(Last Updated On: )
پروفیسرڈاکٹر غلام بشیر رانا، نابغہء روزگار فاضل اور ہفت اخترادیب جن کی کامرانیوں کا ایک عالم معترف ہے۔ آپ علوم و معارف کا وہ سمندر ہیں جس میں گہرائی بھی ہے اور وسعت بھی۔ بہترین نقاد، مورخ، محقق، ماہرِ تعلیم، فلسفی، ماہرِ نفسیات، ماہرِ بشریات ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ادب پرور، فکر پروراور بندہ پرور انسان ہیں۔ اس قحط الرجال کے زمانے میں اِن جیسا وسیع القلب، منکسر المزاج، فہم و فراست کی دولت سے مالامال ،درویشی کے انمول جوہر سے مزین انسان دوست آدمی گویا گوہرِ نایاب ہے۔ وہ جو کچھ زینت قرطاس کرتے ہیں اس سے انکی محنت و ذکاوت ، اردو زبان و ادب سے گہرا لگائو اور ان کے تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی تحاریر میں ندرت و نفا ست اورادبیت جھلکتی ہے۔ جس میں بات کہیں بیان السطور میں اور کہیں کھلے الفاظ میں نہایت بخوبی سے بیان کی جاتی ہے جس میں تحسین و تنقید، تجزیہ و محاکمہ کی رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ وہ تحقیقی روایات کے امین ہیں جو اپنے وسیلہء اظہار پر مکمل دسترس رکھتے ہیںجس کی اثر آفرینی سے ان کی تحاریر کی کیفیت سدا بہار معلوم ہوتی ہے۔ ان کی تحاریر نہ صرف لائقِ مطالعہ ہیں بلکہ اس میں علم و ادب کی کتنی ہیں شاخوں سے مزاولت رکھنے والوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ وہ مانند خورشید اپنے پر تو علم سے نہ صرف قاری کی فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں بلکہ ان کی تحاریر فکر و سوچ کی نئی جہتیں پیش کر کے طالبانِ علم کے لیے چراغِ راہ کا کام کرتی ہیں۔
لفظی مرقع نگاری سے تنقید و تحقیق کو تخلیق کا جو رنگ و آہنگ انہوں نے دیا ہے، ان بنا پر اگر انہیں زبان و بیان کا گنجینہ دار اور لفظوں کا بازی گر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
زیرِ نظر افسانہ " آسیب " 56 صفحات پر مشتمل مختصر مگر مسحور کُن جامع تحریر ہے جو کہ ای بُک (برقی کتاب) کی صورت میں پٹنہ سے حال ہی میں آن لائن پیش کی گئی ہے۔ اس کا رنگین مگر دیدہ ذیب ٹائٹل خوف، حیرت، مصیبت کے سبھی رنگوں کے باوجود آسیب زدہ دکھائی دیتا ہے۔
افسانہ کا مرکزی کردار ایک ضعیف معلم ہے جو کہ مربوط مگر تنہا زمانے کی الم ناکیوں اور رستم زدگیوں کو سہہ سہہ کر اب تھکاوٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ افسانے کے آغاز میں ہی خزاں اور بہار دونوں موسوں کی juxtraposition سے ایک طلسماتی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے کیونکہ ماہرِ بشریات ہونے کے باعث وہ اس بات پر گہری نظر رکھتے ہیں کہ یہ موسم خارجی کیفیت نہیں بلکہ داخی کیفیت کی غماز ہیں۔ اور یہاں موسموں کے بدلنے کا ذکر زمانی موسموں کے لحاظ سے نہیں بلکہ انسانی رویوں کے بدلنے کے باعث ہے جو اس انحطاط کے دور میں صبح بہاراں کی انبساط کو درد و آلالم کی بھٹی میں جھونک کر خزاں میں بدل دیتے ہیں۔ کیونکہ وقت کی بساط پر جب جذبات مات دے جاتے ہیں تو ان کی ضرب بڑی بھاری اور کاری لگتی ہے۔ اس خزاں رسیدہ لرزہ خیز کیفیت نے اس بوڑھے ضعیف کی خم رسیدہ کمر کو دکھ کے بوجھ سے مزید جھکا دیا ہے جو پہلے ہی اپنے جواں سال بیٹے کی وفات پر نوحہ کناں ہے۔ اس خزاں کی ویرانی کسی عفریت کی طرح پنجے گاڑھے اس کا خون چوس چوس کر اسے نڈھال کیے دے رہے ہیں۔ وہ جینا نہیں چاہتا مگر جیے چلے جا رہا ہے۔ اس کی کیفیت ایسی ہے کہ جس کے دلِ ناتواں میں زندگی کی امید ٹوٹ سی گئی ہو۔ جیسا کہ غالب نے ایک خط میں اپنی اسی کیفیت کو یوں تحریر کیا تھا;
" ___ مجھ کو دیکھو نہ آزاد ہوں
نہ مقیّد ، نہ رنجور ہوں
نہ تندرست، نہ خوش ہوں
نہ نا خوش، نہ زندہ نہ مردہ ،جئے
جاتا ہوں، باتیں کیے جاتا ہوں،
روٹی روزانہ کھاتا ہوں۔ جب
موت آئے گی مروں گا۔ نہ شکر
ہے نہ شکایت ، جو تقریر ہے
بے سبیل حکایت۔___ "
(خطوطِ غالب ،ص 212 )
اس رنج و عالم کی کیفیت سے تھک کر چور ہو کر جب جب وہ آنکھیں موند لیتا ہے تو وہ خواب کی کیفیت میں اپنی تسلی و تشفی کے لیے ان کی صورتیں گھر لیتا ہے جو اس کے نہایت اپنے ہوتے ہیں۔ انسان جن کے ساتھ خوشی کے پل بتاتا ہے، دکھ کی اذیت بھی انہیں کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہے۔
؎ وہ لوگ میرے بہت پیارکرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزارنے والے تھے
نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
(جمال احسانی)
ان رفتگان میں ان بوڑھے کا باپ ، بھائی اور بیٹا شامل ہیں۔ یہ کردار باقی افسانے میں نظر نہیں آئے لیکن ان کی ایک جھلک کی موجودگی سے خانگی ماحول اور معاشرتی حالت کا پتہ چلتا ہے کہ ان رشتوں کے ہونے کے احساس کی گرماہٹ زمانے کی سفاکیوں کی آہٹ کو مدھم کر دیتی ہے۔ یہاں پر ناسٹیلجیا کا عنصر بھی شامل ہے کہ انسان زندگی کی تلخ اور ناقابلِ برداشت حقیقتوں سے بیزار ہو کر ماضی کے جھروکوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور اپنے دلِ حزیں کو رفتگان کی یاد سے آباد کیے رکھتا ہے۔
؎ ہم اپنے رفتگان کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہیے ہیں
بوڑھا اس ان دیکھی اذیت میں مبتلا ہے جو اجل کے بے رحم ہاتھوں سے اس تک پہنچی ہے جو اس کے عزیز ازجاں بیٹے کو اچک کر لے گئی ہے۔ موت کو چاہے قابلِ قبول بنانے کے لیے ہزار ہا تاویلیں، دلیلیں گھڑ لی جائیں لیکن یہ ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی ذی روح کو مفر نہیں لیکن انسانی سائیکی کے لیے متاعِ عزیز کی موت کو قبول کرنا آسان نہیں ہے۔
موت کا ایک دکھ تو مرنے والے کا ہوتا ہے، لیکن ایک دکھ اور اذیت ناک تکلیف وہ ہے جو احساس کے، آس کے، پاس کے رشتوں کے مرنے پر محسوس ہوتی ہے۔ مرنے والوں کی یاد کو اپنے دل کے آئینے میں سجا کر انسان زندہ رہنے کے قابل تو ہو جاتا ہے لیکن بے حسی، خود غرضی اور حرصِ ہوس کی بھینٹ چڑھ کر زندہ رشتوں کی موت ایسا گہرا زخم دیتی ہے جو تا عمر مندمل نہیں ہوتا بلکہ کسی خوں آشام عفریت کی طرح کہیں اندر تک اتنی قوت سے پنجے گاڑھ دیتی ہے، جو ساری عمر رستا رہتا ہے۔ اس بوڑھے کو بھی اس الم کی بستی میں ایسی ہی عفریتوں کا سامنا ہے۔
