ایک ترک سائنسدانوں کی ٹیم نے ایسا محلول تیار کیا جو قدیم عمارات کی ساخت کو بالکل اصلی حالت میں محفوظ رکھتا ہے۔
کسی بھی ملک میں تاریخی آثار قدیمہ کا تحفظ اس ملک کی تاریخ اور ثقافت کی بقا کے لیے ضروری ہے اور یہ ایک چیلنجنگ عمل بھی ہے۔ تحفظ کو آسان بنانے کے لیے اس ملک کے آثار قدیمہ ڈیپارٹمنٹ میں بہت سے نئے اور متنوع طریقے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں، قیصری یونیورسٹی، قیصرہ شہر جو ترکی کے صوبہ اناطولیہ میں واقعی ایک بڑی یونیورسٹی ہے، اس میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایک محلول کی شکل میں ایک نئی تکنیک تیار کی گئی ہے جو تاریخی عمارتوں کو ہوا اور بارش جیسے خستہ حال کرنے والے بیرونی عوامل سے بچاتی ہے، جس کے آزمائشی استعمال میں مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
قیصری یونیورسٹی کے پروفیسر عثمان اوزسوئے Osman Özsoy اور ان کے دو ساتھیوں کی طرف سے صرف سات ماہ کی محنت کے نتیجے میں تیار کیا گیا یہ مائع محلول اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پتھر، کنکریٹ اور کچھ کچی اینٹوں سے بنے تاریخی عمارات کے ڈھانچے بیرونی عوامل بشمول جیسے برف، بارش، دھوپ اور طوفانی ہواؤں سے محفوظ رہیں، اور ساتھ ہی ساتھ انکی مضبوطی بھی برقرار رہے جو زمانہ قدیم سے قائم ہے۔
عثمان اوزسوئےنے کہا کہ انہوں نے قدرتی اور تاریخی نوادرات کے تحفظ میں مدد کے لیے یہ مخصوص محلول تیار کیا، اور کہا کہ اب میرے نزدیک ان آثار قدیمہ کی بحالی ایک اہم کام ہے، جس میں آثار قدیمہ اپنی اوریجنل حالت میں رہنے کے باوجود موسمی اثرات سے بھی محفوظ رہیں
“ان آثار قدیمہ کی عمارات کے تحفظ کے لحاظ سے ہمارا سب سے بڑا نقصان خود ان عمارتوں کا جغرافیہ اور وہاں کی آب و ہوا جیسے عوامل ہیں۔ ہمارے ملک (ترکی) میں، جس میں Kültepe Mound (ترکی صوبہ قیصری میں پایا جانے والا ایک ساڑھے چار ہزار سال پرقدیم آشوری محل اور اسکا ٹیلہ) اور Koramaz Valley (صوبہ قیصری میں پایا جانے والا ایک اور تاریخی مقام) جیسی خوبصورت جگہ بھی ہے، ہم نے محسوس کیا کہ سب سے بڑا مسئلہ ان کچی اینٹوں سے بنی عمارتوں جنکو ایڈوب Adobe کہتے ہیں، کا تحفظ ہے، اور ہم نے ایک مطالعہ کیا کہ ہم اس کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں،” ozsoy نے ترکی خبر رسال ایجنسی Anadolu ایجنسی (AA) کو بتایا۔
کسی خطے کی تاریخ اور ثقافت کی بقا کے لیے وہاں موجود اصلی تاریخی عمارات کی ساخت ڈھانچوں کا تحفظ ناگزیر ہے اور یہ ایک چیلنجنگ عمل بھی ہے۔ اسطرح کے تحفظ کو آسان بنانے کے لیے آثار قدیمہ میں بہت سے نئے اور متنوع طریقے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں، قیصری یونیورسٹی میں ایک ایسے لیپ کرنے والےمحلول کی شکل میں ایک نئی تکنیک تیار کی گئی ہے جو تاریخی عمارتوں کو ہوا اور بارش جیسے خستہ حال بیرونی عوامل سے بچاتی ہے، جس کے آزمائشی استعمال میں مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
پروفیسر اوزسوئے نے وضاحت کی کہ انہوں نے جو محلول تیار کیا ہے وہ ایک گہری تحقیق کا نتیجہ تھا، اور سب سے پہلے اسے Cappadocia میں “پریوں کی چمنیوں” (ترکی کی ایک اثار قدیم کی سائٹ) کے تحفظ میں استعمال کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ محلول کے اطلاق کے شعبوں پر جو کام کر رہے ہیں وہ بہت اہم ہے، کیونکہ اس نہ صرف ان قدیم عمارتوں کو تحفظ مل سکتا ہے، بلکہ آنے والی مستقبل کی بلڈنگوں میں ماحول کے تغیرات سے تو تبدیلیاں آسکتی ہیں، انکو بھی روکا جاسکتا ہے۔
“ہم نے عمارت میں میکرو کریکس مطلب بڑی دڑاڑیں موجود ہونے کے باوجود اس محلول کو ایڈوب کی سطح پر لگایا،” اوزسوئے نے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔اس محلول نے ایڈوب کی پوری سطح کے ساتھ دیوار اور دیوار قائم کرتے وقت ایک اینٹوں کے ساتھ ایک سالماتی ڈھانچہ تشکیل دیتی ہے، جو ان ڈراڑوں میں جیسے بھرائی کا کام بھی کرتا ہے اور دوبارہ سے انکو ایک مضبوطی عطا بھی کرتا ہے۔ لیکن یہ ایک ھائیڈرو فوبک یعنی پانی سے کوئی نسبت نہ رکھنے والی ساخت بھی بناتا ہے۔
