اسد درانی کی ڈھٹائی اور میگنا کارٹا کی ضرورت ۔
کل سونے سے پہلے میرے ایک دوست نے مجھے pdf پر درانی کی کتاب جو اس نے raw کے سابقہ چیف کے ساتھ مل کر لکھی بھجوائی ۔ کوئی سو کے قریب صفحہ پڑھا مزید پڑھنا وقت کا ضیاع اور بلڈ پریشر چڑھانا تھا ، لہٰزا چھوڑ دیا ۔ کیا جھوٹے اور چھوٹے لوگ ؟ چار ٹکوں کی خاطر نجانے کیا کچھ نہ کر جائیں ۔ شرم آتی ہے سنتے اور پڑھتے بھی ۔
بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ کتاب لکھنے کا فیصلہ تینوں نے استنبول کے ایک ہوٹل میں کیا اور content کا فیصلہ Black Label پر اسلام آباد میں کیا ۔ درانی بہت فخر سے شراب کا ملاقاتوں میں تزکرہ کرتا ہے ۔
اپنے بیٹے کو انڈیا کی قید سے چھڑانے کے لیے آخری حد تک جاتا ہے ۔ اسے محب وطن گردانتے ہوئے لکھتا ہے جرمنی میں وہ ۲۰ سال سے تھالیکن جرمن پاسپورٹ نہیں لیا وطن سے محبت کی وجہ سے ۔ حالنکہ جب آپ جرمنی میں تعینات تھا تو وہیں ٹِک گیا۔ایک جرمن سافٹ ویر فرم کے لیے کام کرتا انڈیا چلا گیا اس کی فروخت کے لیے پاکستانی پاسپورٹ پر ۔ انڈین آئ بی کے ہتھے چڑھ گیا اور معاملہ اتنا بگڑ گیا تھا کہ آنی بی کے چیف کو دولت جس نے ساتھ کتاب لکھی نے کہ کر اسے چھڑوایا ۔ اور بیٹے نے واپس جاتے ہی جرمن پاسپورٹ بنوایا ۔
پاکستانی اداروں کی اس بھونڈے انداز میں تضحیک کی گئ ہے کہ اپنے Military attaché جرمنی میں تعین ہونے سے پہلے سیکیوریٹی چیک پر جناب فرماتے ہیں کہ ایک انٹیلیجینس کا سپاہی ماڈل ٹاؤن میں میرے رشتہ داروں سے میرے کردار کا پوچھنے گیا کوئ بھی گھر پر نہیں تھا تو ہمسایہ سے پوچھا یہ لوگ کیسے ہیں ۔ اُس رپورٹ پر جناب کلیر ہو گئے جرمنی پوسٹنگ کے لیے ۔
امریکہ کی CIA کو درانی صاحب تھڑڈ کلاس گردانتے ہیں بغیر یہ جانے کہ امریکہ کی deep state بہت کمپلیکس ہے اس میں بہت سارے ادارے ہیں جن میں ایک CIA بھی ہے ، اور دوسرا امریکی ادارے ٹیکنالوجی پر یقین رکھتے ہیں آپ کو تو کبوتر بھیجنا پڑتا ہے یا ان پڑھ حوالدار حالات جاننے کے لیے۔ امریکہ ایک ڈرون سے وہ کام لے لیتا ہے جو آپ سینکڑوں لوگوں اور جانوروں پر انحصار کر کے لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مستقبل کی warfare تو ساری cyber warfare ہے ۔ کیوں آخر جولین آسانجے کو لٹکانے کا فیصلہ ہو گیا ہے کہ ہیکنگ اب حکومتوں کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ ہر ملک ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک عجیب رِسک پر آ گیا ہے ۔ آئے دن پاکستان کی سرکاری اور فوجی سائٹس ہیک ہوئ ہوتی ہیں ۔
