آسیب گزیدہ زندگی گزارنے والا شاعر کامران ندیم
کامران ندیم تم ایسے ہمیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے۔۔۔ میں کیسے یقین کرلوں کہ تم پیوند زمین ہو۔
کئی سال پہلے محمد سالم صاحب نے بغیر نام کی چند غزلیات مجھے بھجوائیں اور ان پر رائے دینے کو بھی کہا۔ میں نے دو تین روز ان غزلیات کو پڑھا، ان کے متعلق سوچتا رہا کہ یہ کس شاعر کی غزلیں ہوں گی؟ ان غزلیات کا لہجہ منفرد نوعیت کا تھا جس میں معروض اور موضوع کا شاعرانہ تصادم ایک اچھوتی جمالیات لیے ہوئے تھا۔ ایک شعر مجھے آج بھی یاد ہے۔
۔۔۔ شاید بنائے شہر میں کوفہ خاک خاک ہے
۔۔۔ ہے اب بھی رنگ مدح ستم کر جدا جدا
چند ہفتوں بعد محمد سالم صاحب نے بتایا کہ یہ ان کی شہر ایڈی سن، نیوجرسی، امریکہ کے پاکستانی شاعر کامران ندیم کی شاعری ہے۔ اس کے بعد کامران ندیم سے فون اور انٹر نیٹ پر گفتگو ہوتی رہی۔ وہ ان دنوں اپنا مجموعہ کلام ترتیب دے رہے تھے۔ اور اس کے متعلق عموما مجھ سے صلاح مشورے بھی کرتے تھے۔ وہ اکثر مجھے اپنی شاعری بھجواتے۔ میں ان کی شاعری پر کسی بھید بھاو کے بغیر بڑی سفاکانہ تنقید کرتا تھا وہ ایسے نہایت ٹھنڈے دماغ سے میری باتوں کو غور سے سنتے اور اس کا کبھی برا نہیں مناتے تھے۔ میں جن شعری عیوب اور سقم کی نشاندھی کرتا تھا اور اس پر سوچتے تھے اور اپنے طور پر اس کی اصلاح بھی کرلیتے تھے۔
کوئی ڈھائی سال قبل جب کامران ندیم کو ڈاکٹروں نے " کولن کینسر" کی تشخیص کی تو وہ ٹوٹ کر رہ گئے تو مجھے فون پر کہنے لگے۔۔" یار میں اب زندہ نہیں رہوں گا، مجھے تو اردگر اندھیرہ پھیلتا محسوس ہورہا ہے۔ میں اس دنیا میں بس چند ماہ کا مہمان ہوں۔
تو میں نے پوچھا یار کامران تمہاری کیا عمر ہے"؟
تو بولے "کوئی پچاس کے آس پاس ہے"۔
میں نے کہا " تم تو میرے چھوٹے بھائی سے بھی عمر میں چھوٹے ہو۔۔۔ تم کو کچھ نہیں ہوگا سرکار، تم ہماری دعاؤں میں شامل ہو۔"۔۔۔
پھر سنجیدہ لہجے میں بولے۔۔۔"" یار سہیل بھائی میری قبر کے کتبے کے لیے کوئی شعر لکھ دو" میں یہ سن کر چونک گیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ میں نے کہا" یار تم پاگل تو نہیں ھو گئے ہو، تم کیسی باتیں کر رہے ہو، میں تم سے بڑا ہوں مرنا تو مجھے پہلے چاہیے تم کو میرے کتبے کے لیے شعر لکھنا چاہیے اور میری تاریخ وفات بھی تم ھی نکالو گے! "
تو پھر قدرے ہنستے ہوئے بولے " یار مجھے کیوں ٹالتے ہو میرا وقت رخصت آگیا ہے۔"۔۔۔ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور پھر کامران نے فون بند کردیا۔
جب ان کے بیاض "وحشت ہی سہی" پر مضامین اور تاثرات لکھوانے کا مرحلہ آیا تو ان کی کتاب پر اردو کے جید ادب اور نقاد لکھنے سے کتراتے رہے۔ جس کے سبب وہ ادبا اور خاص کر اردو کے نقادوں سے بددل ھوگئے تھے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے۔۔"
نہ کوئی میری کتاب پر لکھے گا، میرے مرنے کے بعد نہ کوئی میری قبر پر فاتحہ پڑھنے آئے گا نہ کوئی قبر پر مٹی ڈالے گا اور نہ ہی کوئی پھول ڈالے گا۔"۔۔۔ مجھے لگا کی ان کے لیے باہر کی دنیا بے مقصد اور بے سود ہوگئی ہے۔ میں ان کو ایسی باتیں سوچنے پر منع کرتا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان پر تنہائی کی ازیت ناکی گہری سے گہری ہوتی رہی۔