“ہم نے محلول کو ایڈوب پر لاگو کرنے کے بعد، اسکو بارش، برف اور موسم سرما میں آزمائش کے لیے چھوڑ ردیا تھا۔ عام طور پر، اس وقت میں، ان موسمی حالات میں رہنا ایڈوب کے نقصان کو تیز کرتا ہے،” انہوں نے کہا اورپھر یہ نوٹ کیا کہ اس نئےابتدائی محلول نے نقصان کو کم کرنے کی بجائے اسکو مزید بڑھا دیا۔ لیکن پھر پروفیسر اوزسوئے نے محلول کی کیمیائی ترکیب میں تھوڑا رد و بدل کیا اور اسکو بھی اپلائی کرکے نوٹ کیا۔ تو انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اب نیا بننے والا محلول اپنا کام بہتر طریقے سے کررہا ہے اور ایڈوب کی دیواروں اور دیگر مقامات پر موسمی انحطاط کے اثرات کم سے کم دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اوز سوئے نے مزید کہا کہ اس ایڈوب کے ٹیسٹ والے مواد پر محلول کے اثرات پر ٹیسٹ اسٹڈیز شہر میں ایک فن تعمیر کی فیکلٹی کے تعاون سے جاری رہیں گی جس نے ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
چار ہزار سال پرانے Kültepe کے آثار کی کھدائی کرنے والی ٹیم کے سربراہ پروفیسر فکری کولغلو Fikri Kulakoğlu نے اپنے ساتھیوں جو انکے ساتھ کھدائی میں حصہ لے رہے تھے، ان کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آثار قدیمہ کی کھدائیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا موسم کی سختیوں سے تحفظ ہے۔
“اگر آپ اچانک کسی ثقافتی آثار قدیمہ کے املاک کو کھدائی کرکے ظاہر کرتے ہیں جو تین، چار یا 10 ہزار سال سے زمین کے نیچے ہے، تو قدرتی طور پر موسمی اثرات کی وجہ سے اس کے تباہ ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ لیکن آثار قدیمہ کے ماہرین کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ جو بچا ہوا ہے اس کی حفاظت کریں۔ ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں، کام کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں، ” پروفیسر Kulakoğlu نے یہ بات کہی۔
“دوسری طرف، ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ ثقافتی قدیم اثاثے اور نمونے جو ہم نے دریافت کیے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ہماری پہنچ میں آجائیں ،” انہوں نے کہا کہ ثقافتی اثاثوں کو محفوظ رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہیں اس وقت ٹورسٹ وغیرہ کے سامنے پیش کیا جائے جب وہ اپنی محفوظ حالت میں ہوں”
کولغلو نے بتایا کہ وہ دریافت شدہ عمارتی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے پھر کئی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ “ہم نے تھوڑی دیر کے لیے نینو ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا۔ لیکن ہم کسی بھی طرح سے ایڈوب کی ساخت میں ہونے والی تنزلی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے،” انہوں نے کہا، ” لیکن اب، پروفیسر عثمان اور ان کی ٹیم کی طرف سے ایک مائع محلول تیار کرلیا گیا ہے۔”
” پہلے ہم چند جگہوں پر اس نئے تیار شدہ محلول کی ایک چھوٹی ایپلی کیشنز استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک نئے دریافت شدہ ایڈوب پر تجربہ کیا ر کہ آیا یہ اس کی حفاظت کرتا ہے یا نہیں۔ ایک ابتدائی مطالعہ کے طور پر، ہم نے اس ایڈوب کو ایک ماہ سے زیادہ ایسے حالات میں رکھا جو باہری ماحول سے زیادہ سامنا کرتا ہے جیسے ہوا، بارش، برف اور دھوپ جیسے موسمی اثرات ۔”
“پورے محلول کے لگانے کا اصل کام اگلی کھدائی کی مدت میں شروع ہو جائے گا اور ہم اس محلول کو کھدائی کے اس عرصے کے دوران مخصوص جگہوں پر منظم طریقے سے استعمال کریں گے۔ ہم اس کے اتار چڑھاؤ کا تعین کریں گے،” انہوں نے کہا اور مزید کہا، ” پر ہم نے اب تک کیے گئے مطالعے اور کام میں، ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام تکنیکوں میں سے جو ہم استعمال کرتے ہیں، یہ ایک سستا اور زیادہ مؤثر حل ہے۔” اور آثار قدیمہ کی عمارتی ساخت کو ایک بہتر طریقے سے حفاظت کرسکتا ہے۔ اسطرح اس نئے ایجاد کردہ محلول کی افادیت ثابت ہوگئ۔
سورس آرٹیکل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...