ہم پاکستانی عوام مزے میں ہیں۔ اُس خوش قسمت شخص کی طرح جسکے دل کی شریانیں بند ہو رہی تھیں لیکن اُسے معلوم ہی نہ تھا۔ وہ بکرے کے مغز سے لےکر بھینس کے پائے تک اور شیرے سے لبالب بھری ہوئی جلیبی سے لےکر گھی میں تیرتے سوہن حلوے تک سب کچھ کھا رہا تھا اور ڈٹ کر کھا رہا تھا اور وہ جسے اپنے دل کی بیماری کا علم تھا وہ علاج بھی کرا رہا تھا، پرہیز بھی کر رہا تھا اور ڈر بھی رہا تھا۔اس لیے کہ آگہی عذاب ہوتی ہےاور بے خبری میں عیش ہی عیش ہے۔
ہم پاکستانی عوام کو معلوم ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک تو خواندگی کا تناسب پندرہ بیس فی صد سے زیادہ نہیں اور اس پندرہ بیس فی صد میں بھی اُن لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جن کی بین الاقوامی میڈیا تک رسائی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا سے مراد صرف وہ ذرائع نہیں جو امریکہ کے نکتہ نظر کا پرچار کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے اب اُن ذرائع ابلاغ تک بھی پہنچا جا سکتا ہے جو امریکی استعمار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام کو اس کا اندازہ ہی نہیں کہ دوسرے ملکوں میں بڑے سے بڑا شخص بھی جرم کر کے بچ نہیں سکتا۔ ہمارے اخبارات اُن جرائم سے بھرے ہوئے ہیں جن کا ارتکاب کرنےوالے ہمارے ملک میں مزے سے صرف رہ ہی نہیں رہے بلکہ عزت سے رہ رہے ہیں!
آپ یہ دیکھیے کہ 197 ملکوں کی معیشت کو ”درست“ کرنےوالے آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کے سربراہ سٹراس کاہن کو بھی ان اہل مغرب نے قانون کے حوالے کر دیا۔۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے کاہن باسٹھ سال کے ہیں۔ دو دن پہلے وہ نیویارک سے فرانس جا رہے تھے کہ امریکی پولیس نے انہیں جہاز سے اتارا اور جیل میں ڈال دیا۔ موصوف ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ تین ہزار ڈالر یعنی پونے تین لاکھ روپے ایک دن کا کمرے کا کرایہ تھا لیکن انسانیت کا معیار ہوٹل کے معیار سے مختلف ہے۔ کاہن نے کمرے کی صفائی کرنےوالی ملازمہ پر حملہ کر دیا اور اسے گھسیٹ کر بیڈ روم میں لے جانے کی کوشش کی، ملازمہ نے مقابلہ کیا اور بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ کاہن نے فوراً کمرہ چھوڑا اور جہاز میں بیٹھ کر بھاگنے ہی والے تھے کہ پولیس پہنچ گئی۔ آنےوالے انتخابات میں وہ فرانس کی صدارت کے بھی امیدوار بننے والے تھے۔ آپ پوری دنیا کی رہنمائی کرنےوالے ان حضرات کی اخلاقی حالت دیکھئے، لیکن ہمارے لئے یہاں ایک اور سبق بھی ہے۔ آئی ایم ایف کا سربراہ وہی بنتا ہے جو امریکہ کا خاص آدمی ہو، اسکے باوجود امریکی پولیس نے کاہن کا لحاظ نہیں کیا، جہاز سے اتارا اور قانون کے سپرد کر دیا!
ہم پاکستانی مزے میں ہیں، اس لئے کہ ہمیں پاکستان سے باہر کے حالات کا علم تو نہیں ہے، یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان کے اندر کیا ہو رہا ہے، ورنہ ہمیں اُن انکشافات کا ضرور علم ہوتا جن کے بارے میں پوری دنیا جان چکی ہے۔ شکاگو ٹرائی بیون امریکہ کا صف اول کا اخبار ہے اور کِم بارکر اس سے منسلک معروف صحافی خاتون ہے۔ اخبار نے اُسے پاکستان اور افغانستان میں تعینات کیا۔ اس قیام کے دوران اُسکے ساتھ جو واقعات پیش آئے اُن پر مشتمل اس کی کتاب شائع ہو کر تلاطم پیدا کر چکی ہے لیکن ہم مزے میں ہیں کہ ہمیں اس کا پتہ ہی نہیں۔ کِم بارکر نے:
THE TALIBAN SHUFFLE – STRANGE DAYS IN AFGHANISTAN AND PAKISTAN
نامی کتاب میں پاکستان کے ایک چوٹی کے سیاست دان کے بارے میں ناقابل یقین باتیں لکھی ہیں، انٹرویو کے دوران یہ سیاست دان اس صحافی خاتون کو کہتا ہے کہ اپنا ٹیپ ریکارڈر بند کر دے۔ اُسکے بعد کی گفتگو اس امریکی صحافی کے بقول کچھ اس طرح کی ہے
”کِم! کیا تمہارا کوئی دوست ہے؟“
میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اُن کا کیا مطلب ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں، میرے بہت سے دوست ہیں! ….
”نہیں، کوئی دوست بھی ہے؟“ .
