اردو میں ادب اطفال کے نقوش محققین کی تحقیق کے مطابق ا میر خسرو کی قلندرانا تحریروں سے ملتے ہیں۔ جنمیں کہہ مکرنیاں، پہلیاں، دوسنحنے، انمیلیماں، دوہے اور گیت وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح اگر دکنی اردو کے حوالے سے بات کریں تو باقائیدگی سے بچوں کے ادب سے تعلق رکھنے والی نظمیں، ولی دکنی سے آغازہوتاہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس زمانہ میں ادب اطفال کی الگ سے کوئی شناخت نہیں تھی بلکہ غیر ارادی طورپر پڑھے لکھے لوگ عام فہم زبان میں اس وقت کے لحاظ سے پند و نصائح کی وہ باتیں جو سماج میں صالح اور مثبت روئیوں اورعادات کو مہمیز کریں وہ تحریرکرتے تھے۔اب یہ الگ بات تھی کہ اس طرح کا تخلیقی مواد زیادہ تر یا تو مدارس کے طلباء یا گا گا کر دف یا ایک تار ے کی تان پر چوپالوں یا میلے ٹھیلے وغیرہ میں سنایا جاتا تھا۔ جو کسی طرح مستورات کو ازبر ہو جاتا تھا اور وہ بچوں کو سنایا کرتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بچوں کے ادب کی بالواسطہ یا بلا واسطہ ترویج خام ادب اطفال کے طور پر مستورات سے منسلک ہوگئی، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کہانیاں، لوریاں، کہاوتیں اور تقریبات میں نیابتیں گیت یہ سب عورتوں سے ہی منسوب تھیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ امیر خسرو اور ولی دکنی کے وقت میں اگر بچوں کا ادب تھا تو شاعری کی شکل میں تھا، اگر نثری ادب کو سمجھا جائے تو نثری ادب وہ وہی عورت نانی، دادی کی شکل میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی وہ اتنی طویل ہوا کرتی تھیں کہ ایک ایک ہفتہ کا دورانیہ ہوا کرتا تھا۔تاریخی پہلو سے یہی نانی، دادی کی کہانیاں بچوں کا ادب ہوا کرتی تھیں اور اسی کو ہم خام ادب اطفال کا نام دے سکتے ہیں۔ اس کا واضح کردار نانی، دادی ہی ہوا کرتی تھیں۔ اچھا یہ روایت نہ صرف اردو زبان کی تھی بلکہ دنیا کی ہر زبان میں یہ روایت پائی جاتی ہے۔
اگر عالمی پیمانے پر ادب اطفال کی تاریخ کا موازنہ کریں تو انگریزی اور چینی زبان میں ادب اطفال کی روایت قدیم ترین ہے۔ اس کے بعد روسی اور اطالوی زبان آتی ہے۔ ہماری ہندآریائی زبان میں بھی ادب اطفال کی تاریخ زمانہ قدیم سے ہے۔ جہاں پرانوں کی کہانیاں سب سے قدیم مانی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باقاعدہ آثار پنچ تنتر کی کہانیوں اور بیتال پچیسی میں ملتے ہیں۔ ان کہانیوں کا بھی مرکز مٹھ یا پاٹھ شالائیں تھیں اور ہندو مذہب میں بھی کہانیوں کا بیانیاں عورتوں کی زبان کے ذریعے ہی تھا۔ یعنی ادب اطفال کی ترویج کا ایک اہم ذریعہ مستورات ہی تھیں۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ بچہ زمانہ طفلی سے شعور کی منزل پر پہنچنے تک ماں کے زیر اثر رہتا ہے۔ اور وہ زمانہ اس قدر اہم ہوتا ہے کہ جہاں بچے میں اخلاقی، تہذیبی ، سماجی اور علم و شعور کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور وہ سن بلوغت میں ایک مضبوط اور فعال شخص کے طور پر قدم آگے بڑھاتا ہے۔