کامران ندیم ادبی اور علمی جریدہ نکالنا چاہتے تھے۔ ھم نے اس کا نام " مخاطبہ" تجویز کیا تھا۔ اور فیس بک پر اس کا صفحہ بھی بنایا تھا۔ جو آج بھی موجود ہے۔ ان کی طعبیت کی ناسازی، ان کی اور میری زاتی مصروفیات کے سبب یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
کامران ندیم کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا۔ گھر والے ان کو "چٹورا" کہتے تھے، میں نے بھی اسی مناسب سے ان کا نام "چٹورا شاعر" رکھ دیا تھا۔
وہ فون پر مجھکو اپنی شاعری سنایا کرتے تھے اور اس پر میری رائے بھی لیتے تھے مگر تیں چار منٹ بعد موضوع شاعری سے ہٹ کر کھانوں کی "تراکیب" (ریسی پیز) کی طرف مڑ جاتا تھا اور اس پر گفتگو ایک ڈیڑہ گھنٹے سے پہلے اختتام پزیر نہیں ہوتی تھی۔ انھیں کباب کھانے کا بہت شوق تھا۔ ممتاز حسین ہر ہفتے نیویارک سے کامران ندیم کے گھر نیو جرسی جاتے تھے۔ اور کبھی بھی بہاری کباب، سیخ کباب اور شامی کباب اپنے ساتھ لے جانا نہیں بھولتے تھے۔
میں جون2011 میں ان کے گھر ایڈی سن، نیوجرسی گیا۔ وہاں محمد سالم، رشیدہ عیاں بھی مدعو تھے۔ شعر و سخن کی محفل برپا ہوئی حسب روایت پر تکلف دعوت بھی تھی۔ جون 2015 میں اور ممتاز حسین "کباب" لے کر کامران ندیم سے ملنے اور عیادت کرنے کے لیے ان کے گھر گئے۔ ان کی اہلیہ فرح کامران نے بڑی خاطر مدارات کی۔ کامران ندیم اپنے کمرے سے اٹھ کرلیونگ روم (ڈرائنگ روم) میں صوفے پر آکر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد ان کے کچھ دوستوں کے خاندان پنسلوانیہ سے اور ان کے پڑوسی دوست رانا صاحب بھی معہ کنبے وہاں آگئے تھے۔ باتیں ھوتی رہیں۔ کامران بھی دھیمے لہجے میں ہمارے ساتھ گفتگو میں شامل رہے۔ میں نے کامران ندیم کی متوقع تفھیمی کتاب "مہا بھارت" کے کچھ ابواب پڑھ کر سنائے۔ تو کامران کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ جب چائے آئی تو یہ کتاب کا سلسلہ قرات اختتام پذیر ہوا۔ تو کامران ندیم نے میرے کان میں نحیف آواز میں آہستہ سے کہا۔۔۔
" یار کیا زبردست پڑ ھا ھے۔ دل خوش کردیا ہے ۔" ۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے بولے " سہیل تمہارا بوسہ لینے کو جی چاھتا ہے"۔۔۔۔۔
کامران ندیم کی تجہیزو تکفین میں اچھّی خاصی تعداد میں ان کے چاہنے والے دوست احباب شریک ہوئے۔ اور ایک افسوسناک صورت حال سامنے آئی کہ کامران ندیم کا ایک بڑا ادبی حلقہ ہونے کے باوجود صرف شاعر نقاد محمد سالم، افسانہ نگار ممتاز حسین اور ناقدہ خالدہ ظہور شامل جنازہ تھے۔
آج مجھے کامران ندیم کے کچھ اشعار یاد آرہے ہیں۔ چاھتا ھوں آپ کو بھی سنا دوں ؛
زندگی کچھ بھی نہیں
بس
ایک لا حاصل کے پیچھے
بھاگتے رہنے کی دھن ("رم زندگی")
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہشت ہستی میں بہت آبلہ پائی ہے ندیم
سرحد مرگ مسلسل تو اذیت ہے میاں
ھم رحلت کامران ندیم پر سیاہ پوش ہیں۔ کامران تمہاری باتیں، لڑائی جھگڑے، محبتیں اور تم سے فکری اختلاف کے باوجود تم دل میں بسے رہو گے۔ جہاں رہو، خوش رہو: *۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