خواب کی وادی میں لے جا کر افسانہ نگار اپنے تخلیل کے زور پر قاری کو وقت کے گزشتہ اوراق کی ورق گردانی کرواتا ہے اور ایک بالکل ہی الگ جہان میں لے جاتا ہے۔ جو منظر ان کے بعد پیش کیا گیا ہے، پہلے پہل تو اسے دیکھ کر بظاہر پہلے بیان کیے گئے اور بعد میں تراشے گئے منظر میں کوئی تعلق یا ربط نظر نہیں آتا ، لیکن تھوڑے سے غورو فکر کے بعد ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔ اس عالمِ آب و گل میں یہ دستور تو ازل سے رہا ہے کہ زمانہ خواہ حال سے متعلق ہو یا گزرے وقت کی سر گزشت، بہار کے رخصت ہوتے ہی احساس و جذبات، خلوص و محبت سے عاری بہری، خشک دوزخی دلدلوں کی صورت میں خزاں اس کی ساری خوبصورتی کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے۔
قحط الرجال کے گھٹن زدہ اور خار دار راہگزر میں بہار کے رخصت ہوتے ہی ہوا کا رخ دیکھ کر بدلنے والے موقع پرست لوگ آن کی آن میں ہی چہروں سے نقاب پلٹ کر مجرمِ انسانیت بن جاتے ہیں۔ قاعدہ عام یہ ہے کہ عالمِ آب و گل کے مجرم عالمِ ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن اس کار زارِ عالم میں ان کی موجودگی باقی زندگانیوں کے لیے غمِ مسلسل کی صورت میں سزا بن جاتی ہے۔ اور یہ ایسا سم ہے جس کے غم کا تریاق بھی نہیں ملتا۔
افسانہ نگار اپنے قلم کے زور پر قاری کے تخیل کو بلند کر کے تاریخ کے اس الم ناک باب میں لے جاتا ہیں جو وقت کے آئینہ پر ٹہری ہوئی ظلم و بربریت ، اجنبیت، اذیت اور بحرِ ظلمت کی وہ تصویر یں ہیں جن کا عکس موجودہ زمانے میں بھی واضح نظر آتا ہے۔ یہاں پر بھی آہیں بے اثر اور نگاہیں بے بصر ہیں۔ صرف وقت بدلا ہے کردار سب ویسے ہی ہیں بے ثمر۔ حال کے کرداروں کو ماضی کے ان کرداروں کا چولا پہنا کر متحرک کیا گیا ہے جو آفات و بلیات پھیلانے اور واہی تباہی بکنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔
موجودہ کو گزشتہ سے پیوستہ کر کے افسانہ نگار نے فنی چابکدستی سے جو منظر نگاری پیش کی ہے اور تاریخِ ادب سے وابستہ چند فکر و حقائق کی گرہ کشائی عصر حاظر کے تناظر میں کی ہے ، اس سے افسانہ نگار کی ذہن وذکاوت کی بصیرتوں اور تخلیقی فعالیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان مناظر میں جن کرداروں کو منظر پر لایا گیا ہے، اس سے افسانہ نگار کے اچھوتے تخلیقی تجربات اور تاریخ پر گہری نظر اور گرفت کا ثبوت ملتا ہے۔
ان مناظر کو اس طرح بیان کرنے کے کئی محرک ہو سکتے ہیں۔ برصغیر کی عظیم الشان سلطنت کی تباہی صرف ایک خطے کی تباہی نہ تھی بلکہ اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت کے نتیجے میں ہونے والی وہ ہلاکت انگیز تباہی تھی جس نے آدمیت کا انسانیت سے اعتبار ختم کر کے تہذیب و ثفاقت کی دیوار کو ڈھا دیا۔
ورجینیا وولف نے کہا تھا :
" ___ تہذیب کی دیوار منہدم
ہو چکی ہے۔___ "
اور اگر مجموعی لحاظ سے دیکھا جائے تو دیوارِ تہذیب کے اسی انہدام کی طرف اس افسانے میں بھی توجہ دلائی گئی ہے کیونکہ ایک بار تہذیب دم توڑ دے ، اقدار ملیا میٹ ہو جائیں تو زندگی کا تصور باقی نہیں رہتااور آج عصرِ حاضر میں تہذیب پھر دم توڑنے کو ہے جہاں انسانیت سسک رہی ہے لیکن بے حسی کے درندے دانت نکو سے اس کی بے بسی اور لاچارگی کا مزاق اُڑا رہے ہیں۔