اردو میں ادب اطفال کی باقاعدہ شروعات کے آثار اٹھارویں صدی سے ملتے ہیں۔ جب میر تقی میر اور نظیر اکبرآبادی نے شعوری طور پر اپنے اپنے کلام میں ان موضوعات کو استعمال کیا جو ادب اطفال سے تعلق رکھتے تھے۔ نظیر اکبرآبادی نے اپنے یہاں عہد طفولیت کی ان دلچسپیوں کو بڑی خوبی سے برتا ہے جو کسی بھی بچے کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔مگر اس وقت میر تقی میر اور نظیر اکبرآبادی کی ان کوششوں کو عوامی ادب کہہ کر کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی نہ ان کی کاوشات کو ادب اطفال کے نام سے گردانا گیا وجہ اس وقت ادب کی تخصیص نہیں تھی۔اسی اثناءمیں انجمن پنجاب، فورٹ ولیم کالج، علی گڑھ تحریک، اور دہلی کالج انیسویں صدی کے اوائل میں وجود میں ائیں۔ تین قابل قدر انگریز شخصیات جان گلکرسٹ، کرنل ہالرائڈ اور ای ویٹ نے درس و تدریس کی کتابیں تیار کرائیں۔ جس میں فارسی اور انگریزی زبانوں سے ترجمے شامل تھے یہ درسی کتابیں اپنے متن اور افادیت کی رو سے اس قدر مقبول ہوئیں کہ بعض کتابیں ساٹھ کی دہائی تک اسکولوں میں شامل نصاب رہیں۔ ان درسی کتب کی تیاریوں میں مولانا محمد حسین آزاد، ، امام بخش صہبائی، مولوی ضیاءالدین، مولانا اسمعیل میرٹھی، مولوی ذکأ ﷲ وغیرہ کے نام نامی عزت و احترام کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اہم ہیں۔درسی کتب کی ترتیب و تدوین کے سلسلے میں جہاں بہت سے نام ہیں۔وہاں مولانا اسمعیل میرٹھی ادب اطفال میں ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے درسی کتب کی تیاریوں میں خود بچوں کی استعداد اور فہم کے مطابق مواد تیار کیا، جو ادب اطفال میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اسمعیل میرٹھی کل وقتی بچوں کے ادیب تھے جنھوں نے اپنے آپ کو بچوں کے لئے لکھنے کے لئے وقف کررکھا تھا۔
اسی دور کے کچھ ایسے حضرات بھی تھے جو ذاتی طور پر بچوں کے ادب پر کتابیں شائع کرواتے تھے، جو سرکاری اداروں کے زیر نگرانی نہیں تھے۔ مگر ان کی کتابیں تدریسی مقاصد کو پورا کر رہی تھیں۔ جنمیں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالی وغیرہ تھے جنہوں نے ادب اطفال میں اپنی گرانقدر خدمات انجام دیں۔ آزادی سے پہلے ادب میں حفیظ جالندھری نے جہاں ادب عالیہ میں اپنا مقام بنایا وہیں بچوں کے ادب کے لئے بہت اہم کام انجام دئے۔ انمیں سےایک عمر و عیار کو دو جلدوں میں پیش کیا۔جو یکساں طور پر بڑوں اور بچوں میں مقبول ہوا، اور کئی زبانوں میں منتقل ہوا اس پر فلمیں اور ٹی وی سیریل بھی بنے۔ اس کے علاوہ الف لیلا کی کہانیاں بچوں کے لئے آسان زبان میں منتقل کیں، جو ایک زمانہ تک مقبول رہیں۔ امتیاز علی تاج نے بچوں کے لئے ایک ناقابل فراموش مزاحیہ کردار چچا چھکن خلق کیا جو اردوادب اور اگر کسی حد تک مان لیں ادب اطفال کا نایاب کارنامہ ہے۔ یہ کردار بھی اردو ادب میں اتنا مقبول ہوا کہ اس کے چرچے آج تک زندہ ہیں اور اس کو دوسری زبانوں نے بھی اپنایا ،سماج میں یہ کردار کسی شخص کے بے وقوف اور حجتی ہونے کے لئے مثال بھی بن گیا۔ ابھی حال ہی میں انقلاب میں” چچا چھکن کے کارنامے عصر حاضر میں” کے عنوان سے مختلف تخلیق کاروں سے تخلیق کراکر شالع کرائے کے گئے، جن کو لوگوں نے دلچسپی سے پڑھا۔ چچا چھکن بھی ہندوستان کی مختلف زبانوں میں جلوہ افروز ہیں۔ مگر چچا چھکن کے بعد اردو ادب یا ادب اطفال میں کوئی دوسرا مقبول عام کردار معرضِ وجود نہیں ہوا۔
