کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی سننے والا اسکے سحر میں گرفتار تھا، وہ پوری طرح اس میں ڈوبا ہوا تھا، اچانک ایک بدقسمت تلاوت بند کر دیتا ہے۔ جو آیت پڑھی جا رہی تھی، مکمل بھی نہ ہوئی تھی۔ آدھی تلاوت ہو چکی تھی، بقیہ آدھی رہتی تھی، سننے والا آنکھیں بند کر کے سُن رہا تھا۔ درمیان میں نعوذ بااللہ کاٹ دی گئی۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی شانِ اقدس میں نعت پڑھی جا رہی ہو، آپؐ کی تعریف ہو رہی ہو، سننے والا بے خود ہو، اتنے میں کوئی بدبخت نعت کو درمیان میں کاٹ دے ابھی تو جو شعر پڑھا جا رہا تھا، مکمل بھی نہ ہوا تھا، ایک مصرع پڑھا گیا تھا دوسرا پڑھا جانا تھا کہ نعت سنانی بند کر دی گئی، سننے والا چاہتا تھا کہ رسالت مآبؐ کی شان میں نعت ہوتی رہے، اور وہ سنتا رہے۔
کلامِ پاک کی شان میں یہ گستاخی اور نعتِ رسول کی یہ بے ادبی ہمارے اردگرد مسلسل ہو رہی ہے، صبح و شام، رات دن اسکا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن گستاخانہ خاکوں پر اپنے ہی ملک کی ٹریفک جام کرنے والوں اور اپنی ہی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والوں کو اس کا شعور ہے نہ پرواہ۔ آپ کسی کو موبائل پر ٹیلی فون کرتے ہیں، جواب میں نارمل گھنٹی کے بجائے تلاوت سنائی دیتی ہے۔ آپ تلاوت میں کھو جاتے ہیں اچانک بدقسمت انسان بٹن دباتا ہے، تلاوت جہاں تھی وہیں ختم ہو جاتی ہے اور وہ ہیلو کہہ کر آپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ آپ کچھ دیر کے بعد ایک اور صاحب کو فون کرتے ہیں جواب میں گھنٹی کے بجائے نعتِ رسولؐ سنائی دیتی ہے۔ محمدؐ کا روضہ قریب آ رہا ہے، آپ کا دل عقیدت اور محبت سے بھر جاتا ہے، آپکی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ’’بلندی پہ اپنا‘‘ لیکن ابھی مصرع پورا نہیں ہوتا کہ نعت ختم کر دی جاتی ہے اور آپ کو ایک کرخت، بدبخت قسم کی ’’ہیلو‘‘ سے سابقہ پڑتا ہے۔ اگر آپ ان بدبختوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ موبائل فونوں پر تلاوت اور نعتِ رسولؐ کا استعمال نہ کرو تو وہ آپ کو ایک ہی جواب دیں گے۔ ’’تم ہمیں تلاوت اور نعت سننے اور سنانے سے منع کرتے ہو؟‘‘
آپ اس سارے معاملے پر غور کریں تو آپ ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہم مذہب کے نام پر ہر وہ کام کرتے ہیں جس کی ضرورت ہے نہ فائدہ اور نہ ہی حکم دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام ہماری زندگیوں میں عملی طور پر داخل نہ ہو، یعنی جو ضروری ہے وہ ہم نہیں کر رہے اور جو قطعاً غیر ضروری ہے وہ ہم کر رہے ہیں اور نہ صرف کر رہے ہیں بلکہ احمقانہ طور پر یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ اسلام ہے اور عین اسلام ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام مسجد میں مقفل ہے۔ وہ وہاں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ہم پانچ وقت مسجد میں حاضر ہوتے ہیں۔ اسلام کو گلے سے لگاتے ہیں۔ پھر اُسے وہیں بٹھا کر مسجد سے نکل آتے ہیں۔ مسجد سے باہر اسلام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اب ہم ظہر کی نماز تک اسلام کے تقاضوں سے اسلام کی عائد کردہ پابندیوں سے آزاد ہیں۔ اب ہمیں جھوٹ بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ظہر تک ہم نے وعدہ خلافی کرنی ہے۔ کم تولنا ہے، ماپتے وقت کمینگی کا ثبوت دینا ہے۔ جعلی دوائیں بنانی ہیں اور فروخت کرنی ہیں۔ کوئی ملنے والا آجائے تو اُس شخص کی جو موجود نہیں، زور و شور سے برائی کرنی ہے، دفتر میں سائل یا دکان میں گاہک آ جائے تو سرد مہری سے پیش آنا ہے، کسی رشتہ دار کی مدد کرنے کا معاملہ ہو تو بیس سال پہلے والا واقعہ یاد کر کے رشتہ دار کو بُرا ثابت کرنا ہے اور گھر والوں کو قائل کرنا ہے کہ ہم اس مصیبت میں مدد نہیں کر سکتے نہ اُسکے غم یا خوشی میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اتنے میں ظہر کی اذان سنائی دیتی ہے، ہم ٹوپی ڈھونڈتے ہیں، سر پر رکھ کر مسجد کی طرف دوڑتے ہیں۔ مسجد میں بند اسلام کو پندرہ منٹ کیلئے گلے سے لگاتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، مولوی صاحب کو تکبر سے یوں سلام کرتے ہیں جیسے وہ ہمارے ذاتی ملازم ہوں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ مسجد کیلئے ایک نیا پنکھا اور دو نئی قالینی صفیں شام تک پہنچا دی جائینگی۔ اسلام کو مسجد میں عصر تک کیلئے بند کرتے ہیں اور عصر کی نماز تک کھُل کھیلنے کیلئے باہر آتے ہیں اور آتے ہی ’’بھِڑ کوڈی بھڑ کوڈی‘‘ کا نعرہ لگانے لگ جاتے ہیں۔