افسانہ نگار نے ان مضامینِ غم کو بیان کرنے کے لیے جو پیرائیہ اظہار اختیار کیا ہے، اس میں تشبیہوں، استعاروں، علامتوں اور تراکیب کی بھرمار ہے۔ قفسی، مسبی، ظلی، ثباتی، مزلی، سمی وغیرہ کے ذریعے انسانی رویوں کو پیش کیا ہے جو ہمارے آگے سینہ تن کر بد نما کرداروں کی صورت میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر بدی انہی کے نام سے منسوب ہو جاتی ہے۔
افسانے میںخواب کے ذریعے حقیقت کے پردے فاش کرنے کے لیے ماضی اور حال کے مابین ایک پُل تعمیر کیا گیا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں افسانے میں ادب، تاریخ اور فلسفہء زندگی ایک دوسرے سے بغل گیر ہو جاتے ہیں۔
خواب کے ذریعے حقیقت نگاری کا جو مرقع پیش کیا گیا وہ افسانہ نگار کی تخلیقی بصیرتوں کا بین ثبوت ہے کہ وہ خوابوں کے ایک ایسے صورت گر ہیں جو اس دنیا کے آئینہ خانے کے سب رنگ دیکھ سکتے ہیں۔
کافکا کہاکرتے تھے کہ ایک کامیاب افسانہ قاری کو اسے دوبارہ پڑھنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ وہ اس کے ڈھکے چھپے معنوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ لیکن یہ افسانہ دوبارہ نہیں بلکہ سہ بارہ پڑھنے کی دعوت دیتا ہے کیونکہ اس میں وسعت معانی کا جہاں سمو دیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے ایسا وسیع کینوس قاری کے سامنے رکھ دیا ہے جہا ں انسانوں کو رفتگاں کے ہجر کا دکھ اٹھائے ، زندگی کی تلخ اور سفاک ظلمتوں اور جان لیوا مایوسیوں کا بوجھ اٹھائے ابتلائو آزمائش کے لق و دق صحرا کو عبور کرنا ہے جہاں قدم قدم پر طوفانی آندھیاں اور جھکڑ اس کے ہمت و حوصلے پست کیے دے رہے ہیں۔ یہاں ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن تصویر ابھرتی ہے کہ زندگی دہر رہ گزر سیلِ حوارث ہے۔ بقول شاعر:
؎ زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
زندگی بظاہر جتنی حسین اور خوبصورت نظر آتی ہے لیکن زندگی کے الم ناک واقعات جب اس کے چہرے سے نقاب پلٹتے ہیں تو وہ اتنی ہی بدصورت اور مکروہ نظر آتی ہے۔
؎ تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے
زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی
افسانے کے مطالعے سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ افسانہ نگار کو واقع نگاری پر قدرت حاصل ہے۔ زبان و بیان کا انداز کچھ گنجلک ہے لیکن اس میں رسانیت ہے۔ زبان کی پیچیدگیاں ادب شناس کے ذہن و نگاہ میں تو وسعت فکر پیدا کر سکتی ہیں لیکن عام قاری کو لفظوں کے گورکھ دھندے میں الجھا کر رکھ دیں گی۔ الفاظ و افکار کا برمحل استعمال گو اس کو دیدہ زیب بنا رہا ہے لیکن کہیں بے جا تشبیہات و استعارات کے ذریعے بیانیہ کوبوجھل کر دیا گیا ہے۔ زبان کی تلخی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے لیکن وہ فطری نظر آتی ہے۔