ہمارے سابق صدر جمہوریہ اور بانیان جامعہ میں سے ایک ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے اپنے رفقاء اور اساتذہ کو اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے بچوں کا ادب تخلیق کرنے کی ترغیب دلائی۔جس میں ڈاکٹر عابد حسین، صالحہ عابد حسین، محمد مجیب، شفیع الدین نیر، قدسیہ زیدی، حسین حسان، اطہر پرویز اور عبد الغفار مدھولی وغیرہ شامل تھے، خود ذاکر صاحب نے بھی بچوں کے لئے لکھنا شروع کیا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی مشہور زمانہ ابو خاں کی بکری آئی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے سید عابد حسین کی ادارت میں سن 1926 میں ‘پیام تعلیم’ کے نام سے بچوں کا ماہنامہ شروع کیا۔ جس میں بچوں کی دلچسپی کا ایسا مواد شامل ہوتا تھا جو معیاری ہونے کے ساتھ مقبول عام تھا۔اس طرح سے جامعہ کے مصنفین ادب اطفال میں اہم رول رہا ہے۔اسی زمانے میں دہلی سے ماہنامہ ‘کھلونا’ بھی نکلتا تھا۔ جس میں اس کے مالک و مدیر یوسف دہلوی اور ان کے بیٹے الیاس دہلوی نے پہلی بار کارٹون کی شکل میں لطائف اور کہانیاں شامل کیں۔ اس کے علاؤہ بچوں کے رسالے میں پہلی بار کہانی اور نظم کی مناسبت سے کھلونا میں ملازم آرٹسٹوں سے تصاویر بنوائی جاتی تھیں۔ اس زمانے کے آس پاس یا اس سے پہلے یا بعد میں بچوں کے کئ رسائل شائع ہوئے۔ جس میں بریلی سے ٹافی، مرادآباد سے چندا نگری، بجنور سے پھول اور غنچہ، لکھنؤ سے کلیاں وغیرہ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف صوبوں سے بھی بچوں کے کافی رسائل شائع ہوئے۔ جن کی ایک طویل فہرست ہے مگر وقفے وقفے سے قاری کی بے اعتنائی اور مالی بحران کی وجہ سے بند ہوتےگئے۔ جن رسائل کو تاریخ کے اوراق بھلا نہیں پائیں گے ان میں سب سے اہم ‘کھلونا’ مکتبہ الحسنات کے رسالے ‘نور’ اور ھلال، لکھنؤ کا کلیاں ہیں ۔ کھلونا کا المیہ یہ ہے کہ اس کے مالکان کے پاس تو اس کی جلدیں بھی محفوظ نہیں۔ عوام میں بھی پوری جلدیں محفوظ نہیں ہیں۔ یہ ہی حال کلیاں کا ہے۔ نور، ھلال کی جلدیں تو اس کے مالکان کے پاس محفوظ ہیں مگر 67 سال ادب اطفال کی آبیاری کرنے کے بعد یہ دونوں رسائل شدید مالی بحران کا شکار ہوکر بند ہو گئے اور اردو داں طبقے کو خبر تک نہ ہوئی نہ کسی نے جاننے کی کوشش کی ۔ خیر
ادب اطفال میں اچھے اور معیاری ہر طرح کے بہت ناول بھی لکھے گئے۔ سراج انور کے ناول نیلی دنیا، کالی دنیا، خوفناک جزیرے، کرشن چندر کے ستاروں کی سیر ، الٹا درخت، مالیگاؤں کے یوسف انصاری نے جہاں روسی ادب اطفال اور فارسی ادب سے ترجمے کئے جن کی تعداد تقریباً سو ہوتی ہے انہوں نے بھی ایک ناولٹ زہرہ کا سفر لکھا اور دسیوں کامک کہانیاں لکھیں اور اپنے شاہین پبلیکیشنز اردو کے کامکس شائع کئے ۔ شوکت تھانوی نے بھی بچوں کے لئے ناول اور ناولٹ لکھے۔ اس کے علاوہ اسی کی دہائی تک ادب اطفال کا ایک سنہرا دور رہا۔ جس میں کہانیاں، نظمیں، ناول، ڈرامے، کامکس وغیرہ کافی تعداد میں لکھے گئے۔ اور قاری میں مقبول بھی ہوئے۔ مگر سن اسی کے بعد جیسے ادب اطفال پر ایک سکوت سا طاری ہوگیا اور لگنے لگا کہ شاید ادب اطفال اپنی زندگی کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ مگر ادب کو ثبات کہاں اور بیسویں صدی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ادب اطفال میں پھر سے زندگی کی حرارت محسوس کی جانے لگی اور بچوں کا ادب نئی توانائی کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلانے لگا۔