بحر کیف فضول کتاب ، صرف دو مقصد ، ایک شوبازی اور پاکستانی اداروں کو نیچا دکھانا دوسرا پاکستان کو ہندوستان کے قریب لانے کی بھونڈی کوشش۔ ایک feeler پھینکا ہے گو کہ پاکستانیوں کا اس پر شدید ردعمل آیا ہے ۔ درانی کو کٹہرے میں لانے کی بات ہو رہی ہے ۔ پہلے تو اصغر خان کیس میں اپنے خلاف سیاست دانوں کو پیسہ بانٹنے کا الزام تو بھگتے ۔ اس سے پہلے بھی خورشید قصوری نے انڈیا میں جا کر کتاب چھپوا کر منہ کی کھائ ۔ امن کی آشا والوں نے بھی بہت ڈھول بجائے دونوں ملکوں کو قریب لانے کہ بغیر یہ جانے کہ قصوروار اصل میں ہندوستان ہے جو انتہا پسند مودی ، گجرات میں مسلمانوں کے قاتل ، کو وزیر اعظم لے آیا ۔ نواز شریف نے اُس کو گلے لگایا اور اب اُن مودی کے ہاتھوں مسلمانوں کے بہے ہوئے خون کا حساب چُکا رہا ہے ۔ قدرت کا نظام ہے ۔
کیا یہ معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے ؟ ملک بیچنے کی کھلی چھٹی رہے گی یا کوئ آ کر اب اس کو روکے گا ؟ ایک نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت ہے ، آئین نیا لانا ہو گا ۔ میگنا کارٹا جسے Great Charter بھی کہا جاتا ہے ۔ ۱۲۱۵ میں جب بادشاہ جون کو سیاست دان چمڑ گئے اور اُس کا جینا دو بر کر دیا گیا تو یہ چارٹر لایا گیا جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ بادشاہ سمیت تمام لوگ اور ادارے قانون کے تابع ہوں گے ۔ گو کہ وہ اپنی موجودہ حالت میں انگلستان میں نافذ نہیں ہے ، سیاست دان اور مطلب پرست اس میں بہت زیادہ تبدیلیاں لے آئے ، لیکن انگلستان کے آئین کی روح ابھی بھی اسی میں ہے ۔
پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ بجائے کہ ایک ادارہ کو درست functional کیا جائے اس کے اوپر ایک اور ادارہ بٹھا دیا جاتا ہے ۔ NAB کی بلکل کوئ ضرورت نہیں تھی ۔ آپ دیکھیں بابو کا احتساب ACR سے شروع ہوتا ہے ، پھر E&D کاروائ ، پھر آڈٹ اور پبلک اکاؤنٹ کمیٹیاں ، پھر چیف منسٹر یا پرائم منسٹر انسپکشن ٹیمیں ، پھر اینٹی کرپشن کا محکمہ اور FIA اور سب کے اُوپر NAB اور آجکل چیف جسٹس کا Suo Moto ۔ اگر پھر بھی رشوت ستانی ختم نہیں ہو رہی تو راشی افسروں اور سیاست دانوں کو سیلوٹ مار کر ان کی غلامی قبول کرو ۔
فیصلہ کا وقت آ گیا ہے ۔ ایک لمبے دورانیہ کا سیٹ اپ لانا پڑے گا ۔ خزانہ تو اس وقت خالی ہے ۔ سٹیٹ بینک کا گورنر کل دانت نکال کر کہ رہا تھا کہ اب چین کم شرح سُود پر قرضے دے گا ۔ اوہ بھئ ان کو اُتارنا بھی تو ہے ؟ وہ تمہارا باپ قبر سے نکل کر اُتارے گا ؟ انتہا ہو گئ ہے ڈھٹائ ، بے شرمی اور بے غیرتی کی ۔
آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اگر ملک کو بچانا ہو گا ۔ مجھے حمیدہ شاہین کی رات پر غزل کے کچھ اقتباس یاد آتے ہیں ۔
رات کتنی بے حس ہے
اس کی آستینوں میں
کتنے سانپ پلتے ہیں
تا سحر گناہوں کے
کیسے دور چلتے ہیں
رات جیسے گونگی ہے
دیکھتی ہے سارا کچھ
اور کچھ نہیں کہتی
رات جیسے بہری ہے
سسکیاں نہیں سنتی
حوصلہ نہیں دیتی
جن کی کشتیوں کو غم
ضبط کے جزیرے پر
ٹھیرنے نہیں دیتا
جن کو بار بد بختی
زیست کے سمندر میں
تیرنے نہیں دیتا
ریگ ساحل شب پر
کیسے سر پٹختے ہیں
رات جیسے اندھی ہے
آسرا نہیں دیتی
دوست ہی نہیں بنتی
رات کتنی بے حس ہے
پاکستان پائندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