں ایک اہم موضوع کے طور پر ابھری ہے۔شعر دیکھیں:
برسوں سے اس مکان میں رہتے ہیں چند لوگ
اک دوسرے کے ساتھ وفا کے بغیر بھی
ایک مکان میں رہنے کے بعد بھی گھر کے مکین آپس میں اتحاد اور محبت کے ساتھ نہیں رہتے۔آپس میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے وفاداری کا جذبہ نہیں رکھتے۔اور ایک طویل مدت گزر جاتی ہے۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے بھی ہیں۔لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ٹھیک دورازے پر لگی ہوئی تختی کی طرح جس سے گھر کا پتا تو چلتا ہے کہ فلاں صاحب کا گھر ہے لیکن گھر کے اندر مالک و مختار کوئی اور ہوتا ہے۔اس فکر کی ترجمانی میں ایک شعر دیکھیں:
مدت سے کوئی دوسرا رہتا ہے ہم نہیں
دروازے پر ہماری ہے تختی لگی ہوئی
وہ لوگ جن کو اپنے احباب اور عزیز و اقارب کی طرف سے توجہ نہیں دی جاتی وہ لوگ نفسیاتی طور پر بیمار ہونے لگتے ہیں۔دھیرے دھیرے ان کی صحت بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔گویاوہ افراد جیتے جی مرنے لگتے ہیں ۔اس نفسیاتی کیفیت کے اظہار میں منور رانا کا شعر ملاحظہ کریں:
اب زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں رہا
مرنے لگے ہیں لوگ قضا کے بغیر بھی
عصر حاضر میں یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ جن بزرگوں نے زندگی بھر اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی آنے والی نئی نسلوں کو پروان چڑھایا ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔یہاں تک عمر کے آخری ایام میں ان کی مناسب غذا کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔اگر کچھ دیا بھی گیا تو بہت مختصر اور گن گن کردیا گیا۔انسانی رشتوں کی اس تنزلی اور ایسے افراد کی نفسیاتی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہوا ایک شعر دیکھیں جس میں منور رانا کے طنزیہ اور شکایتی لہجے نے چار چاند لگا دئیے ہیں:
لگتا ہے جیسے گھر میں نہیں ہوں میں قید ہوں
ملتی ہیں روٹیاں بھی جہاں پر گنی ہوئی
ایسے افراد کے ساتھ ناروا سلوک تو ہوتا ہی ہے۔بلکہ انھیں بغیرکسی خطا کے قصوروار بھی ٹھہرا دیا جاتا ہے۔اورآخر کار انھیں ہی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔شعر ملاحظہ کریں:
ہم بے قصور لوگ بھی دلچسپ لوگ ہیں
شرمندہ ہو رہے ہیں خطا کے بغیر بھی
عصر حاضر میںگھر کی تعمیر کے ساتھ ہی اولاد کی پرورش بھی ایک غریب خاندان کے لئے ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔خاص طور سے لڑکی کی پرورش اس کے سیانے ہونے پر اس کی شادی کی فکر وقت سے پہلے ماں باپ کو لاغر اور بوڑھا کر دیتی ہے۔اس فکر کی ترجمانی میں ایک شعر دیکھیں:
بس اسی احساس کی شدت نے بوڑھا کر دیا
ٹوٹے پھوٹے گھر میں اک لڑکی سیانی اور ہے
منور رانا نے اپنی شاعری کے ذریعے پسماندہ اور غربت و افلاس کے مارے ہوئے انسانوں کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی ہے۔ ایک شعر دیکھیں جس میں منور رانااس بات کی طرف ذہن مبزول کراتے ہیںکہ اس دنیا میں انسان کس طرح بھوک جیسی تکلیف کو برداشت کر رہا ہے ۔جس میںچولھے سے خالی ہاتھ توا اتر جانے کا منظر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے:
وہ مفلسی کے دن بھی گزارے ہیں میں نے جب
چولھے سے خالی ہاتھ توا بھی اتر گیا
اسی فکر کی ترجمانی کرتا ہوا ایک اور شعر دیکھیں۔جو غریبی و افلاس کے مارے ہوئے مزدوروں کا عکاس ہے جن کے پاس نہ سر چھپانے کو گھر ہے اور نہ تن ڈھاپنے کو لباس۔یہ بیچارے فٹ پاتھ پر ہی اخبار بچھا کر چین کی نیند سو جاتے ہیں۔جب کہ عالی شان محلوں میں رہنے والے گرم اور نرم گدوں پر سونے والے لوگوں کو سونے کے لئے گولی کا سہارا لینا پڑتا ہے:
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
منور رانا نے نہ صرف سماج میں موجود غریب طبقے کی نفسیاتی ترجمانی کی ہے بلکہ فیشن کے نام پر بے حیائی اور بے لباس ہونے والے امیر طبقے کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے۔شعر ملاحظہ کریں:
پہلے بھی بے لباس تھے اتنے مگر نہ تھے
اب جسم سے لباسِ حیا بھی اتر گیا
الغرض منور رانا کے کلام میں انسانی نفسیات اور عصری حسیت سے متعلق بہت سے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں۔انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے سے انسانی اقدار کی بقاء اور اس کے استحصال کے خلاف پر زور آواز بلند کی۔ساتھ ہی مردہ ہوچکے معاشرے پر بھی کاری ضرب لگا کر اس کو سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
محمد عادل
ہلال ہائوس 4/114 نگلہ ملاح علی گڑھ
موبائل:8273672110
Email:[email protected]
ADD:MOHD ADIL
HILAL HOUSE
HNO.4/114 NAGLAH MALLAH ALIGARH 202002
MOB:8273672110