یہاں تک ادب اطفال کے ماضی کی روشن تصویر کو بیان کرنے کا مقصد تھا کہ عصر حاضر میں رونما ہونے والی متحیرانہ سائنسی اور تکنیکی تبدیلیوں کے مطابق اردو زبان میں ادب اطفال کی اہمیت اور افادیت کا تعین اور ترجیحات کا احاطہ کیا جا سکے۔ یہ انکشاف شاید کچھ حضرات کو سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ میں اردو زبان اور ادب اطفال کے تعلق سے جو اعداد و شمار یہاں پیش کر رہا ہوں وہ حیران کن ہیں۔ سب سے پہلے زبان کے اعداد و شمار، عالمی زبانوں کے زمرے میں اردو کا مقام تو ہے مگر اس کا نمبر شمار انیسواں ہے جب کہ بنگالی زبان ساتویں نمبر پر ہے۔ ہندوستان میں بنگالی زبان تیسرے نمبر پر اور اردو کا مقام چھٹے نمبر پر ہے۔ یہ سروے ریپورٹ سن 2010 کے مطابق ہے۔ اب آئیے ادب اطفال کے اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔انگریزی زبان کا ادب اطفال سب سے زیادہ انگلینڈ میں 96 فی صد لکھا، پڑھا جاتا اور شائع ہوتا ہے۔ جب کہ لندن شہر میں یہ صدفی صد ہے۔ کناڈا میں 79 فی صد جرمنی میں 82 فی صدہے۔ ہمارے ہندوستان میں اردو ادب اطفال کل 37 فی صد ہے۔ جب کہ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں حیرت انگیز طور پر25 فی صد ہے جہاں اردو کے تقریباً ساٹھ رسائل نکلتے ہیں اور بہت ضخیم کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے مگر اعداد دوسری داستان بیان کرتے ہیں یعنی برصغیر ہند و پاک میں ادب اطفال کی حالت دگرگوں ہی کہی جاسکتی ہے۔ ان اعداد و شمار سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم مجموعی طور پر ادب اطفال کے لئے کتنے سنجیدہ اور فعال ہیں۔ یہ ہماری نسل نوکے تہذیبی اور معاشرتی مستقبل سب سے اہم زبان کی بقاء کے لئے کیا خطرہ کا سگنل نہیں ہے؟ یہ اعداد و شمار کیا سیکڑوں سوالات کے ساتھ ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں؟۔
یہ حال ہے ہماری زبان اردو اور ادب اطفال کا جہاں آج ہم ایک چوراہے پر کھڑے ہیں اور اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ سامنے کا راستہ ایک شاندار، کامیاب مستقبل کی جانب جاتا ہے۔ جب کے ہمارے پیچھے کا راستہ ہمیں ناکامیوں، نامرادیوں کے اندھیرے میں ضم کرنے کے لئے کافی ہے اور دائیں بائیں صرف بھٹکنے والوں کے لئے ہے۔ زندگی میں صرف ادب ہی نہیں ہر شعبہ حیات میں اکیسویں صدی کے نزدیک پہنچتے پہنچتےسائنس اور ٹیکنالوجی کی ایسی حیرت انگیز تبدیلیاں یا ترقیاں رونما ہوئیں کہ متحرک اذہان ایک خلفشار کا شکار ہونے لگے اور ہر لمحہ سائنسی ایجادات کے بدلتے منظرنامہ سے انگشت بدنداں ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے ہم رکاب کرنے کی کوشش شروع کردی۔چاہے ادب ہو یا کوئی بھی شعبہ حیات ہو، جنہوں نے اپنے آپ کو وقت کے دھارے کی سمت اور رفتار سے مطابقت دے لی وہ کامیابی کی بلندیوں پر نظر آنے لگے جو چوک گئے یا لااعتدالی برتی وہ ماضی بن گئے۔ تبدیلی قانون فطرت ہے تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کو اپنانا زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ ادب میں عمومی طور پر اور ادب اطفال میں خصوصاً اس کا اطلاق ضروری ہے۔بچہ آنے والے مستقبل کا فرد ہے اور مستقبل سائنس و ٹیکنالوجی کی حیراں سامانیوں کے ساتھ ظاہر ہوگا، اگر اس کی تیاری آج کا بچہ نہیں کرے گا تو جینا محال ہوگا۔
