اگر زیادہ نہیں تین روز تو بہر حال ہو چکے ہیں کہ دفتر میں ایک بہت ہی منّی سی اڑ سکنے والی چیز میری آنکھوں کے سامنے مستقل مزاجی کے ساتھ محو پرواز رہ کر مجھے جھنجھلا رہی ہے، لیکن میں ہاتھ ہلانے کے علاوہ اور کچھ اور نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی جواب میں یہی کہے گا کہ میاں اسے مار دو۔ لیکن جو زندگی خالق اعلٰی نے دی ہے، کیا میں اسے صرف اس لیے ختم کر دینے میں خود کو حق بجانب ٹھہرا پاؤں گا کہ یہ ننھی منی مخلوق میرے کام میں مخل ہونے کی کوشش کرتی تھی؟
میں نے ارادتا" آج تک کسی مخلوق کی زندگی نہیں لی کیونکہ مجھ میں ایسا کرنے کی ہمّت ہی نہیں ہے اور نہ خواہش۔
آج سے چالیس بیالیس برس پیشتر میں نے افغانستان کے پس منظر میں لکھا گیا انگریزی زبان کا کوئی ناول پڑھا تھا، جس میں قصاص میں زیر خنجر آنے والے شخص کی گردن پر چلانے کے لیے مقتول کے کم عمر بیٹے کو کند چاقو دیا گیا تھا، جس سے اس نے ہاتھ پاؤں بندھے شخص سے اس کی گردن کاٹ کر بدلہ لیا تھا۔ اس عمل کو "قتل" نہیں "بدلہ" کہا جاتا ہے، شاید تب سے ہی میں نے ڈنک مار کر تلملا دینے والی بھڑ سے بھی بدلہ نہیں لیا چہ جائیکہ ریاست اور مذہب کو علیحدہ کرنے کی بات کرنے والے سیکیولر شخص کو "کافر" کہہ کر اس سے نہ جانے کس جرم کا بدلہ لینے کا مستحق اور دین میں پوری طرح داخل ہونے کا دعویدار ہو جاؤں۔
ایک طرف طالبان ہیں اور وہ بھی پاکستانی طالبان، افغان طالبان نہیں جو اپنے ملک میں کم ازکم آج مزاحمت کی جنگ لڑ رہے ہیں، جو ریاست کو تو مانتے ہی نہیں ہیں، ساتھ ہی ایک کم عمر لڑکی پر قاتلانہ حملہ کرکے ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سیکیولر، مغرب زدہ اور طالبان مخالف لڑکی بچ بھی گئی تو ہم اسے پھر مارنے کی کوشش کریں گے اور مار دیں گے۔
طالبان پاکستان کا خیال ہے کہ وہ دین اسلام کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں، انہوں نے تو اپنے اس بہیمانہ و بزدلانہ عمل کے حق میں قرآن مجید سے حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے باہمی سفر میں خضرت خضر کے ہاتھوں ایک کمسن لڑکے کے مارے جانے کی تاویل بھی پیش کر دی ہے، یہ سوچے بغیر کہ غیب کا علم صرف اللہ تعٰالٰی کو ہے، جس نے مذکورہ بحری رہنما ہستی کو آگاہ بھی کیا تھا اور اس لڑکے کو مار دینے کا حکم بھی دیا تھا، اب اگر طالبان پاکستان من حیث المجموع یا حکیم اللہ محسود کے ساتھ نعوذ باللہ نبوّت کو جوڑ رہے ہیں تو ایسوں کا نہ تو کچھ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسوں کو دلیل اور علم کی بناء پر سمجھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی مذہبی سیاسی پارٹیوں بالخصوص جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے اور اسی طرح مسلم لیگوں اور پاکستان تحریک انصاف (تھوڑا سا ہنس بھی لیں، کل میں خالصتان موومنٹ کی حیات نو کے بارے میں روسی زبان سے لکھا ایک تبصرہ اردو میں منتقل کر رہا تھا، اس میں PTI کا ذکر آیا تو میں بھنّا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کا خالصتان سے کیا تعلق،لیکن خاطر جمع رکھیے فورآ ہی احساس ہو گیا کہ یہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کا مخفف تھا) نے تحریک طالبان پاکستان کا نام لے کر مذمت نہیں کی تاحتٰی حکومت اور فوج بھی مذمتی بیانات میں باوجود اس کے کہ مذکورہ تحریک نے ہمیشہ ہی دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری لی ہے اس تنظیم یا تحریک کا نام "طالبان پاکستان" استعمال کرنے سے محترز ہیں اور دہشت گرد یا حملہ آور کہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
