گزشتہ کئی سالوں سے یہ ایک عام اور اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے کہ بچہ اردو پڑھتے ہوئے آسان یا لازمی میں سے کسی ایک کو اپنائے۔ یہ تعلیم کے ابتدائی دنوں سے ہی اس کی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ ایک اردو آسان ہوتی ہے اور ایک اردو لازمی ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان تفرقہ ہے۔
اردو کی تدریس میں مسئلے اسی طرح درپیش ہوتے ہیں، جس طرح کسی بھی زبان کی تدریس میں ایک استاد کو پیشِ نظر مسائل ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ وہ یہ کہ: ہم اپنی مقامی زبانوں کے لحاظ سے انگریزی کی نسبت اردو کے زیادہ قریب ہیں۔ 16 سالہ تعلیم میں 14 سالہ انگریزی پڑھنا لازمی قرار دیا ہوا ہے۔ ان 14 سالوں میں اہلیانِ زبانِ اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی نیز کوئی بھی مقامی زبان بولنے والا بچہ؛ آسان انگریزی (simple English) نامی انگریزی نہیں پڑھتا۔ حال آں کہ اتنی زبردستی مسلط کرنے کی کوششوں کے باوجود چند ایک ہی ایسے شاگرد پیدا ہو پاتے ہیں جو روانی کے ساتھ انگریزی بول اور لکھ لیتے ہیں۔ باقی نہ تین میں ہوتے ہیں نہ تیرہ میں۔ اس سنگین معاملے کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ پھر بھی اسے اپنی 14 سالہ تعلیم میں پر سال لازمًا انگریزی پڑھنا ہوتی ہے۔ گویا انگریزی ایک آسمان سے اتری ہوئی زبان ہے۔ جس کا سیکھنا ہر ایک پہ لازم ہے۔ جب کہ اردو کی تدریس کے وقت مختلف خود ساختہ مسائل کو سبب بنا کر آسان اردو جیسا مضمون تشکیل دیا گیا ہے۔ جس کا صرف نقصان ہی ہے۔ شاگرد کسی طور اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ کسی طرح اردو درست انداز سے لکھ، پڑھ سکے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایسی اردو پڑھانے کا فائدہ کیا؟ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے سندھی یا کوئی اور زبان بولنے والا اردو لکھ پڑھ جاتا ہے تو وہ غلط سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ لفظ آسان یا سلیس پہلی فرصت میں ان کے ذہن میں غیر سنجیدہ رویے کو جنم دیتا ہے۔ میں دعوے کے ساتھ بورڈز خصوصًا (آغا خان بورڈ) کے آسان اردو کے مجوزہ نصاب، SLOs ہی سے میں ایک ایسا پیپر تیار کر سکتا ہوں جو آسان اردو کے طلبا تو بہت دور، آسان اردو پڑھانے والے اساتذہ بھی حل کرنے سے قاصر ہوں گے۔ جب اس آسان میں بھی اتنی مشکلیں پوشیدہ ہیں، تو کیوں قوم کو بار بار آسان کے نام پر گم راہ کیا جا رہا ہے؟ کیوں ہمارے بچوں میں اردو کے لیے غیر سنجیدہ رویے میں اضافے کا سبب بنایا جا رہا ہے؟
صرف مذکر اور مونث کے فرق کی بنیاد پر ہم قوم کو اس درجہ بے وقوف بنائیں گے؟ ہم سندھی بولنے والے، بہت زیادہ آسانی سے اردو لکھ، پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اگر انگریزی جیسی غیر یا قطعی نامانوس زبان کو سمجھ سکتا ہے تو وہ اپنی مقامی زبان کو مزید آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس آسان اور لازمی اردو کی بنیاد پر قومیں تقسیم تو ہو سکتی ہیں، جڑ نہیں سکتیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...