اگر آپ ابھی تک ریاض ہسپتالوی صاحب سے نہیں ملے تو سمجھ لیں کہ آپ کی کوئی دُعا کام آ گئی ہے۔ موصوف ہسپتال میں رہنے کے اتنے شوقین ہیں کہ جس دن گھر میں بیٹھے بور ہو رہے ہوں‘ ایک انگڑائی لیتے ہیں اور کسی ہسپتال کی طرف چل پڑتے ہیں۔ انہیں بیمار ہونے کی بیماری ہے۔ سر میں معمولی سا درد بھی محسوس ہو تو فوراً گھر میں شور مچا دیتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ دن میں چھ دفعہ ایمبولینس کال کرنا ان کا دل پسند مشغلہ ہے۔ اب تو کئی دفعہ ریسکیو 1122 پر کال کریں تو آگے سے آپریٹر خوشگوار موڈ میں پوچھ لیتا ہے 'اور سنائیں ہسپتالوی صاحب! اللہ نہ کرے کوئی خیریت تو نہیں؟‘‘۔
اب ذرا تھوڑا سا ہسپتالوی صاحب کے بارے میں بتاتا چلوں۔ آپ کی عمر 60 سال ہے‘ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سب بچوں کی شادی ہو چکی ہے اور گھر میں اب تین بہوئیں‘ ہسپتالوی صاحب کی اہلیہ اور وہ خود ہوتے ہیں۔ بیٹوں کو شکایت ہے کہ ان کے باپ نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا‘ اپنی زندگی انہوں نے اپنی محنت سے بنائی ہے جبکہ ہسپتالوی صاحب کا کہنا ہے کہ 25 ہزار روپے کی نوکری میں انہوں نے بچوں کو پال پوس کر جوان کر دیا ‘ شادیاں کر دیں‘ یہی بہت ہے۔
ہسپتالوی صاحب کو صحت مند رہنے سے نفرت ہے۔ بیماری اور نقاہت ان کا پہلا پیار ہے۔ سگریٹ بھی اسی جذبے سے پیتے ہیں۔ ایک دفعہ کسی دوست نے انہیں امپورٹڈ سگریٹ کی ڈبیا گفٹ کی تو ایک نظر دیکھنے کے بعد منہ بنا کر واپس کر دی کہ 'میں صرف کینسر والے پیتا ہوں‘۔ رات کو سوتے ہوئے جناب کا ہاتھ بھی سن ہو جائے تو فرط جذبات سے مغلوب ہوکر شور مچا دیتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ آئے دن ڈاکٹر سے اس اُمید پر اپنا چیک اپ کرواتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تو کوئی 'خوشخبری‘ سننے کو ملے گی۔ ان کے گھر والے شدید عذاب میں مبتلا ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا بڑا بیٹا بتا رہا تھا کہ ابا جی نے ایک عجیب کام شروع کر دیا ہے‘ رات کے کھانے میں سالن میں 'گٹکا‘ ڈال کر کھاتے ہیں کیونکہ کہیں پڑھ لیا تھا کہ گٹکا کھانے سے کینسر ہو سکتا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جتنا وہ بیماری کے لیے ترستے ہیں اتنا ہی بیماری ان سے دور بھاگتی ہے۔ وہ جتنی زیادہ بد پرہیزی کرتے ہیں اتنے ہی صحت مند ہوئے جاتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح پتا ہے کہ تربوز کے بعد پانی پینے سے ہیضے کا خطرہ ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ تربوز کے ساتھ نہ صرف پانی پیتے ہیں بلکہ کئی دفعہ تربوز کے ٹکڑے چائے میں بھگو بھگو کر بھی کھاتے ہیں… اس کے باوجود ہیضہ تو دور کی بات ان کے پیٹ میں درد تک نہیں ہوتا۔ مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینا ان کی عادت ہے‘ اس کے باوجود نہ ان کے چہرے پر پھلبہری کے نشانات نمودار ہوئے نہ کوئی اور مسئلہ ہوا۔ موصوف بیماری کے اتنے ترسے ہوئے ہیں کہ پچھلے دنوں زکام ہوا تو قبلہ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی‘ فوراً دوستوں کو گروپ میسج میں یہ خوشخبری سنائی کہ 'ہیپاٹائٹس سی‘ کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