مجموعی طور پر اس افسانے کا موضوع دنیا کی بے ثباتی ہے جو کہ آفاقی موضوع ہے لیکن ضمنی طور پر رشتوں کی نا پائیداری اور معاشرتی، سماجی ، اخلاقی اقدارکے زوال کی بھی الم ناک داستان سنائی ہے۔ اس افسانے کے تناظر میں افسانہ نگار کی ذات بھی دکھائی دیتی ہے۔ جنہوں نے اپنا ذاتی کرب اور آشوب زیست کے اظہار کے لیے مختلف زاویے اپنائے ہیں اور شاید اس کو کتھارس کے لیے بھی استعمال کیا ہے کیونکہ جب الم و رنج کے مہبب سناٹوں اور سفاک ظالمتوں میں کوئی امید بر نہ آئے تو انتعاشِ غم کے لیے تخلیقِ فن کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کیونکہ زندگی کے تلخ اور لرزہ خیز واقعات انسان میں جینے کی تمنا ختم کیے دیتے ہیں۔ ان بادِ سموم کے زہریلے جھکڑوں میں جس طرح خود انہوں نے رفتگاں کی یاد سینے میں سجا کر ، تسلیم و رضا کا پیکر بن کر اور صبر کا دامن تھام کر اسوئہ شبیر کو اپنایا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اور تسلیم و رضا کا امرِ حقیقی جب وجدان میں اتر آتا ہے تو لا محالہ قلب و نظر گشادگی و تقویت پکڑتے ہیں یہی کشادگی اور فکرو نظر ہے جس کی بدولت زرخیز تخیل کی فراوانی نصیب ہوتی ہے۔
یہ افسانہ شش جہت ہے اور اس کا ہر رخ اور ہر رنگ زمینی مسائل سے جڑا ہوا عصری دردو کرب کا بین اظہار بھی ہے جس میں انفرادی دکھ درد بھی ہے اور اجتماعی المیہ بھی ہے۔ اور یہی المیہ عالمی تناظر میں سیاسی انتشار ، ذہنی پراگندگی اور معاشی بد حالی کی صورت میں بھی دکھائی دیتا ہے۔
لیکن الم اس کو اندوہ ناک کیفیت کے بعد یاس و ہراس کے اعصاب شکن ماحول اور ہجومِ غم کی ظلمتوں سے امید کی کرن نمودار ہوتی ہے جو اس بات کا واضح پیغام دیتی ہے کہ ظلمتوں کے سائے کتنی ہی دیر کیوں نہ چھائے رہیں، اندھیرے کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، صبحِ نور ضرور روشن ہوتی ہے۔
اس افسانے میں تجسس کا ایک تاثر ہے جو اس کے نام سے لے کر آخری سطح تک برقرار رہتا ہے جو قاری سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ الفاظ و معنی کے گہرے پانیوں میں اترے اور آگہی اور بصیرت کے نایاب گوہر ڈھونڈ کر لائے۔
راجندر سنگھ بیدی نے کہا تھا کہ:
" ___ عجب سازش ہے کہ
ابتدا میں انجام چھپا
ہوتا ہے اور انجام میں
ابتدا کی صورت ہو، اسی
چکر کو افسانہ کہتے ہیں۔___ "
اور انجام میں ظلمتوں کے سفاک اندھیروں سے نئی امید کی روشنی نکل رہی ہے۔
لیکن اس بوڑھے کی زندگی پر چھائے ہوئے آسیب کو جاننے اور پہچاننے کا فیصلہ افسانہ نگار نے قاری پر چھوڑ دیا ہے کہ آیا یہ آسیب اس کے رفتگاںکی یادوں کا ہے
ایک آسیب تھا یادوں کا ہٹایا نہ گیا
یا اس کار زار عالم کے بحر ظلمات میں تنہائی کا لرزہ خیز آسیب ہے۔
؎ قصہ ریگ رواں جب آندھیوں کی زد پہ آیا
دھند کا حیرت زدہ آسیب تنہا ہو گیا
یا یہ آسیب ان ارواحِ خبیثہ کے ہونے کا ہے جو انسان نما درندوں کی صورت میں کسی عضریت کی طرح زندگی پر منڈلاتی رہتی ہے۔ یا یہ آسیب اس حیرت و خوف کا ہے جو رتوں کی ہر بدلتی ہوئی آن کے ساتھ بدلتے ہوئے انسانی رویوں کو دیکھ کر انسان کو جکڑ لیتا ہے۔
جو بھیگی رات تو آسیب کے لشکر نکل آئے
کسی دیوار سے آنکھیں کسی سے سر نکل آئے
چھٹی جو دھند تو کتنے ہی صورت گر نکل آئے
کہ منظر کے پس ِ منظر میں کئی منظر نکل آئے
(منیر سیفی)