نوٹ: مندرجہ ذیل تحریر اسکاٹ لینڈ کے مشہور فلسفی ڈیوڈ ہیوم کے نظریہ تجربیت کا میری زبانی ایک عام فہم تعارف ہے۔ اس میں نہ تو میرا اپنا کوئی دعویٰ ہے نہ کوئی دفاع۔ براہ کرم اپنے کمنٹس میں غیر متعلقہ سوال سے اجتناب فرمائیں۔ تنقید متن کے پیرائے میں رہ کر کریں۔ اچھی تنقید پر جواب کی کوشش ہوگی۔ بصورت دیگر شدید اختلاف کی صورت میں پوسٹ فوری مٹا دی جائے۔ شکریہ
انسانی علم کا ماخذ تجربہ ہے عقل reason نہیں۔ عقل ان تجرباتی معاملات سے ہی نتائج اخذ کرتی ہے جو اسی دائرہ کار میں محدود رہتے ہیں۔ یہاں تجربات سے مراد کوئی سائنسی تجربات نہیں بلکہ وہ تمام تجربات ہیں جو پیچیدہ حواس خمسہ سے منسلک ہیں اور یہی ذہن میں خیالات و تصورات اور تخیل جنم دیتے ہیں۔
مگر حوا س خمسہ کے عمل اور ردعمل کو تجربات کیوں کہا جائے ؟
یہ اہم سوال ہوا۔ اس بارے میں یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ تجربات سے مراد دراصل حواس خمسہ کے عمل اور ردعمل اور ان سے وابستہ ذہنی واقعات ہیں۔ ہر حیات اپنے اردگرد کے ماحول سے وابستہ ہے جو قائم و دائم رہنے کا ایک فطری سلسلہ ہے۔ اسے تجربات کے پیرائے میں اس طرح دیکھنا بھی ضروری ہے ان پر حیات کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ حواس خمسہ ہمیشہ اپنے ماحول سے کچھ وصول کرنے کی پوزیشن میں رہتے ہیں۔ حواس خود سے کوئی تجربہ پیدا نہیں کر سکتے۔ آنکھ کھلے گی تو سب دیکھنا پڑے گا جو سامنے ہے۔ آنکھ خود سے کوئی منظر پیدا نہیں کر سکتی اور یہی معاملہ دیگر حواس خمسہ کا بھی ہے۔
دوسرے الفاظ میں حسیاتی تجربات پر ہماری کوئی مرضی نہیں چل سکتی۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ پھر ہماری مرضی کہاں چلتی ہے؟ اس پر کسی اور سطح پر بات ہو گی۔
حسیاتی تجربہ بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جس کے تانے بانے عقل سے جڑے ہوئے ہیں۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ جسے عقل reason کہا گیا اسے فلسفہ میں وہ درجہ دے دیا گیا جو اس کی بساط سے باہر تھا۔ یعنی عقل کو انسانی علوم کا ماخذ source قرار دے دیا گیا۔ ہمارے نظریہ کے مطابق یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ عقل اس سے زیادہ نہیں سوچ سکتی جو حسیاتی مواد سے درآمد شدہ ہو۔ یہاں تک کہ ہمارے تمام تخیل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر اڑنے والے گھوڑے کا تصور دو مختلف جانوروں کو دیکھنے کے بعد تخیل میں ایک پرندے کے پر اور دوسرے چوپائے کے جسم کو جوڑ دینے کا معاملہ ہے جن کو آپ نے جاگتے میں الگ دیکھا تھا۔ تخیل imaginatio اس معاملے میں آزاد ہے۔ ایسے بے شمار تصور یا تخیل جاگتی یا سوتی حالت میں ذہن میں آتے ہیں جن کو حقیقت سمجھنا عقل کا پھیر ہے۔
اب رہا معاملہ تجریدی abstract آئڈیاز کا جن کا سراغ لگایا جائے تو وہ بھی حسیاتی تجربات سے ماخذ کیے گئے ہیں اور علامتیں ہیں۔ مگر قدیم فلسفہ میں میں ان تجریدی خیالات کو حقیقت کا درجہ دے دیا گیا بلکہ بعض صورتوں میں زیادہ حقیقی قرار دے دیا گیا (افلاطون). اور یہ سمجھ لیا گیا کے ان تجریدی خیالات یا آئیڈیاز پر مشتمل کوئی اور دنیا ہے جو زیادہ حقیقی اور مکمل ہے اور نا قابل تغیر ہے۔ حالانکہ یہ تجریدی خیالات یا آئیڈیاز تو حسیاتی تجربہ سے ماخوذ اشیا کے ذہنی خاکے ہیں وہ اشیا جن سے مادہ content الگ کر دیا گیا اور فارم form کو ہی ماورائی شے سمجھ لیا گیا۔
الغرض انسان خواب میں بھی کوئی ایسی شے نہیں دیکھ سکتا جو اس نے جاگتی آنکھوں سے کبھی نہ دیکھی ہو۔ اگرچہ اس کی صورت کچھ بدل چکی ہوتی ہے جو محض آزاد تخیل free imagination کا کمال ہے.