… تب میں سمجھی ۔
”آپکی مراد بوائے فرینڈ سے ہے؟“ …
. میں نے اُنکی طرف دیکھا۔ میرے پاس دو راستے تھے، سچ کہوں یا جھوٹ بولوں۔ پھر یہ سوچ کر کہ دیکھوں تو سہی، یہ سوال کس طرف جا رہے ہیں، سچ بولنے کا فیصلہ کیا۔
”ہاں میرا بوائے فرینڈ تھا لیکن حال ہی میں ہمارا تعلق ختم ہو گیا“ ۔
”کیوں؟ کیا وہ بہت بور تھا؟
NOT FUN ENOUGH?“….
”نہیں، بس بات بنی نہیں“
”اوہ! مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تمہارا دوست کوئی نہیں! اگر تم چاہو تو میں تمہیں تلاش کر دوں؟“
یہاں پہنچ کر کِم بارکر لکھتی ہے ”افغانستان کی سرحد پر عسکریت پسند زور پکڑ رہے تھے، شہروں میں حملوں کی تعداد زیادہ ہو رہی تھی، درہ خیبر سے گزرنا ہی خطرناک ہو رہا تھا، مُلک ہچکولے کھا رہا تھا، کوئی سمت ہی نہیں تھی، جیسے بغیر کٹے ہوئے سر والی مرغی ہو، ایک طرف یہ حال تھا، اور دوسری طرف یہ صاحب مجھے ”دوست“ ڈھونڈ دینے کی پیشکش کر رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے پاکستان کے رہنمائوں کی ترجیحات ”واضح“ تھیں!“
اس دلچسپ گفتگو اور اپنے تبصرے کے بعد کِم بارکر بتاتی ہے کہ اسی سیاستدان نے اُسے اجمل قصاب کے بارے میں معلومات دیں جس پر بھارت ممبئی کی دہشت گردی کا الزام لگا رہا تھا۔ کِم بارکر کے الفاظ میں ”اس سیاستدان نے مجھے ”صحیح“ فرید کوٹ کے بارے میں بتایا جو ضلع اوکاڑہ میں ہے۔ اُس نے مجھے صوبائی پولیس کے سربراہ کا فون نمبر بھی دیا۔ اُس نے مجھے وہ باتیں بھی بتائیں جو بھارتی اور پاکستانی حکام نے اُسے زندہ بچ جانےوالے واحد عسکریت پسند کے بارے میں بتائی تھیں، ہمارے لئے یہ بہت بڑی خبر تھی۔ ایک سینئر پاکستانی اُس بات کی تصدیق کر رہا تھا جس کا حکومت پاکستان نے انکار کیا تھا یعنی یہ کہ حملہ آور پاکستان کے تھے!“
اُسکے بعد صحافی کے بقول کیا ہوا، سُنئے :
”انٹرویو ختم ہوا تو ”انہوں“ نے میری طرف دیکھا اور کہا ”کیا تم اپنے مترجم کو باہر بھیج سکتی ہو؟ میں نے کوئی بات کرنی ہے“ مترجم نے پریشان ہو کر میری طرف دیکھا۔ میں نے اُسے کہا کہ کوئی حرج نہیں۔ وہ باہر چلا گیا۔ پھر انہوں نے ٹیپ ریکارڈر بند کروایا۔
“ مجھے جانا ہے۔ مجھے اپنے اخبار کےلئے سٹوری لکھنی ہے“ میں نے کہا۔
انہوں نے میری بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور کہا ”میں نے تمہارے لئے آئی فون خریدا ہے“ ….
اسکے بعد صحافی لکھتی ہے : ….”آخرکار وہ مطلب کی بات پر آئے۔“ …. ”کِم! مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے لئے ”دوست“ نہیں ڈھونڈ سکا۔ میں نے کوشش کی لیکن ناکام رہا، وہ ”پراجیکٹ“ میں ناکامی کی وجہ سے واقعی مغموم نظر آ رہے تھے۔
“ کوئی بات نہیں“ میں نے جواب دیا۔ مجھے اس وقت فی الواقع کسی دوست کی ضرورت نہیں، میں دوست کے بغیر بالکل خوش ہوں، میں دوست کے بغیر رہنا چاہتی ہوں“
اس کے بعد پنجاب کے شیر نے جھپٹا مارا
۔ ”میں تمہارا دوست بننا چاہتا ہوں“ ۔
ابھی اُن کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ میں نے کہا ”نہیں، ہرگز نہیں، یہ نہیں ہو سکتا“ ۔
انہوں نے مجھے خاموش کرنے کےلئے ہاتھ لہرایا ۔ ”میری بات سُنو ۔ مجھے معلوم ہے کہ میں اتنا لمبے قد والا نہیں جتنا تم پسند کرو، میں اتنا فِٹ بھی نہیں، میں موٹا ہوں اور بوڑھا بھی ہوں لیکن اسکے باوجود میں تمہارا دوست بننا چاہونگا“
”نہیں“ ۔ میں نے کہا ۔ ”ہرگز نہیں“
پھر انہوں نے مجھے اپنے ہسپتال میں ملازمت کی پیشکش کی کہ کہ میں یہ ہسپتال چلائوں۔ ظاہر ہے میں اس کام کے لیے بالکل اہل نہیں تھی۔"۔
یہ ہے ہمارے رہنمائوں اور لیڈروں کا اصل چہرہ
http://columns.izharulhaq.net/2011_05_01_archive.html
“