ہسپتالوی صاحب کوئی بہت زیادہ مذہبی انسان نہیں‘ اس کے باوجود جب جب نماز پڑھتے ہیں انتہائی خشوع و خضوع سے اپنے لیے بھرپور بیماری کی دُعا کرتے ہیں۔ محلے میں کسی کے شدید بیمار ہونے کی اطلاع سنتے ہیں تو بھاگ کر پہنچتے ہیں اور پتا کرتے ہیں کہ مریض کو یہ بیماری کیسے لگی؟ اس کے بعد ہر وہ کام کرتے ہیں جس کے بعد یہ بیماری انہیں بھی لگ سکے… لیکن بیماری ان سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔ لوگ ڈاکٹر سے بیماری کا علاج کرانے جاتے ہیں لیکن ہسپتالوی صاحب ڈاکٹر کے پاس بیماری لگوانے کے طریقے پوچھنے جاتے ہیں۔ ایک دن ٹی وی میں سن رہے تھے کہ سخت گرم پانی سے نہانے کے بعد یکدم ٹھنڈے یخ پانی سے نہایا جائے تو پورا جسم اکڑ جاتا ہے اور انسان کو فالج ہو سکتا ہے۔ فوراً گیزر آن کیا‘ سخت گرمی میں پانی مزید گرم کیا‘ ایک ٹب میں پانی بھر کے اس میں دو پٹیاں برف کی ڈالیں… پہلے گرم پانی میں تڑپتے ہوئے غسل فرمایا‘ پھر برفیلا پانی خود پر انڈیل لیا… ایک جھرجھری سی لی اور کچھ لمحوں کے لیے پتھر کے ہو گئے۔ چکر کھا کر گرے اور بمشکل کپڑے پہن کر رینگتے ہوئے باہر نکلے۔ گھر میں شور مچ گیا۔ ہسپتالوی صاحب بتاتے ہیں کہ وہ دل میں دعائیں مانگ رہے تھے کہ بس اب وہ کبھی چلنے کے قابل نہ ہو پائیں… لیکن دعا قبول نہیں ہوئی۔ دس پندرہ منٹ بعد ہی سارے اثرات ختم ہونا شروع ہو گئے اور ہسپتالوی صاحب دوبارہ پہلے والی پوزیشن میں آ گئے۔ اُس رات وہ بہت روئے‘ خدا سے شکوہ کیا کہ مجھ سے ایسی کون سی خطا ہو گئی ہے کہ میری دعا قبول ہی نہیں ہوتی۔ اسی دوران انہیں تھوڑی سی کھانسی آئی‘ دل میں اک لہر سی اٹھی کہ شاید 'ٹی بی‘ ہو گئی ہو‘ فوراً ہسپتال پہنچے… لیکن مایوسی ہوئی‘ ساری رپورٹس نارمل تھیں۔
پچھلے دنوں مجھے رات کے وقت ہسپتالوی صاحب کے بیٹے کا فون آیا کہ ابا جی کی حالت شدید خراب ہے اورکچھ ہی دیر میں ان کا آپریشن ہونے والا ہے۔ فون سنتے ہی میں نے جلدی سے گاڑی نکالی اور ہسپتال کی طرف دوڑا دی۔ میں ان کے بیٹے سے پوچھنا بھول گیا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے؟ تاہم پوچھنا ضروری بھی نہیں تھا‘ اپنی صحت کے ساتھ ہسپتالوی صاحب جو 'کھلواڑ‘ کرتے رہتے تھے ان کی وجہ سے ایسی خبر آنا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ مجھے حیرانی اس بات کی تھی کہ کچھ روز پہلے تک تو ہسپتالوی صاحب کی تمام رپورٹس نارمل تھیں‘ پھر اب اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ نوبت آپریشن تک آ گئی۔
میں وارڈ میں داخل ہوا تو ہسپتالوی صاحب کا منجھلا بیٹا بھاگتا ہوا میرے پاس آ گیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے اسے تسلی دی اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ گھبرا کر بولا 'ابا جی نے زہریلی گولیاں کھا لی ہیں‘۔ میں اچھل پڑا… زہریلی گولیاں؟ یعنی خود کشی؟
بیٹے نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا… جی ہاں… اور اب ڈاکٹر ان کے معدہ صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہتے ہیں بچنے کی امید بہت کم ہے۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا… مجھے یقین تھا کہ ہسپتالوی صاحب نے بقائمی ہوش و حواس یہ حرکت کی ہے اور صرف اس لیے کی ہے تاکہ وہ ہسپتال داخل ہو سکیں۔ اُس رات اُن کی اہلیہ سمیت ان کی ساری فیملی ہسپتال میں کسی بُری خبر کے انتظار میں موجود رہی۔ دو گھنٹے بعد ڈاکٹرز نے خوشخبری سنائی کہ اب ہسپتالوی صاحب کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن انہیں دو دن ہسپتال میں ہی رہنا ہو گا۔
دو دن بعد جب ہسپتالوی صاحب ہمیشہ کی طرح خوش و خرم ہسپتال سے باہر نکل رہے تھے تو میں نے ان کے کان میں پوچھا 'حضور بڑی مشکل سے خود کشی کا کیس ہوتے ہوتے بچا ہے‘ یہ کیا حرکت تھی؟… خدا کے لیے دوبارہ ایسا نہ کیجئے گا‘۔ ہسپتالوی صاحب چلتے چلتے رک گئے… میری طرف دیکھا اور نم آلود آنکھیں صاف کرتے ہوئے آہستہ سے بولے 'زہر کی گولیوں کے بدلے مجھے دو دن کے لیے اپنے بیٹے مل گئے… دو دن کے لیے سب کا دھیان میری طرف ہی رہا… دو دن کے لیے مجھے لگا جیسے میں بھی زندہ ہوں…‘‘
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“