حلیم بیچنے والے نے کھوکھے پر آیت لکھائی ہوئی ہے ’’اللہ سب رازقین سے بڑا رازق ہے‘‘۔ اُس سے پوچھیں کہ تم حلیم میں ٹشو پیپر کیوں ڈالتے ہو تو مسکین شکل بنا کر جواب دیگا کہ خالص حلیم بیچوں تو نفع کم ہوتا ہے‘ اُسکے نزدیک کھوکھے کی پیشانی پر آیت لکھوا کر اُس نے اسلام کے سارے تقاضے پورے کر دیئے ہیں۔ محلے کی بیگمات نے آج شام جمع ہو کر آیت کریمہ کا ورد کرنا ہے۔ وہ مطمئن ہیں کہ یہی اسلام ہے، رہے شوہر کے بچوں کے اور عزیز و اقارب کے حقوق، یا اسراف و تبذیر سے احتراز تو یہ تو سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ملک صاحب نے جمعرات کی شام دیگیں پکائی ہوئی ہیں۔ ایک ہزار لوگ کھانے پر آرہے ہیں جن میں غریب غربا بھی شامل ہیں۔ ملک صاحب خوش ہیں کہ اسلام پر عمل پیرا ہیں، رہے وہ ایک سو سرکاری مکان جو انہوں نے تعمیر کئے ہیں اور ان میں ملاوٹ والا سیمنٹ، غیر معیاری لوہا، تھرڈ کلاس کھڑکیاں اور جلد ٹوٹ جانیوالے دروازے لگائے ہیں اور غسل خانوں کے پائپ ابھی سے بند ہو رہے ہیں اور سیوریج میں پیا جانیوالا پانی مِکس ہو رہا ہے تو اس کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو دنیاوی معاملات ہیں!
ہم لوگ سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ شہد کو اسلامی شہد، بیکری کو مدینہ بیکری، نہاری ہائوس کو محمدی نہاری ہائوس کہہ کر ہم اسلامی تقاضوں سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں۔ محل کے اوپر ’’ماشاء اللہ‘‘ لکھ کر، دکان پر ’’ہذا من فضلِ ربی‘‘ کا بورڈ لگا کر ویگن پر سیاہ کپڑے کا جھنڈا لگا کر ہمارا کام ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ سب وہ کام ہیں جو ضروری ہیں نہ جن کا حکم ہے، حساب تو اُس مال کا ہو گا جو کمایا جا رہا ہے اور پرسش اُس خرچ کی ہو گی جو کیا جا رہا ہے۔ ایک ایک رشتہ دارکے حق کا جواب دینا ہو گا۔ والدین کو کہے جانے والے ایک ایک لفظ کا سامنا کرنا ہو گا‘ وہاں یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ تمہاری دکان کا نام کیا تھا اور ناجائز مال سے بنائے گئے محل کے اوپر تم نے یہ کیوں نہیں لکھا تھا اور وہ کیوں نہیں لکھا تھا۔
ہمارا المیہ اور زیادہ المناک ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ منبر و محراب پر اسلام کی تلقین کرنے والے اس صورتحال سے یکسر بے نیاز ہیں۔ ان حضرات کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کہیں وہ مخیر حضرات ناخوش نہ ہو جائیں جو مسجدوں اور مدرسوں کو نقد اور اجناس کی صورت میں خطیر امداد دیتے ہیں۔ یہ وہ بیماری ہے جو مسجدوں کو ’’پرائیویٹ‘‘ بنا کر اس ملک کو لاحق کی گئی ہے۔ ترکی، ملائیشیا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور کئی دوسرے اسلامی ملکوں میں مسجدیں ریاست کی ملکیت ہیں اور نسل در نسل ایک ہی خاندان کی جاگیر نہیں بنتیں۔
پھر وہ ’’روحانی شخصیات‘‘ ہیں جو بالائی طبقات کو خوش کرنے کیلئے میدان میں موجود ہیں‘ ان حضرات کی ’’پی آر‘‘ کا سلسلہ اتنا وسیع و عریض ہے کہ اخبارات انکی مدح و توصیف میں اٹے پڑے ہیں۔ اس مکتب فکر کے بانی قدرت اللہ شہاب تھے۔ اسکے بعد لائن لگ گئی، اللہ دے اور بندہ لے، یہ اپنے امیر کبیر ’’ملاقاتیوں‘‘ کو کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ اکِل حلال، فرائض کی سرانجام دہی اور کبائر سے اجتناب لازم ہے، یہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ یہ اسم اتنی بار پڑھ لو، ’’ملاقاتی‘‘ کو نفسیاتی تسکین حاصل ہوتی ہے کہ ہاں! میرا بھی اسلام سے تعلق ہے اور ’’روحانی شخصیت‘‘ کا شہرہ بھی مسلسل پھیلتا رہتا ہے۔ واہ کیا آسان اسلام ہے۔ جس کا عملی زندگی سے دُور کا تعلق بھی نہیں!
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
http://columns.izharulhaq.net/2010_11_01_archive.html
"