تین دن تک وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری لوگوں سے جھوٹ بولتے رھے کہ کابینہ میں کوئی ردوبدل نہیں ہو رھا۔ آج اسد عمر نے واضع کیا کہ وزیراعظم انہیں توانائی کا وزیر بنانا چاھتے تھے مگر انہوں نے کابینہ میں کوئی پوزیشن نہ لینے اور مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے،
فواد چوھدری کے نزدیک کابینہ کے اندر مچی کھلبلی کو چھپانے کے لئے جھوٹ بولنا ایک سیاسی عمل ہے۔ یہی کچھ سرمایہ دار طبقات عوام کے ساتھ کرتے ہیں۔ وقت پر سچ نہ بولنا، حقیقتوں پر پردہ ڈالنا اور ایمانداری کے ساتھ مسلسل جھوٹ بولنا ان کی اخلاقیات کا حصہ بن گیا ہے۔
اقتدار میں آنے سے کافی مہینے قبل عمران خان اپنی جس ٹیم کا فخر سے ذکر کرتے تھے ان میں سر فہرست اسد عمر تھے۔ وہ اقتدار میں آنے سے قبل ہی کئی مہینوں سے انہیں اپنے شیڈو وزیر خزانہ کے طور پر متعارف کراتے تھے۔
اسد عمر تحریک انصاف کی ڈارلنگ تھے، وہ ایک بڑے صنعتی ادارہ اینگرو کے ایگزیکٹو ڈاریکٹر کا عہدہ چھوڑ تحریک انصاف میں آئے تھے، اسلام آباد سے دو دفعہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے،
آخر کیا وجہ ہوئی کہ اسد عمر آٹھ ماہ ہی ڈارلنگ رہ سکے؟ اب تو پارٹی کے اندر سے بھی ان کے خلاف ایک پبلک مہم جاری تھی۔
یہ سب معیشت کی بری حالت اور مسلسل بڑھتی بحرانی کیفیت کی وجہ سے ہوا۔
سرمایہ درانہ معیشت دان جب اپنے آقاؤں کے لئے سیاسی سہارہ بننے کے بجائے انکے لئے سیاسی نفرت بڑھانے کا باعث بنیں تو ڈارلنگ وارلنگ اور تعلقات ایک طرف رکھ دئیے جاتے ہیں۔ اور پھر بائی بائی۔
اسد عمر نے اپنے پہلے مہینوں میں ریاستی کٹوٹیوں، نج کاریوں، روپے کی قدر کم کرنے اور قیمتوں کے بڑھانے کا جو سلسلہ جس سپیڈ سے شروع کیا تھا وہ اسں کو برقرار نہ رکھ سکا۔ اس نے نیو لبرل ایجنڈا کو تیزی سے عمل درآمد کرانے کی کوشش کی۔ اس نےاپنے ابتدائی معاشی اقدامات کے لئے جو دلائل دئیےاور ممکنہ نتائج کی پشین گوئیاں کیں ان میں سے ایک بھی پوری ہونے کے قریب نہ پہنچی۔
جب ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قیمت کو تقریباء 35 فی صد کم کر دیا تو اسد عمر کا دعوی تھا کہ اس سے ایکسپورٹ بڑھیں گی اور امپورٹس کم ہوں گی۔ ایسا تو نہ ہوا اور ایکسپورٹ تو بڑھنے کی بجائے پہلے سے بھی کم ہو گئیں۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ ان کے پاس ایکسپورٹ کے لئے ہےہی کیا جس کی عالمی منڈی میں بڑی مانگ ہو، خام مال باھر بھیجنے سے تو معیشت کو سہارا نہیں مل سکتا تھا۔
پھر انہوں نے وزارت سنبھالنے سے قبل ہی ائی ایم ایف کے پاس جانے کے اشارے دئیے تھے۔ وزارت سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا آضافہ کر دیا۔ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قیمت کو ایک سکیم کے ذریعے تیزی سے کم کیا۔ جب وہ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملنے گئے تو بڑے پرجوش تھے کہ شائد جاتے ہی انہیں 11 ارب روپے کے قرضہ جات مل جائیں گے۔ مگر جواب ملا کہ اپکی معیشت کا جائزہ لیتے ہیں۔
