آج – ٢٦؍جون؍١٩٦٣
منفرد لب و لہجہ، فطری شاعری کے لیے معروف اور ممتاز شاعر ” اثرؔ صہبائی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام عبدالسمیع پال، تخلص اثرؔ ، ٢٨ دسمبر ١٩٠١ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آبا و اجداد کشمیر سے پنجاب منتقل ہوگئے، ان کے والد مولانا دین احمد پال علوم قدیمیہ کے کئی رسائل کے مصنف تھے ۔ اثر صہبائی کی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہوئی۔ لاہور کے اسلامیہ کالج بی ۔ اے آنر پاس کیا اور ایل ۔ایل۔ بی کے بعد سیالکوٹ میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ ان کے بڑے بھائی حزیں بلند پایہ شاعر گزرے ہیں۔
صہبائی کا امتیاز یہ ہیکہ انہوں نے غزلیں، قطعات، رباعیات، مثنویاں سب کچھ کہیں ہیں اور غزل گوئی کے تنگ کوچے میں مقید نہیں رہے۔
اثرؔ صہبائی، ٢٦؍جون؍ ١٩٦٣ء کو انتقال کر گئے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں :
جامِ طہور ( رباعیات و قطعات کا مجموعہ)، خمستاں، روحِ صہبائی ( غزلوں، نظموں اور رباعیات کا مجموعہ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر اثرؔ صہبائی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
الٰہی کشتئ دل بہہ رہی ہے کس سمندر میں
نکل آتی ہیں موجیں ہم جسے ساحل سمجھتے ہیں
—
آہ کیا کیا آرزوئیں نذرِ حرماں ہو گئیں
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجئے
—
تمہاری یاد میں دنیا کو ہوں بھلائے ہوے
تمہارے درد کو سینے سے ہوں لگائے ہوے
—
لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں
عمر تمام کٹ گئی کاوشِ احتساب میں
—
تیرے شباب نے کیا مجھ کو جنوں سے آشنا
میرے جنوں نے بھر دیے رنگ تری شباب میں
—
جس حسن کی ہے چشمِ تمنا کو جستجو
وہ آفتاب میں ہے نہ ہے ماہتاب میں
—
جہاں پہ چھایا سحاب مستی برس رہی ہے شراب مستی
غضب ہے رنگِ شباب مستی کہ رند و زاہد بہک رہے ہیں
—
مری ہر سانس کو سب نغمۂ محفل سمجھتے ہیں
مگر اہلِ دل آواز شکستِ دل سمجھتے ہیں
—
ساری دنیا سے بے نیازی ہے
واہ اے مستِ ناز کیا کہنا
—
سجدہ کے داغ سے نہ ہوئی آشنا جبیں
بیگانہ وار گزرے ہر اک آستاں سے ہم
—
یہ حسن دل فریب یہ عالم شباب کا
گویا چھلک رہا ہے پیالہ شراب کا
—
ظلمتِ دشتِ عدم میں بھی اگر جاؤں گا
لے کے ہمراہ مہ داغِ جگر جاؤں گا
—
مگر اثرؔ ہے خموش و حیراں حواس گم چاک داماں
لبوں پہ آئیں نظر پریشاں تو رخ پہ آنسو ٹپک رہے ہیں
اثرؔ صہبائی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