اصل حاکم سچل مقصد
نجی محفل تھی۔ نااہل کردہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی متنازعہ ریلی اسی روز اختتام کو پہنچی تھی۔ وزارت خارجہ کے ایک اعلٰی نمائندے زور دے رہے تھے بات جو بھی ہو کہا یہ جا رہا ہے کہ اس ریلی سے نواز شریف کی مقبولیت بڑھی ہے۔ اپنی کہی بات کو مستند کرنے کی غرض سے وہ نون لیگ سے متعلق اچھے الفاظ بھی استعمال کر رہے تھے۔ بالآخر عسکری نمائندے کو یہ کہہ کر ٹوکنا پڑا کہ اس ریلی میں خود نون لیگ کے زعماء شامل نہیں رہے۔ عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اس طرح منہ کھول کر باتیں کرنے سے نواز شریف کو کسی افتاد کا سامنا کرنا پڑے۔ وزارت خارجہ کے نمائندے نے اس لفظی مداخلت کو شاید تنبیہہ جانا اور اس بارے میں مزید بات نہیں کی۔ کچھ لوگوں نے جب اس جانب توجہ دلائی کہ میاں نواز شریف نے عدالت عالیہ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے باوجود اپنی ریلی میں حکومت پنجاب کے بے تحاشا وسائل استعمال کیے تو اس پر عسکری نمائندے نے کہا یہ معمولی بات ہے۔
ایک اور محفل میں کسی نے نوید سنائی کی شریف فیمیلی کی سیاست تمام ہو چکی۔ ساتھ ہی پوچھا کیا وجہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا گیا ہے؟ عرض کی کہ حضور اراکین اسمبلی کی رائے دہی سے بنے ہیں۔ بولے واہ ایسے ہی ، بھئی قطر نے کہا ہے جو بھی ہو جائے ہمارے ساتھ کیا گیا ایل این جی کی خرید کا معاہدہ متاثر نہیں ہونا چاہیے، چونکہ اس معاپدے پر وزیر برائے توانائی کی حیثیت سے شاہد خاقان عباسی کے دستخط تھے اس لیے قطر کے دباؤ کے باعث انہیں وزیر اعظم منتخب کروایا گیا ہے۔ ایک اور باخبر محکمے کا اہلکار بولا ویسے تو ایل این جی لائسنس کیس میں ان کا نام ہے تاہم قطر مدد کرے گا۔ ساری بات اس لیے اوپر سے گذر گئی کہ سعودی قطر مخاصمے بارے سب آگاہ ہیں۔ یمن میں فوج نہ بھیجے جانے سے میاں نواز شریف کے اغماض سے بھی لوگ ناآگاہ نہیں۔ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی مشترکہ فوج کی سربراہی بھی عیاں ہے۔ راحیل کس محکمے کی نمائندگی کرتے ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں چنانچہ سعودی عرب کی ہمدردیوں کی سمت سے متعلق بھی کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ سعودی عرب جس نے باقی عرب ملکوں کے ساتھ مل کر قطر کی معیشت کو شدید دھچکا پہنچانے کی کارروائیاں کی ہیں کیا وہ چاہے گا کہ قطر ایل این جی کی فروخت سے آمدنی حاصل کرتا رہے، ایسا کیوں ہوگا؟ ویسے بھی بین الاقوامی تجارتی معاہدے حکومتوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوا کرتے۔
جس کے منہ میں جو آتا ہے کہے جاتا ہے۔ وزارت خارجہ سے وزارت داخلہ تک، وزارت دفاع سے وزارت عوام تک سبھی سیاست پر رائے دینا اپنا فرض اولیں خیال کرتے ہیں۔ کرنے کو کچھ ہے نہیں تو سیاست میں منہ ماری کرتے رہو۔
