انت ہے کیا اب ہمارا؟
ہم جو ناطق ہیں ، مگر حیواں بھی ہیں ؟
حالِ حاضر سے پسِ ِ فردا، بالاآخر؟
کیا ہم اپنے ارتقا کی آخری سیڑھی پہ پاوں رکھ چکے ہیں؟
کیا یہی کچھ حاصل ِ لاحاصلی تھا؟
ہم لیے پھرتے ہیں اب تک
کان ، آ نکھیں ، ناک ، یا کچھ حصے، بخرے
چارپایوں کے جنہیں ہم جانور گردانتے ہیں ؟
کیا نہیں تھا اور بھی تحویل میں کچھ؟
تم نے لاکھوں بسال پہلے یہ بتایا تھا کہ ہم
ذی روح ہیں، اشرف خدائی میں ۔۔۔۔
سبھی سے برتر و افضل۔۔۔مگر ہم جسم بھی ہیں
(جسم، یعنی جانور ہونے کا ورثہ)
روح تو ـ’’بے انت ‘‘ کا حصّہ ہے، نوری اور ابدی
اب کہو ، کیا آخری سیڑھی سے آگےکوئی چھت ہے
جس پہ آدم اور ملائک اک برابر نور کا حصہ ہیں
(ایسا نور جو خاکی نہیں ہے؟)
اور کیا اس آخری چھت پر ہہنچ جانے کی صورت میں ہمارا
کمتر و کہتر مویشی کے بدن میں
لوٹ ٓآنے کا تو کچھ امکاں نہیں ہے؟
ایلچی ، بولو
تمہارے آخری پیغام کے ہم منتظر ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...