اسد محمد خان کا ساقی فاروقی پر لکھا ایک دلچسپ، خوبصورت اور یادگار خاکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ سگ پرست
Niven) کو سامنے بٹھا کر اس مجموعے کے محاسن پر روشنی ڈالے گا۔ وہ کہنے لگا ”ایک صاحب نظر آدمی کی مدد سے میں آپ کی کہانیوں سے متعارف ہوں گا مسٹر خان۔ ساقی فاروقی کو تو آپ جانتے ہوں گے مسٹر خان؟
میں نے کہا”جی کم و بیش!“ اور مجھے کھانسی آگئی۔
اس سالے کی گدی اس وقت بھی آزاد تھی اور اٹھائیس برس پہلے بھی میرے ہاتھ نہیں آئی تھی۔
لندن میں اڑتی اڑتی یہ خبر سنی کہ ساقی کو اس کی انگریزی شاعری پر یا شاید اردو یا دونوں زبانوں کی شاعری پر نقد انعام دیا جانا ہے۔ شاید چار ہزار یاچالیس ہزار پاونڈ اسٹرلنگ۔ یہ بات ایک ایسے آدمی نے سنائی جو ساقی سے خوش نہیں تھا۔ اس نے دبی زبان سے اور شماتتِ ہمسایہ کے سے انداز میں مجھے بتایا کہ ناپسندیدہ مصنف سلمان رشدی نے بھی ساقی کی لکھی بعض انگریزی نظموں کی تعریف کی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے گسٹاپو کے اسٹائل میں آنکھیں چلائی تھیں۔
میں نے پوچھا تھا ”کون رشیدی(Rasheedee)؟
”شماتتی“ ہمسائے نے حیران ہوکر سوال کیا تھا،تم اخبار نہیں پڑھتے؟
نہیں۔
مگر یہ ساقی کے اصلی سفر لندن سے اٹھائیس برس آگے کی باتیں ہیں۔
ساقی فاروقی اس عرصے میں کراچی آتا رہا اور ہم سب کو ہاتھ پیر مارتے، اپنے لیے جگہ بناتے دیکھ دیکھ کر واپس جاتا رہا۔ مجال ہے جو اس نے کبھی بتایا ہو کہ وہ وہاں کیا کررہا ہے؟ کس طرح زندہ ہے؟ بس اتنی خبر دی کہ کمپیوٹر سے متعلق کچھ کررہا ہے۔
جب اس نے وہاں کچھ ٹھیک ٹھاک کرلیا تو ایک بار آکر بتایا گیا کہ میں نے بیس ہزار روپے کا واٹر بیڈ خریدا ہے یعنی پانی سے بھرا ہوا بستر۔ کہنے لگا پانی کی وجہ سے لہریں لیتا ہے وہ۔ ہم نے کہا، ڈوب مرو خبیث!
سلیم احمد نے کہا”خوب! لہجے میں خفگی تھی۔
اطہر نفیس بولے دوست کی طرف سے جو خبر بھی آئے، خوب ہے۔ اور بات واقعی خوش ہو کر کہی گئی تھی۔
آصف جمال سن کر ہنسنے لگا۔
جمال پانی پتی نے کہا ساقی گھاس کھا گیا ہے۔
چنانچہ ساقی نے پچاس پاونڈ منافع سے اپنا واٹر بیڈ ایک یہودی کو فروخت کر دیا اور یہاں اطلاع بھیج دی۔ ہم نے کہا ”جیتا رہ میرے یار!“ ہمیں پچاس پاو ¿نڈ کا منافع اچھا لگا۔
سلیم احمد بولے واہ! خوب آواز میں ساقی کے لےے لاڈ جھلک رہا تھا۔
اطہر نفیس نے کہا ”بھئی یہ بھی اچھی رہی۔“ اور انھوں نے قہقہہ لگایا۔
جمال پانی پتی بولے ”جب تک اس سے نہ پوچھ لوں کہ خریداکیوں تھا اور بیچ کیوں دیا؟ اس وقت تک کچھ کہہ نہیں سکتا۔
تو پھر ساقی نے پہلے ایک نظم لکھی ویرونیکا روتی کیوں ہو، بات کرو دل ڈوب رہا ہے“ پھر خبر آئی، اس نے وہاں شادی کرلی ہے۔ لڑکی کا نام ویرونیکا نہیں تھا، گنڈی تھا۔ ساقی نے ایک پب میں بیٹھ کر گنڈی کو بارہا سڑک سے گزرتے دیکھا تھا اور موقع پاکر اسے ویرونیکا والی نظم ترجمہ کرکے سنائی تھی، پھر شادی کرلی تھی۔
یہاں میں نے شادی کرلی۔ ساقی آیا، اس نے فرزانہ کو سن تریسٹھ میں دیکھا تھا۔ اس وقت تک وہ میری بیوی نہ ہوئی تھیں۔ ہماری شادی کے بعد اس نے گ”