اکیسویں صدی میں انسانی رویوں اور سوچ میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی کہ وہ ٹیکنالوجی کی یلغار کی وجہ سے اس کا اسیر ہو گیا جس کی وجہ سے وہ تمام انسانی و سماجی سرکاروں سے بے بہرہ ہو گیا اور اس کی دلچسپیوں کا سامان سائنس وٹیکنالوجی کی بے ہنگم ترقی میں ضم ہوکر نتیجہ کی ہاں یا نا کے عملی ثبوتوں پر مرکوز ہو گئے اور اس کا سب سے زیادہ شکار نسل نو ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی پریشانی ادب اطفال میں آئی۔ کیوں کہ آج کا بچہ تخیلاتی دنیا میں جینا نہیں چاہتا وہ منطق پر یقین نہیں رکھتا، وہ حقیقت جاننا چاہتا ہے کیوں اور کیسے ؟۔ آج بچہ کسی بھی شعبہ حیات میں سائنٹیفک حقائق کی روشنی میں اس عمل کا جواب چاہتا ہے۔ اس لئے وہ کتب بینی سے اس لئے دور ہے کہ وہاں اس ادب میں اس کو تصوراتی اور تخیلاتی دنیا کی غیر یقینی سے دو چار ہونا پڑتا ہے جو اس کے ہاں یا نہ کے حل کی نفی کرتا ہوا لگتا ہے۔
آج کا بچہ ہر لحظہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی سے اسکرین کا عادی ہو گیا ہے۔ چاہے وہ ٹی وی پر کارٹون کہانیاں پوکی مان، سیان چینگ، ہو یا کمپیوٹر پر انٹرنیٹ سرفنگ سے خلائے بسیط میں خلائی جہازوں یا راکٹوں کے ذریعے دوسرے سیاروں کے اسفار ہوں،انکی جانکاری یا موبائل پر مختلف گیمز ، وہاٹس ایپ یا دوسری ایپس ہوں ان سے کائنات کے ان رازوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے جو تخیلات کی دنیا سے نکال کر اسے راز ہائےکائنات سے روشناس کراتے ہیں۔ جو اس کی دلچسپی کا سامان تو فراہم کرتے ہی ہیں مگر حقیقت کی ایسی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں جہاں وہ چاند کی بڑھیا کے تصوراتی خیال کو یکسر بھلا کرسرخ سیارہ کی سرخی کی گتھی سلجھانے کی جانب کمر بستہ نظر آتا ہے۔ آج ہر زبان کا ادب اطفال، اگر وہ آج کے دور سے مطابقت نہیں رکھتا اور دور حاضر کے بچوں کے رجحان ، دلچسپیوں اور اس کی ذہنی پرواز کو گرفت میں نہیں لیتا تو وہ ہے ثباتی اور اس سے دوری کا سبب بنتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال میں اردو کا ادب اطفال کہیں بچھڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے ماضی کے مقابلے آج کتابیں بہت شائع ہو رہی ہیں۔ بہت ادب اطفال لکھا جا رہا ہے مگر معصوم قاری ندارد ہے۔ کیا کبھی تخلیق نگاروں، شاعروں نے سوچا ہے کہ وہ جو ادب تحریر کر رہے ہیں، جس کے لئے تحریر کر رہے ہیں اس قاری کے ذہنی میلانات کو طے کر رہا ہے اس کی دلچسپیوں اور اس کی ضرورتوں کے مطابق ہے۔ اگر نہیں تو یقیناً بچے کی افتاد طبع اور رجحان کا معیار اس کی کتب بینی اور ادب سے دوری کا باعث ہوگا۔ جیسا کہ میں نے کہا دور حاضر کا بچہ ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات کا اتنا اسیر ہو گیا ہے کہ آج خلائی فنتاسی، ماحولیات، سائنسی کہانیاں اس کی دلچسپی اور ترجیحات میں سے ہیں۔ ہمارا ادب اطفال وہی فرسودہ اور کلاسیکی تحریروں کے سحر سے نہیں نکل سکا ہے۔ ایسا نہیں ہےکہ آج کا قاری ادب اطفال پڑھنا نہیں چاہتا اس کی توجہ ادب اطفال کی جانب مبذول کرانے کے لئے ہمیں دور حاضر کے حساب سے ادب اطفال میں نئے رجحانات، اور ایجادات کو ادب اطفال میں بروئے کار لانا پڑےگا۔ ہم تو آج تک اردو کے بچوں کے ادب میں کارٹونی کہانیوں کا سلسلہ رائج نہیں کر سکے۔ صرف امنگ اور گل بوٹے میں کارٹونی کہانیاں شائع ہوتی ہیں۔ وہ بھی وہی پرانے طرز کی کہانیوں پر مبنی۔ ہم چچا چھکن کی طرح کوئی مقبول عام اسکرین پر کردار پیدا نہیں کر سکے جبکہ ہمارے ہی ملک کی ہندی زبان میں چھوٹا بھیم جیسا مقبول کردار جو آج پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کے معاشرہ سے نکلا ہوا کردار روشن دماغ کی نشانی ہے۔ اس کے آگے کتابوں کی دنیا کی بات کریں تو انگریزی کی مصنفہ جے کے راؤلنگ کی ہیری پوٹر سیریز کو لیں تو پتہ چلے گا کہ جادو کی پرانی کہانیوں کو نیا لباس پہنا کر راؤلنگ نے لاکھوں قارئین کی دلبستگی کا کام کیا بلکہ آج وہ دنیا کی امیر ترین مصنف میں شمار ہوتی ہے۔ کیا ہمارے قلمکار حضرات کے پاس سائنسی سوچ و نظریات کا فقدان ہے۔ کیا ہماری سماجی معاشرتی اور فکری دنیا الگ ہے۔ کیا ہم ایک پچھڑی ہوئ ہاری قوم ہیں جو عصر کے روشن سائنس و ٹیکنالوجی کے ہالوں سے بے بہرہ وقت کے اندھیروں میں کھو جانا چاہتے ہیں۔ نہیں بالکل نہیں۔ ہمارا ماضی بہت روشن رہا ہے جہاں ہم نے دنیا کو سائنس طب ارضیات معاشیات اور بہت سے ایسے میدان جہاں انسانیت کی پہنچ نہیں تھی وہ ایجادات اور فکر و فلسفہ دیا۔ یہ بھی درست ہے کہ اردو ادب ہر زمانے میں اس کے تقاضوں کے لحاظ سے اپنے آپکو ایک مضبوط اور متحرک ادب بن کر پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم دنیا اور وقت کے بدلتے منظر نامہ کے مطابق اپنے اردگرد ادب اور سوچ کو ڈھالیں۔ آج ضرورت ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کو ادب اطفال کے لئے بروئے کار لاتے ہوئے۔ کارٹون کہانیاں، اینیمیشن، سائنس فنتاسی، دلچسپ ناول جن میں خلائے بسیط کے قصے، جاسوسی قصے جسمیں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہو، وہ کردار جو سائنس کی نئ نئ ایجادات کا استعمال کرکے ماسٹر فار آل ایکشن ہو ادب اطفال میں ان سب کی آمیزش اور بہتایت کی ضرورت ہے۔ اردو میں بچوں کا ادب لکھنے والوں کو ان سب باتوں اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات اور سائنسی رجحانات کی سوچ سے پر ادب تحریر کرنا ہوگا تب ممکن ہوگا کہ اردو ادب اطفال کا معصوم قاری کتب بینی کی جانب متوجہ ہو۔ تحریر کرنے کے لئے اور بہت کچھ ہے مگر یہ موضوع دور حاضر کے حساب سے کافی طویل گفتگو کا متقاضی ہے جس پر سیر حاصل تبصرہ اور غور وفکر کی ضرورت ہے۔ میں وقت کی قلّت اور طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی بات یہاں ختم کرتا ہوں۔ ادب اطفال کو دور حاضر کے مطابق تحریر کرنے اور قاری کو اس جانب راغب کرنے کے لئے ہمیں عصری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ادب اطفال کو تخلیق کرنا پڑےگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...