ایسا کیے جانے کے پس پشت امید اور خدشہ دونوں ہی کار فرما ہیں۔ امید اس بات کی کہ شاید لاتوں کے بھوت باتوں سے مان جائیں یعنی محاورہ ہی غلط ہو جائے۔ خدشہ اس بات کا کہ طالبان پاکستان سے وابستہ کچھ گروہ جو پاکستان کے اندر فی الحال دہشت گردانہ کارروائیاں نہیں کرتے، وہ بھی بگڑ کر دہشت گردانہ کارروائیاں نہ کرنے لگ جائیں اور حالات بالکل ہی قابو سے باہر ہو جائیں۔ حالات قابو میں تو خیر آج بھی نہیں ہیں۔ ایسے گروہ جو بظاہر پاکستان کے اندر دہشت گردی نہیں کرتے وہ لا محالہ صرف عسکری آپریشن کی زد میں آ جانے کی دھمکی کے زیر اثر تو ایسا نہیں کرتے ہونگے، بلا شبہ انہیں کسی قسم کی سہولتیں، رعائتیں یا اعانت حاصل ہوئی ہوگی تو وہ عارضی طور پر باز آئے ہونگے۔
صلح اور سمجھوتے کے ضمن میں آئر لینڈ کی مثال دی جاتی ہے یعنی سرائیکی زبان کے محاورے کے مطابق سکھر دی کتی بکھر دی بھونک۔ کہاں آیر لینڈ اور کہاں وزیرستان۔ یکسر سختی برتنے کے ضمن میں شری لنکا کی مثال دی جاتی ہے جو کسی نہ کسی حد تک درست ہو سکتی ہے۔ ایسا کیے جانے کے بعد ہی اگر کوئی "اچھے طالبان" ہونگے بھی تو انہیں مشروط معافی دے دیا جانا قابل قبول ہو سکے گا۔
ملالہ کے قتل پہ اظہار تاسف کے دوران سوشل نیٹ ورکس پہ ایک بات معترضا" بہت زیادہ دیکھنے میں آئی ہے کہ کیا آپ کو ملالہ کا ہی دکھ ہے، کیا وہ سینکڑوں بچے اور بچیاں آپ کو یاد نہیں جو ڈرون حملوں میں مارے گئے؟ ساتھ ہی یہ سوال کرنے والوں نے عام دہشت گردانہ کارروائیوں میں مارے جانے والوں کے لیے دکھ کی بات بالکل نہیں کی۔ پہلے تو یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ بے قصور لوگ کسی طرح بھی مارے جائیں ،ان کی موت قابل تاسّف ہوتی ہے اور ایسی اموات کے ذمہ دار
قابل مذمت۔ چونکہ مارے جانے والا ہر بچہ یا بچی نہ تو ملالہ کی طرح جری ہوتا ہے ، نہ معروف اور نہ ہی اس کے نام سے شناسائی ہوتی ہے۔ ملالہ ایک نشان، ایک علامت ہے، اس لیے اس پر حملے کی سبھی نے واشگاف مذمت کی ہے۔ دوسرے ڈرون حملے ہمارے اپنے نہیں کر رہے، تیسرے امریکی یہ کارروائیاں اسلام کے نام پر نہیں کر رہے، چوتھے وہ ایسا کرتے ہوئے تاویلیں نہیں دیتے، ان کے پاس ایک دلیل ہے یعنی دہشت گردی۔ پانچویں ڈرون حملے روکنے کی ذمہ داری حکومت اور سب سے زیادہ فوج کی ہے، جو دونوں ہی محض باتیں کرتے ہیں اور درون پردہ ایسے حملوں کے حق میں ہیں چنانچہ ڈرون میں مارے جانے والوں کی اموات کے ذمہ دار آزاد خیال، انسان دوست اور دہشت گردی مخالف عام پاکستانی نہیں ہیں۔ اس حملے کی اور اس حملے کے ذمہ داروں کی جنہوں نے ایسا کرنے کا سرعام اقرار کیا ہے سبھی کو مذت کرنی چاہیے تھی اور کرنی چاہیے،ورنہ یہ سمجھا جانا غلط نہ ہوگا کہ مذمت نہ کرنے والے لوگ اور پارٹیاں دہشت گردوں کے "سلیپنگ پارٹنر" ہیں۔ وما علینا الالبلاغ۔
“