کوئی بھی فیصلہ ہونے کے بعد سزا یافتہ کا حق ہوتا ہے کہ وہ ہونے والے فیصلے کو سمجھے تو غلط کہے۔ اپیل کی شکل میں کہے یا ببانگ دہل کہے۔ عدالت چاہے عظمٰی ہو یا عالیہ غلطی سے مبرا نہیں ہوتی۔ دوسرا عدالتوں کو شہادتوں پر فیصلے دینے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وکلائے صفائی یا تو مشاق نہیں ہوتے یا اضمحلال کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ملزم مجرم ثابت ہو جاتا ہے۔ آج تو انتہا ہو گئی کہ خبر کے مطابق کسی نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کر دی ہے کہ میاں نواز شریف کو غدار قرار دیا جائے۔ دلیل یہ ہے کہ آئین اور عدلیہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر وہ سرعام کہتے پھر رہے ہیں اور مزیدار بات یہ کہ اپیل سماعت کے لیے منظور بھی کر لی گئی ہے۔ آئین پر اعتراض نہ ہوں تو آئیں میں ترامیم کیسے اور کیونکر ہوں۔ عدالتوں کے فیصلوں اور منصفین کے اطوار پر انگلی نہ اٹھائی جائے تو دونوں کی اصلاح کیسے اور کیونکر ہو سکے۔ آئین اور انصاف پر اعتراض صرف وہاں نہیں اٹھائے جا سکتے جہاں مطلق العنانیت ہو۔
کیا پاکستان میں غیر اعلان شدہ مطلق العنانیت تو نہیں؟ بظاہر ایسا لگتا نہیں ہے مگر سبھی جانتے ہیں کہ گنگا کہاں سے بہتی ہے۔ میاں نواز شریف کو چاہے "جھگڑا مول لینے" کا شوق ہو یا کہنے والوں کے بقول انہیں اقتدار میں رہتے ہوئے جمہوریت یاد نہیں آئی مگر نااہل ہوتے ہی یاد آ گئی، مگر اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ماہیت قلبی ہو سکتی ہے۔ مولانا روم کئی دنوں شمس تبریز سے گفتگو کرنے کے بعد یکسر بدل گئے تھے۔ زرکوب کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ چاہے میاں نواز شریف کا روحانیت سے کوئے تعلق نہ ہو لیکن انسان کو بدلنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ اگر جو وہ کہہ رہے ہیں محض انتخابات کے لیے لائحہ عمل نہیں بلکہ ان کی تبدیل شدہ حکمت عملی ہے تو ان کے کہے کا خیر مقدم کرنا چاہیے مگر ہمارے ہاں ریت رہی ہے کہ کوئی کسی کے سر کلاہ برداشت نہیں کرتا۔ اس سے بشمول پی پی پی اور اے این پی کے کوئی بھی مبرا نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نون لیگ سمیت سب ایک دوسرے کے سر پر کلاہ رکھتے ہوں، یہ کلاہ رکھنا فارسی زبان کے محاورے "کلاہ میذاری" والا ہے یعنی احمق بنانا ، دھوکہ دینا وغیرہ۔
اگر نواز شریف فی الواقعی حکومت کلی طور پر سیاستدانوں کے ہاتھ میں دیے جانے کا قصدکیے ہوئے ہیں تو اس سے اچھی بات کوئی نہیں مگر انہیں کوئی ایسا کرنے کیوں دے گا اور وہ بھی احمق نہیں کہ نعمت ہائے غیر مترقبہ چھوڑ کر نان جویں پر قناعت کرنے پر رضامند ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نہ شاہد خاقان عباسی کو قطر کے دباؤ پر وزیر اعظم بنایا گیا ہے اور نہ میاں نواز شریف اتنے بھلڑے ہیں کہ وہ کوئی انقلاب ونقلاب لائیں گے۔ وہ صرف اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھنے کی سعی کر رہے ہیں اور جو اصل حاکم ہیں وہ 2018 میں 1970 کے سے شفاف انتخابات کرائے جانے کی کوشش کریں گے تاکہ کسی پارٹی کے ہاتھ اکثریت نہ آ سکے اور یوں اصل حاکم وہی کرتے رہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلّا!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