(Last Updated On: )
ادبی جریدہ چند مطبوعہ اوراق کا پلندہ نہیں ہوتا بلکہ اسے ادباء، فضلا اور علماء کی ایسی انجمن کا درجہ حاصل ہوتا ہے جس سے نہ صرف معاشرے کو فکری اور نظریاتی طور پر مائل بہ ارتقاء رکھا جا سکتا ہے بلکہ اس کے باطن میں ایک دَور کی سماجی ،فکری اور تخلیقی کروٹیں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ ادبی جریدہ نگاری جہاں عوام اور خواص کے ذہن کو نئی روشنی سے منور کرتی ہے ‘وہیں اس سے نئے لکھنے والوں کی ذہنی تربیت بھی ہوتی ہے اور پرانے لکھنے والوں کے ذہن کو مزید غوروفکرکرنے کی دعوت ملتی ہے۔ خان پور سے شائع ہونے والا’شعوروادراک‘ ادبی جریدہ نگاری میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔
مجلہ ’’شعوروادراک‘‘کا پہلا شمارہ خوبصورت سرورق اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ مدیر محمد یوسف وحید جو مایہ ناز علمی و ادبی شخصیت ہیں ‘نے اپنی نگرانی میں نذیر احمد بزمی اور مرزا امین بابر کے تعاون سے اس شمارے کو پورے اخلاص اور انہماک سے ترتیب و تزئین کا عملی جامہ پہنا کر خوبصورت بنا دیا ہے۔ جمیل جالبی کے مطابق:
’’ایک اچھا رسالہ ایک ادارہ ہوتا ہے اور اس کا ایڈیٹر اپنی ذات میں ایک انجمن ہوتا ہے جو لکھنے والوں کی تربیت بھی کرتا ہے اور اُن کی ذات کو جِلا بھی دیتا ہے۔ ان کا احتساب بھی کرتا ہے اور ان میں لکھنے اور سوچنے کے نئے پہلو بھی اُبھارتا ہے‘ اُن کی صلاحیتوں کو ایک مرکز بھی دیتا ہے اور حوصلہ افزائی کر کے اُن میں اعتماد کا صور بھی پھونکتا ہے۔‘‘
مجلہ ’’شعوروادراک‘‘ پاکستان کی اہم زبانوں اُردو، پنجابی اور سرائیکی تحریروں پر مشتمل ہے جس میں ادب سے متعلقہ ہر صنف کا نمائندہ اظہار شامل ہے۔ موضوعات کی ایک رنگا رنگی ہے کہ جس کو جس موضوع یا صنف سے لگائو ہے اسی سے کسبِ فیض حاصل کر سکتا ہے۔ مدیر چونکہ خود بھی اعلیٰ ادبی آدرش رکھتے ہیں لہٰذا انتخاب میں بلند ادبی معیار کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ مذکورہ مجلہ میں نہ صرف مشاہیر بلکہ ان اہل قلم کی تحریروں کو بھی جگہ دی ہے جو ابھی اس میدان میں نئے ہیں اس طرح اس شمارے کو ہم ادبی رجحانات اور میلانات کا مظہر کہہ سکتے ہیں۔
مجلہ ’’شعوروادراک‘‘ کو مضامین کے معیار اور تنوع کے لحاظ سے ایک اعلیٰ معیار کا جریدہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔جس سے جامعات کے طلباء و طالبات اپنی نصابی ضروریات کے لیے استفادہ کر پائیں گے۔ خصوصی طور پر اظہر عروج کا مضمون’’خان پور کی ادبی فضا میں’’بزمِ ادراک‘‘ کا کردار‘ ‘ اور سحرش منظور کی تحریر’ ’دارالسرور‘‘ بہاول پور کی مرکزی لائبریری جس میں بہاول پور کے اہم کتب خانوںاور ان میں موجود قدیمی نسخے اور مخطوطات کا ذکر ہے‘ تحقیق کے طالب علموں کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔
مذکورہ شمارے میں مدیر کے قلم سے ’’اپنی بات‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ اس میں دو اہم اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ‘ایک تو یہ کہ باوقار اقوام اپنی ثقافت و زبان کو سینے سے لگا کر رکھتی ہیں اور دوسرے یہ کہ ہمارے یہاں قومی زبان کا خصوصی دن نہیں منایا جاتا۔ ہم لوگ مغربی تقلید میں ویلنٹائن ڈے کو تو فروغ دے رہے ہیں مگر قومی زبان کے خصوصی دن کے حوالے سے عوام تو کیا ادبی حلقوں کی جانب سے بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ کم از کم اربابِ اختیار تک اس نکتہ نظر کو ضرور پہنچانا چاہیے۔
اُردو میں لسانیات کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے اس سلسلے میں مجلے میں شامل پروفیسر انور جمال کا مضمون’’ زبان، اُردو زبان اور دو لفظی محاورے‘‘ اہمیت کا حامل ہے جس میں مولانا محمد حسین آزاد، حافظ محمود شیرانی، سلیمان ندوی اور برجموہن دتاتر کیفی کے حوالے سے اُردو زبان کی پیدائش، ارتقاء کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ نیز اُردو زبان کی صحت کے معیار پر بحث کی ہے۔ اس کے ساتھ سعدیہ وحید کا مضمون ’’پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں‘‘ جس میں( ایتھنا لوگ ویب سائٹ )کے حوالے سے پاکستان کا لسانی تنوع اور شمالی علاقہ جات میں بولی جانے والی ملکی زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے مگر اس مضمون میں اک تشنگی سی باقی رہ گئی ہے کیونکہ ان زبانوں کے آغاز اور ارتقاء کے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔
دیگر مضامین’’ اقبال اور نوجوان (ڈاکٹر ذاکر خان)، ترجیحات (تسنیم جعفری) تعصب‘‘ (سرسید احمد خاں) شامل ہیں خاصے فکر انگیز ہیں جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنے آبائواجداد کی سوچ کو تقویت دیں تو تہذیب یافتہ سماج وجود میں آ سکتا ہے کیونکہ کم و بیش دو تہائیوں کے پس منظر اور حال پر غور کیا جائے تو سوائے خاک اڑنے کے کچھ نہیں ملتا۔ ملک میں پھیلی انارکی، خلفشار اور باہمی چپقلش اتنی تکلیف دہ ہو چکی ہے کہ مستقبل کے بارے میں کوئی مثبت نقشہ کھینچنا محال ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرے میں پھیلی بے چینی اور نظریاتی عدم وابستگی تخلیقی سرگرمیوں سے ختم ہو سکتی ہے کیونکہ ادب سے بڑا کوئی نعرہ نہیں اور ادب سے بڑی کسی تحریک نے کبھی جنم نہیں لیا۔
شمارے میں منشا یاد کا مضمون’’افسانہ کیسے لکھیں‘ ‘مفید اور اہم معلومات کا حامل ہے تاہم اگر علامتی اور تجریدی انداز کے حامل افسانوں کی کچھ مثالیں اور ان کے مصنفین کا ذکر بھی شامل کر دیا جاتا تو قارئین کو تمثیل نگاری اور تجریدیت کی تفہیم میں سہولت ہو جاتی۔
مجلہ ’’شعوروادراک‘‘کے اس شمارے میں شامل افسانوں میں’’ تاثر، یقین، پیار کا پہلا تحفہ اور مشین‘‘ ہمارے نفسیاتی اور معاشرتی روّیوں کے عکاس ہیں۔ ان کے مصنفین قاری پر اپنا تاثر قائم کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ ان تحریروں کا اُسلوب، تکنیک ان کی فنی پختگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ’’ موروں کی چال ، سردیوں کی پیاس اور اندر باہر‘‘ افسانوں میں اُسلوب بیاں میں جدت ہے مگر دل کشی نہیں۔ تاثر سے خالی ہیں محض تقلیدِ سطحی ہے ‘افکار کی گہرائی نظرنہیں آتی۔
شمارے میں شامل فن و شخصیت کے حوالے سے تمام موضوعات نہایت قابلِ قدر اور مصنفین کی فکروتحقیق کا نتیجہ ہیں۔ کچھ موضوع کس قدر تشنہ اور زیادہ تفصیل و توضیح کے محتاج ہیں لیکن بڑی خوبی سے تحریر کیے گئے ہیں ۔خصوصی طور پر خواجہ غلام فریدؒ پر لکھے گئے مضامین ان پر تنقید کرنا چاند پر خاک ڈالنا ہے۔ یہ وہی کر سکتا ہے جس نے ان کے کلام کا بغور مطالعہ کیا ہو اور ساتھ ہی زبان کے عیب و صواب و اس کی خوبیوں اور نزاکتوں کو سمجھتا ہو۔
الغرض اس طرح مختصر شمارے میں ادب کے مختلف اَدوار اور شخصیات کو مرتب کیا گیا ہے کہ قاری بغیر زیادہ جستجو کے ان کی فنی کاوشوں سے مستفید ہو سکتا ہے۔
خصوصی مطالعہ کے ضمن میں محمد یوسف وحید کی تحریر اہمیت کی حامل ہے جس میں انہوں نے خان پور کی مختصر ادبی تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف موجودہ اہل ِقلم بلکہ ان پر بھی تحقیق کی ہے جن کو عالم بالا سدھائے ہوئے زمانہ گزر گیا مگر یوسف وحید کی ہمت کو داد نہ دینا نا انصافی ہو گی۔ ان اہلِ قلم پر کام کرنا اور ان کے کوائف اکٹھے کرنا یقینا جان جوکھوں کا کام ہے۔محمد یوسف وحید کمال مہارت سے تمام اہم ادبی شخصیات کو کشید کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
حصہ شاعری میں شامل کلام پُر لطف تو ہے لیکن اس میں بلندی فکر و تاثیر نہیں۔ زیادہ تر غزلوں میں روشنی کی کرن نہیں۔ لفظوں کا گورکھ دھندہ ہیں ہاں البتہ امین بابر اور ایوب اختر کی غزلوں کو تاثر سے خالی نہیں کہا جا سکتا۔
آخر میں شخصیات اور کتب پر تبصرے شامل کیے گئے ہیں جن کے پیچھے مصنفین کی مدتوں کا تجربہ، مشاہدہ اور غوروفکر چھُپا ہے۔ شعوروادراک میں معاصر تنقیدی و تخلیقی مضامین کا جو تنوع ہے وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔
اس جریدے کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں کسی قسم کی نظریاتی چھاپ نہیں بلکہ اس کا تعلق صرف ادب اور ادیب سے ہے۔ اگر اسی طرح ادب میں آزادی خیال، کشادہ نظری اور بے لاگ تنقید کو فروغ دینے میں مدد کی گئی اور دنیائے ادب میں تخلیقی قوتوں کو پروان چڑھانے میں معاونت جاری رہی تو شعوروادراک صرف ایک رسالہ ہی نہیں بلکہ مستقبل میں عہد ساز تہذیبی، فکری، علمی و ادبی ادارے کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔
٭
(بحوالہ : شعوروادراک ، شمارہ نمبر 2/3، (اپریل تا ستمبر 2020ء ) مدیر: محمد یوسف وحید ، ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، ص: 346)
٭٭٭