متذکرہ بیانیہ کا مقصد یہ ہے کہ فلسفیانہ علوم میں اس معاملے کو یعنی علم کے ماخذ کو زیادہ تر اس طرح لیا گیا جیسے عقل کا سلسلہ کہیں اور کا ہے اور حسیاتی تجربات کا کہیں اور کا۔ جبکہ درحقیقت یہ دونوں آپس میں ہی منسلک ہیں۔ عقل reason کے پیروکاروں rationalists کے نزدیک انسانی علم کے معاملے میں مادی دنیا کے سلسلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ عقل وہ یقینی نتائج سامنے لا سکتی ہے جو حواس خمسہ نہیں دے سکتے بلکہ حواس خمسہ تو اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں اس لئے ان کے مواد پر یقین کرنا ممکن نہیں۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ حسیاتی تجربات کی بنیاد پر ہی تو انسان نے فطرت کے قوانین اخذ کیے مگر ان میں عقل کی جانب سے وہ بھی شامل کر ڈالا جو ان میں موجود نہیں تھا۔ ان قوانین میں سب سے بڑا قانون فطرت جسے سائنسی قانون بھی کہا جا سکتا ہے قانون علت و معلول causality ہے۔ دو واقعات کا آپس میں اس طرح منسلک رہنا کے جب بھی ایک واقعہ A ہو اس کے فوری یا کچھ دیر بعد ایک دوسرا واقعہ B ہو اور ہمیشہ یہ دونوں ایک ساتھ ہوتے دیکھے گئے ہوں اور ایسا کبھی نہ ہوا کہ ان کو الگ دیکھا گیا ہو تب پہلے واقع کوعلت cause اور دوسرے کو معلول effect قرار دے دیا گیا۔
مگر ہمارے نزدیک اہم ترین سوال یہ ہے کہ علت و معلول میں ہم نے دراصل کیا دیکھا۔ ہم نے دو الگ الگ واقعات کو ہمیشہ ایک ساتھ ہوتے دیکھا اس سے زیادہ ہم نے کچھ نہیں دیکھا۔ مگر عقل نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان دو واقعات کا آپس میں کوئی لازمی رشتہ ہے۔ حالانکہ ہم نے وہ لازمی رشتہ نہیں دیکھا ہم نے صرف واقعات کو دیکھا اور ان کے ایک ساتھ آگے پیچھے ہونے کو دیکھا۔ اور اگر کبھی ان میں سے ایک کو الگ ہوتے دیکھا اور دوسرے کو نہ ہوتے دیکھا تو اس کے نہ ہونے کو کسی اور واقعے سے منسوب کر کے یہ سوچا کہ ضرور کوئی اور وجہ ہوگی ورنہ پٹاخہ پُھس نہ ہوتا لازمی پھٹتا۔
فلسفیانہ اور سائنسی اعتبار سے یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ علت و معلول کے رشتے کو لازمی قرار دینا علت و معلول کے حسیاتی تجربہ سے زیادہ کا دعوی ہے جو سائنس کے لحاظ سے بھی نامناسب ہے۔ اس پر لازمی کا لیبل لگانا محض ذہنی اختراع ہے جس کا تجرباتی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی سوچ لیا گیا کہ علت و معلول میں جڑے واقعات میں سے ضرور کوئی چیز یا توانائی energy ایک واقعے سے دوسرے واقعے میں منتقل ہوتی ہے۔ اہم بات یہ سامنے لائی جا سکتی ہے کہ اگر توانائی بھی باریک ترین مادی ذرات کی حرکت کا نام ہے تو اپنی آسانی کے لئے ان ذرات کو بلیئرڈ بال (سنوکر کی گیند) تصور کر لیں. ایک بال حرکت کرتے ہوئے دوسرے سے ٹکراتا ہے تو دوسرا ہلتا ہے۔ ہم نے پہلے ایک بال کو ہلتے دیکھا پھر وہ ٹکرایا پھر آواز آئی اور دوسرے بال کو ہلتے دیکھا۔ گویا ہم نے تین واقعات دیکھے اس سے زیادہ کچھ نہیں دیکھا۔ تو پھر کیا چیز ایک بال سے دوسرے بال میں منتقل ہوئی؟ اس کا جواب نہ تو سائنس کے پاس ہے نہ فلسفے میں۔ کیونکہ بال کو باریک ترین مادّی ذرّات سمجھ کر بھی وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو بال کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ یعنی ایٹم یا مالیکیول یا اس سے بھی چھوٹے ے ذرات جن پر توانائی مشتمل ہے۔
چنانچہ حسیاتی تجربات سے زیادہ کے عقلی دعوے یا تو ایسے مفروضات ہیں جو ثابت نہیں ہو سکتے یا تخیل کی پرواز۔ لب لباب یہ ہے کہ انسانی ذہن حسیاتی مواد sense impressions اور خیالات ideas کا ایک عظیم جمگھٹا ہے۔ عقل کا کام ان سے ہی تجریدی نتائج اخذ کرنا ہے مگر پھر ان تجریدی نتائج کو وجود بخش دینا عقل کا ہیر پھیر ہے
شکریہ