پچھلے تقریباً دو ، اڑھائی سال سے مُجھے بڑے بیٹے کے لئے رشتے کی تلاش تھی ۔
اس معاملے میں سب سے پہلے دل میں یہ طے کیا کہ صرف وہ ہی کروں گا جو اللّٰہ پاک کا حکم ہے ۔ نا اِس سے کم ، نا زیادہ ۔
دل ہی دل میں دوسری بات یہ طے تھی کہ رشتہ ہر صورت اُس گھر میں کرنا جس گھر کے فیصلے مرد کرتے ہوں ، یوں نا ہو کہ جو کچھ بچی اپنے میکے میں اپنے ماں باپ درمیان دیکھتی رہی وہ ہی سسٹم میرے گھر میں چلا دے ۔ میری ہونے والی بہو خود سر نا ہو ، ایسی نا ہو کہ جسے خاوند کو پیچھے کر کہ خُود آگے چلنے کی عادت ہو ۔
اس مقصد کے لئے فیصل آباد اور گرد و نواح میں چار پانچ گھروں کا چکر لگایا ۔ زیادہ تر یہ ہی دیکھا کہ لڑکی سے متعلقہ خواتین ہی بات کرتی ہیں ۔ مرد حضرات کو بولنے ہی نہیں دیا جاتا ۔ گھر کا مرد ایک کارنر میں سر جُھکا کر بیٹھا ہے اور خواتین بولے جا رہی ہیں ، یوں جیسے بچی کے مستقبل کے فیصلے میں باپ کا کوئی تعلق ہی نا ہو ۔
کچھ جگہ تو ایسا ہوا کہ بچی کے والد صاحب اپنی بیٹی کے لئے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں بولنے کا موقع دئیے بغیر بہانے سے باہر بھیج دیا گیا یعنی نا وہ موجود ہوں اور نا بات کریں ۔
ایک جگہ تو بات تقریباً طے ہو چکی تھی ۔ میں اور بیٹے کی ہونے والی ساس صاحبہ بہو رانی کے کپڑوں کی خریداری کے لئے بازار گئے ، لیکن چونکہ سب کچھ خواتین کی مرضی سے چل رہا تھا ، کافی مہنگے کپڑے پسند کئے گئے ، میری اتنی حیثیت ہی نا تھی کہ میں ان محترم خاتون کی خواہش کے مطابق خریداری کرتا تو عین موقعے پہ مجھے کوہ نور پلازہ میں ہی اس رشتے سے معزرت کرنا پڑی ۔ سمجھ میں یہ آیا کہ اگر لوگوں یا بطور خاص خواتین کو خود کما کر اپنی خواہشات پوری کرنا پڑیں تو وہ اپنے سارے شوق بھول جائیں ۔
دو مقامی گھر ایسے تھے کہ جو دل کو بہت بھائے ۔ بہت پیاری بچیاں اور نیک گھر تھے ۔ سب کچھ میری مرضی کے عین مطابق ۔ اُن لوگوں کو بھی میرا بیٹا اچھا لگا ۔ لیکن جب تسلی سے ساری بات سوچی تو ارادہ بدل دیا ۔ میرے والا گدھا اس قابل نا تھا کہ میں ایسی کوئی شاندار بیٹی اس کی بیوی بناتا ۔ اپنے آپ کو بچی ساتھ اس بے انصافی پر قائل نا کر سکا ۔ اگر یہ رشتہ ہو جاتا تو وہ ایسے تھا کہ جیسے کوے ساتھ بلبل باندھ دی جائے اور یا گدھے ساتھ ہرنی کا رشتہ ہو جائے ۔
رشتے کرانے والی دو تین خواتین اور ایک مرد سے بھی بات کی ۔ وہ مجھے سات آٹھ گھروں میں لے گئے ۔ بہت کچھ اچھا لگا لیکن وہ جو میری خواہش تھی کہ رشتہ اس گھر میں کرنا کہ جہاں فیصلہ کن حیثیت مرد کی ہو ۔ یہ کہیں بھی پوری نا ہو رہی تھی ۔ باقی چیزوں سے کمپرومائز کرنا میرے لئے ممکن تھا ۔ امیری غریبی ، شکل صورت ، رنگ روپ ہر چیز سے گزارہ ممکن تھا لیکن اس بات سے ناممکن ، سو دو اڑھائی سال آنیوں جانیوں میں گزر گئے اور بات کہیں طے نا ہو سکی ۔
اسی دوران چند ایک بچیوں والوں نے بھی لڑکا دیکھ کر خود سے پیغام بھیجا ۔ رشتے دیکھنے جاتا رہا لیکن بات پھر وہی ، گھر کے مرد صرف ہوں ہاں تک رہتے ، انہیں بولنے کی اجازت ہی نا تھی جب کہ خواتین کی باتیں ختم ہی نا ہوتیں ۔ وہ جو بھی بات کرتیں خواتین کے نقطہ نظر اور حق میں ہوتی جس سے بات کا اعتدال ختم ہو جاتا سو بیٹے کے نصیب لٹکتے ہی رہے اور قریباً دو سال بات کہیں بھی طے نا ہو سکی ۔
اسی دوران اپنا ایک کزن اور بچپن کا دوست یاد آیا ۔ نیک اور کھاتے پیتے لوگ ہیں ۔ وہاں میری خواہش مطابق ماحول تھا ۔ ان سے بات کی ۔ انہیں بات بہت اچھی لگی اور یوں وہاں بیٹے کی بات طے کر دی ۔
میری سگی بیٹیاں ، میرا خون ، تو میرے گھر میں چودہ پندرہ سال رہیں ، وہ اب اگلے گھر کی بیٹیاں ہیں ۔ بہو صاحبہ تو تمام عمر یہاں گزاریں گی ۔ سو میری اصلی بیٹیاں اور وارث تو بہویں ہی ہوں گی ۔
میری بیٹیاں تو میرے گھر مہمان تھیں ، آئیں ، چند سال رہیں اور چلی گئیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...