1980 کے بعد یہ ائی ایم ایف سے 13واں قرضہ جاتی پروگرام ہے یعنی 29 سالوں میں اس سے قبل پاکستانی سرمایہ دار فنانس منسٹرز 12 دفعہ قرضہ جات لے چکے ہیں۔ اور ہر دفعہ ائی ایم ایف کے یہی مطالبات ہوتے ہیں کہ پیسے واپس کرنے کے لئے قیمتیں بڑھاؤ، عوام پر لگنے والی ریاستی سبسڈیز کو کم کرو، روپے کی قیمت کم کرو، نج کاری کرو، یعنی تمام عوام دشمن اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں۔
ان تمام بارہ قرضہ جاتی پروگراموں کے باوجود، ان کی تمام شرائط ماننے کے باوجود سرمایہ درانہ معیشت نہ تو ترقی کے زینہ پر چڑھنے لگی اور نہ ہی اس کی بحرانی کیفیت ختم ہوئی،
یہ اس سسٹم کی جڑ میں ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان جیسا غیر ترقی یافتہ ملک سامراجی چنگل سے نہ تو آزاد ہو سکتا ہے اور نہ اس کی معیشت ایک ایسی ترقی کر سکتی جس میں بے روزگاری کم ہو، مہنگائی کا خاتمہ اور لوگوں کی انکم اور تنخواھوں ایک خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔
اسد عمر کس باغ کی مولی تھا کہ وہ سرمایہ درانہ معاشی رحجانات کا رخ بحران سے ترقی کی جانب موڑ سکتا۔
جو اسکے ساتھ ہوا اس کی وجہ اسد عمر کی نااہلی نہیں ہے، البتہ وہ پہلے کنسبت تیزی سے کٹوٹیوں کے خلاف ہو گیا تھا۔ روپے کی گرتی قیمت کو روکنے کی بات کر رھا تھا۔ نج کاری ہو نہیں رھی تھی، گیس اور بجلی کو مذید شدت سے مہنگا کرنے سے ہچکچا رھا تھا۔ وہ عوامی ردعمل سے گبھرا کر اپنی پہلے والی پالیسیوں کے کسی حد تک الٹ جانے کی بات کر رھا تھا۔
اسد عمر کہتا تھا یہ وقتی تکلیف ہے، معیشت چھ ماہ ماہ میں ٹھیک ہو جائے گی۔ آج کل تو وہ ایسی بات کرنے سے بھی شرماتا تھا۔
یہ تو آئی ایم ایف کو منظور نہ تھا۔ انہیں تو ایسا بندہ چاہئے تھا جو چوں چراں کئے بغیر ان کی ھدایات پر عمل کرتا۔
ایک اور خبر بھی گردش کر رھی ہے کہ اسد عمر فوج کے لئے بجٹ اس حد تک بڑھانےپر رضامند نہیں تھا جس حد تک فوجی جرنیل چاہ رھے تھے۔
پھر اسد عمر کی تحریک انصاف میں گروہ بندی بھی وہ ان کے ساتھ تھی جو جہانگیر ترین کے مخالف تھے۔ عمران خان نے تو طے کیا ہوا ہے کہ جس کے پاس طاقت اور پیسہ ہو گا اس کا ہی ساتھ دوں گا۔ وہ پیروں فقیروں کی بجائے ابھرتی بورژوازی کے ساتھ تھا۔ یہ بات بھی اسد عمر کے خلاف گئی۔
اخری کیل واشنگٹن میں ائی ایم ایف کے ساتھ “ناکام
مزاکرات” نے اسد عمر کے وزارتی کفن میں ٹھوک دیا۔ اسد عمر انکی ساری باتیں مانتا تو شائد کچھ ہوتا مگر ائی ایم ایف تو پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے، جو یہ چین کے ساتھ یارانے بڑھا رھے تھے اس کا بھی تو کسی طور بدلہ لینا تھا۔
اسد عمر کا جانا لکھا جا چکا تھا مگر معیشت کی بحالی نہیں۔
اب جو بھی آئے گا وہ اسد عمر کی نسبت کہیں تیزی سے نیو لبرل ایجنڈے پر کام کرے گا۔ نج کاری کرے گا۔ روپے کی قیمت کم کرے گا، نئے ٹیکس لگائے گا۔ فوجی بجٹ بڑھائے گا۔ قرضہ 11 ارب مل بھی گیا اور جس کے اب ملنے کے زیادہ امکانات ہیں مگر معیشت بحرانی کیفیت سے باھر نہیں آئے گی، وجہ نظام ہے، منسٹرز نہیں،
سرمایہ داری نظام اپنی سرشت میں عام لوگوں کے خلاف ہے۔ صرف اور صرف ایک انقلابی سوشلسٹ حکومت معیشت کے تمام اہم حصوں کو قومی ملکیت میں لے کر اسے محنت کشوں کی ٹریڈ یونینوں کی وساطت سے ترقی کے زینے پر ڈال سکتی ہے۔